خبریں

سپریم کورٹ اس سطح پر آگئی ہے کہ جج بار سے خوف زدہ ہو نے لگے ہیں: بار ایسوسی ایشن صدر

بدھ کو ریٹائر ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس ارون مشرا کو ان کے ساتھیوں کی جانب سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے الوداعیہ  دیا گیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دشینت دوے نے اس تقریب  میں انہیں بولنے کا موقع نہیں دیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے ملک کے چیف جسٹس کوخط لکھا ہے۔

جسٹس ارون مشرا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

جسٹس ارون مشرا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جسٹس ارون مشرا بدھ کوریٹائر ہو گئے، لیکن سپریم کورٹ میں ان کا آخری دن بھی عدالت میں ان کے پچھلے چھ سال کی مدت کی طرح ہی متنازعہ رہا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دشینت دوے نے جسٹس مشرا کے الوداعیہ میں بولنے کے موقع سے محروم  کیے جانے پر اعتراض  کیا اور اس بارے میں سی جے آئی کو ایک خط لکھا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا(سی جےآئی)ایس اے بوبڈے کو ایک خط لکھتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن(ایس سی بی اے)کے صدر دشینت دوے نے اس بات پر اپنی سخت ناراضگی ظاہر کی  کہ جسٹس مشراکے الوداعیہ  کے دوران مسلسل ان کا رابطہ کاٹ دیا جا رہا تھا۔ آخرکار جب وہ  جڑ سکے، تب بار کا سربراہ  ہونے کے باوجود انہیں بولنے کے لیے نہیں کہا گیا۔

دوے کے مطابق، اس توہین کے بعد انہوں نے بار اور خود کے مفاد کو دیکھتے سیشن کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اس سطح  پر آ گئی ہے کہ جج، بار سے خوف زدہ  ہونے لگے ہیں۔

دشینت دوے۔ (فوٹوبہ شکریہ: منتھن سنواد)

دشینت دوے۔ (فوٹوبہ شکریہ: منتھن سنواد)

دوے نے بتایا کہ وہ سی جےآئی ایس اے بوبڈے کے اس پروگرام  سے 12.20 بجے جڑے تھے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال، سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور بار کے دوسرے سینئر ممبروں کے ساتھ چرچہ کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے وینوگوپال کا خطاب سنا۔

اس کے بعد سی جےآئی نے جسٹس مشرا کے اعزاز میں کچھ لفظ بولنے کے لیے سپریم کورٹ ایڈووکیٹس آن ریکارڈ ایسوسی ایشن کے صدر شیواجی جادھو کو بولنے کے لیے مدعوکیا۔جادھوکی طرف سے اپنے خطاب  میں دوے کی موجودگی  کا ذکر کیے جانے کے بعد دوے نے سمجھا کہ اس کے آگے ان کا ہی نمبر آئےگا۔ لیکن سی جی آئی نے دوے کو چھوڑکر سیدھے جسٹس مشراکو بولنے کے لیے مدعو کر لیا۔

یہاں پر دوے کو احساس ہوا کہ انہیں بولنے سے محروم  کیا جا رہا ہے اوراحتجاج  کے طور پر انہوں نے پروگرام  کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔سی جےآئی کو لکھے گئے دوے کے خط سے پتہ چلا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے جنرل سکریٹری  کو وہاٹس ایپ پر دوپہر 12:49 اور 12.53 بجے پوچھا کہ انہیں چپ کیوں رکھا گیا تھا اور انہیں مدعو ہی کیوں کیا گیا تھا۔

دوے آگے بتاتے ہیں کہ 1.02 بجے جنرل سکریٹری  نے کہا کہ وہ رجسٹرار کو اس معاملے کو دیکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس کے بعد دوے نے انہیں میسیج کرکے بتایا کہ وہ تقریب  چھوڑ رہے ہیں۔دوے نے سی جےآئی کو لکھےخط میں کہا ہے کہ وہ جسٹس مشرا کے الوداعیہ میں جو ہوا، اس سے مایوس ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے، ‘اس عظیم ادارے سے جس طرح کی امید کی جاتی ہیں، اس پورے معاملے میں وہ صحیح  طرح سے پوری نہیں ہوئیں۔ یہ پوری کوشش ہمیں مدعو کرنے اور دعوت قبول  کیے جانے کے بعد ایس سی بی اے اور اس کی ایگزیکٹوکمیٹی(ای سی)کی جانب  سے مجھے بولنے سے روکنے کے لیے کی گئی تھی۔ یہ صاف طورپرباراورذاتی طور پر میری توہین تھی۔ ہو سکتا ہے آپ کو ڈر رہا ہو کہ میں کچھ ناپسندیدہ کہہ سکتا ہوں تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کیا کہنا چاہتا تھا، جو میں نے لکھ کر رکھا ہے۔’

دوے نے کہا، ‘میں جسٹس مشرع کو ایس سی بی اے، ای سی اور خود کی طرف سے ان کی باقی زندگی  میں سکون اور امن وچین  کی دعا کرتا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ کی آگے کی زندگی بھی ہمیشہ کی طرح کامیاب رہے۔ میں بھگوان مہابلیشور سےدعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو آشیرواد میں اپنے بارے میں جائزہ  لینے کی قوت  دیں اور آپ کے صواب دید کوبیدار کریں۔’

دوے نے آگے کہا، ‘مجھے قبول کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ اس  سطح پر آ گئی ہے جہاں جج بار سے ڈرتے ہیں۔ برائے مہربانی یاد رکھیں، جج آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ہم یعنی بار مستقل رہتے ہیں۔ ہم اس عظیم ادارے کی اصل  طاقت ہیں کیونکہ ہم مستقل  ہیں۔ مجھے کہنا چاہیے کہ میں ذاتی طورپر اس واقعہ  سے بہت رنجیدہ  ہوں اور سپریم کورٹ کی جانب سے منعقد کسی بھی تقریب  میں پھر کبھی شرکت  نہیں کروں گا، جب تک کہ (ایس سی بی اے صدر کے طور پر) میری مدت دسمبر میں ختم  نہیں ہو جاتی۔’

میرے ہر فیصلے کا تجزیہ  کریں لیکن انہیں کوئی رنگ نہ دیں: جسٹس ارون مشرا

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ارون مشرا نے بدھ کو بار اور بنچ سے یہ کہتے ہوئے وداعی لی کی کہ انہوں نے ضمیرکی گہرائی سے معاملوں پرغور کیا اورمضبوطی  سے ہر فیصلہ کیا۔عدالت کی روایت کے مطابق مدت کار کے آخری دن جسٹس ارون مشرانے سی جےآئی ایس اے بوبڈے کے ساتھ بنچ شیئرکیا اور ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے عدلیہ  کو خطاب کیا۔

جسٹس مشرا نے ماہرین قانون  سے کہا کہ (ان کے)ہرایک فیصلے کاتجزیہ کریں لیکن انہیں کوئی رنگ نہ دیں۔انہوں نے کہا، ‘میں نے ہر معاملے پر ضمیر کی گہرائی سے غور کیا اور مضبوطی سے ہر فیصلہ کیا۔’سی جے آئی ایس اے بوبڈے، جنہوں نے پہلی اور آخری بار جسٹس مشراکے ساتھ بنچ شیئر  کیا،انہوں نے ریٹائرہو رہے جج کی تعریف  کرتے ہوئے ان کومکمل روشنی  بتایا اور کہا کہ ناسازگارحالات میں بھی وہ اپنے فرائض کونبھانے میں بےحد پرعزم رہے۔

سی جی آئی نے کہا، ‘جسٹس مشرا اپنے پیچھے سخت محنت، علم کی دولت، حوصلہ اور برداشت کرنے کی قوت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔’جسٹس بوبڈے نے کہا، ‘میں جسٹس مشرا آپ کی آرام دہ زندگی کی دعا کرتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ ہمارے رابطہ  میں رہیں گے اوریقینی طو رپر ہم اس کی کوشش کریں گے۔’

سی جی آئی نے کہا، ‘میں ایسے زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا جنہوں نے تمام پریشانیوں کے باوجود اپنا کام پورے حوصلے کے ساتھ کیا۔’معاملوں کی شنوائی ختم ہوتے ہی اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے جسٹس مشرا کی سبکدوشی کے بعد کی پرسکون زندگی کی دعا کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کووڈ 19وبا کی وجہ سے یہ الوداعیہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ کرنا پڑا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی سمیت متعدد وکلا نے جسٹس مشرا سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جسٹس مشرانے اپنے ساتھی  ججوں  اور وکلا کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا، ‘میں نے جو کچھ بھی کیا اس کے پیچھے آپ سب کی طاقت تھی۔ بار کے ممبروں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بار کے ممبروں  سے قانون کی متعدددفعات کے بارے میں میں نے سیکھا ہے۔’

جسٹس مشرا نے کہا، ‘ کبھی کبھی میں براہ راست  یا بالواسطہ طورپراپنے رویہ میں سخت ہو جاتا تھا۔ کسی کو اس کے لیے چھوٹامحسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اگر میں نے کسی کو ٹھیس پہنچایا ہے تو مجھےمعاف کریں، مجھے معاف  کریں، مجھےمعاف کریں۔’انہوں نے پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کے معاملے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ وینوگوپال نے کہا کہ وہ کوئی سزا نہیں چاہتے۔

وینوگوپال نے جسٹس مشرا کو سخت گیر جج بتایا اور کہا کہ ہم سپریم کورٹ میں ان کی کمی محسوس کریں گے اور ہم ان کی  اچھی صحت  کی دعا کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)

سپریم کورٹ(فوٹو : رائٹرس)

سپریم کورٹ ایڈووکیٹس آن ریکارڈ ایسوسی ایشن کے صدر شیواجی جادھو نے جسٹس مشرا کی زندگی  بالخصوص جوڈیشیل مدت کے بارے میں مختصر بیان  پڑھا۔اس موقع پر سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور دیگر قانون افسر بھی موجود تھے۔ اس سے پہلے، 30 اگست کو جسٹس مشرا نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کنفیڈریشن آف انڈین بار کی الوداعیہ تقریبات کی دعوت یہ کہتے ہوئے قبول نہیں کی  تھی کہ کووڈ 19کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے اور اس لیے وہ اس میں شامل نہیں ہو پائیں گے۔

بتا دیں کہ جسٹس ارون مشرا سات جولائی 2014 کو سپریم کورٹ کے جج بنے تھے۔

جسٹس مشرا نے کئی مشہور معاملوں میں فیصلے سنائے

جسٹس ارون مشرا کو سپریم کورٹ کے جج کےطورپرمبینہ رشوت دینے سے متعلق  سہارا بڑلا ڈائری کی بنیاد پر بڑی ہستیوں کے خلاف الزامات کی اسپیشل جانچ ٹیم سے جانچ کی مانگ ٹھکرانے سے لےکر کارکن وکیل پرشانت بھوشن کو توہین عدالت کے معاملے میں قصوروارٹھہرانے کے بعد سزا کےطورپر ان پر ایک روپے کا علامتی جرمانہ کرنے سمیت اکئی اہم فیصلوں کے لیے یاد کیا جائےگا۔

کئی اہم  فیصلے سنانے والے جسٹس مشرا ایک پروگرام کے دوران وزیراعظم  نریندر مودی کی تعریف کرنے کی وجہ سےتنازعہ  میں بھی رہے۔ بار کے ایک طبقہ نے جسٹس مشراکی اس کے لیے تنقید بھی کی تھی۔ایک اور تنازعہ اسپیشل  سی بی آئی جج بی ایچ لو یا کے قتل  معاملے کی غیرجانبدارانہ  جانچ کے لیے دائر عرضی  کی جسٹس مشرا کی قیادت  والی بنچ  کےسامنےلسٹ ہونے سےمتعلق تھا۔

یہ معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب عدالت کے چارسینئر ججوں  نے جنوری، 2018 میں غیرمتوقع  قدم اٹھاتے ہوئے پریس کانفرنس کیا تھا۔عدالت کی ویب سائٹ کے مطابق مدھیہ پردیش، راجستھان اور کلکتہ ہائی کورٹ  کےجج کے طورپرانہوں نے تقریباً97000 مقدموں کا فیصلہ کیا اور دوررس  اثر والے کئی فیصلے سنائے۔

جسٹس مشرا کے فیصلوں میں جنوری، 2017 میں سنایا گیا دو رکنی بنچ  کا وہ فیصلہ بھی شامل ہے جس میں  بڑلا اور سہارا گروپ  کی کمپنیوں پر چھاپے کے دوران برآمدقابل اعتراض دستاویزوں کی بنیاد پراسپیشل  جانچ ٹیم کے لیے دائر عرضی  خارج کی گئی تھی۔ریٹائر ہونے سے چند دن پہلے ہی جسٹس مشرا کی قیادت  والی تین رکنی بنچ  نے پرشانت بھوشن کو عدلیہ کے لیے ہتک آمیز ٹوئٹ کرنے پرقصوروا ٹھہراتے ہوئے ان پر سزا کےطور پر ایک روپے کا علامتی  جرما نے کا فیصلہ سنایا۔

اس کے علاوہ، جسٹس مشرانے ماحولیاتی تحفط، پریشان مکان خریداروں کی پریشانی  اورٹیلی کام سے متعلق  معاملوں میں اہم  فیصلے دیے۔جسٹس مشرا نے بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس ، 2020- ‘عدلیہ اور بدلتی دنیا’ کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کی تھی ، جس کی وجہ سے بار کے ایک حصے نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔

ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل جسٹس مشرا کی سربراہی میں بنچ نے ٹیلی کام کمپنیوں کو حکومت کو دس سالوں میں ایڈجسٹ شدہ مجموعی محصول سے متعلق 93000 کروڑ روپے کے واجبات ادا کرنے کی اجازت دی۔جسٹس مشرا کا سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے آخری فیصلہ اجین کے مہاکلیشور مندر میں شیوالنگم کے کٹاؤ کو روکنے سے متعلق ہے۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)