خبریں

کارکنوں اور دانشوروں کو بے رحمی سے جیل میں ڈال رہی ہے سرکار: ارندھتی رائے

بھیما کورے گاؤں  معاملے میں دہلی یونیورسٹی  کے پروفیسر ہینی بابو کی گرفتاری کے بعدمعروف ادیبہ  ارندھتی رائے نے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہیں جے این اسٹوڈنٹ یونین نے کہا کہ اس معاملے میں ہوئی سطحی جانچ کا واحد نشانہ  وہ کارکن اور اسکالر ہیں جنہوں نے مقتدرہ پارٹی کی پالیسیوں  اورفرقہ واریت  پر سوال اٹھائے ہیں۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: بھیما کورےگاؤں  اور ایلگار پریشد معاملے میں دہلی یونیورسٹی  کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کی این آئی اے کے ذریعے گرفتاری کے ایک دن بعد ارندھتی رائے نے کارکنوں، دانشوروں  اوروکیلوں کو بے رحمی سے لگاتار جیل میں ڈالنے کا الزام  لگاتے ہوئے  سرکار کو آڑے ہاتھوں  لیا۔

رائے نے کہا کہ سیکولر،ذات پات مخالف اورسرمایہ داروں کی مخالفت کرنے والی سیاست کی نمائندگی کرنے والے لوگ سرکار کی ‘تباہ کن  ہندو نیشنلسٹ  سیاست’ کے لیے خطرہ ہیں۔این آئی اے نے دہلی یونیورسٹی  کے شعبہ انگریزی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہینی بابو ایم ٹی کو بھیما کورےگاؤں ، ایلگار پریشد معاملے میں‘سازش کرنے والوں میں شامل’ بتاتے ہوئے 29 جولائی کو گرفتار کیا ہے۔

اس کے بعد رائے نے ایک بیان میں کہا، ‘کارکنوں، دانشوروں اوروکیلوں کو اس معاملے میں لگاتار بے رحمی سے گرفتار کیا جا رہا ہے جو سرکار کی اس سوچ کی مظہرہے کہ یہ نئی سوچ،سیکولر ،ذات پات مخالف اور سرمایہ داروں کی مخالف سیاست ، جس کی نمائندگی یہ لوگ کرتے ہیں، ہندو فاشزم  کا متبادل ڈسکورس دیتی ہے اور اس کی تباہ کن  ہندو نیشنل ازم  کی سیاست کے لیےکلچرل، اقتصادی اور سیاسی  بنیادپرواضح  خطرہ  پیدا کرتی ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘ان کی (ہندو نیشنل ازم کی)سیاست  نے ملک کو ایسے بحران  میں لا کھڑا کیا ہے جو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ  ہیں اور المیہ ہے کہ ان میں اس کے اپنے حامی بھی ہیں۔’جواہر لال نہرو ویونیورسٹی  کے اسٹوڈنٹ یوین نے بھی بابو کی گرفتاری کی مذمت  کی ہے۔جے این یو اسٹودنٹ یونین نے ایک بیان میں کہا، ‘بھیما کورےگاؤں  معاملے میں میں ہوئی سطحی جانچ کا واحد نشانہ  وہ کارکن اور اسکالر ہیں جنہوں نے مقتدرہ پارٹی کی عوام مخالف پالیسیوں  اورفرقہ واریت  پر سوال اٹھائے ہیں۔

یونین نے طلبا، دانشوروں اور شہریوں کے تمام ترقی پسند طبقوں  سے دھر پکڑ کے اس کالے دور میں یکجہتی  کی اپیل کی۔انہوں نے کہا، ‘ہم ڈاکٹر بابو اور دیگر کارکنوں  کی فوراً رہائی کی اور سیاست  سے متاثر جانچ کو ختم کرنے کی مانگ کرتے ہیں۔’قابل ذکر ہے کہ  پونے کی تاریخی شنیوار واڑا میں31 دسمبر 2017 کو کورےگاؤں  بھیما لڑائی  کی 200ویں سالگرہ  سے پہلے ایلگار سمیلن منعقد کیا گیا تھا۔پولیس کے مطابق اس تقریب  کے دوران دیے گئے خطابات کی وجہ سے ضلع کے کورےگاؤں  بھیما گاؤں کے آس پاس ایک جنوری 2018 کو تشدد  بھڑکا جس میں ایک شخص کی موت ہو گئی اور کئی دوسرے زخمی ہو گئے۔

این آئی اے نے ایف آئی آر میں 23 میں سے 11 ملزمین کو نامزد کیا ہے، جن میں کارکن سدھیر دھاولے، شوما سین، مہیش راؤت، رونا ولسن، سریندر گاڑلنگ، ورورا راؤ، سدھا بھاردواج، ارون پھریرا، ورنان گونجالوس، آنند تیلتمبڑے اور گوتم نولکھا ہیں۔تیلتمبڑے اور نولکھا کو چھوڑکر دیگر کو پنوے پولیس نے تشدد کے سلسلے میں جون اور اگست 2018 میں گرفتار کیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)