خبریں

اتر پردیش سرکار کا سپریم کورٹ میں دعویٰ-ہاتھرس متاثرہ نے دو بیان درج کرائے تھے

الزام ہے کہ اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں14ستمبر کو اشرافیہ کے چار نوجوانوں نے 19سالہ دلت لڑکی سے بے رحمی سے  مارپیٹ کرنے کے ساتھ ریپ کیا تھا۔ لڑکی نے 29 ستمبر کو دہلی کے اسپتال میں علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔

ہاتھرس ضلعے میں متاثرہ کے گاؤں میں تعینات پولیس فورس۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ہاتھرس ضلعے میں متاثرہ کے گاؤں میں تعینات پولیس فورس۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں19سالہ دلت لڑکی سے مبینہ طور پر گینگ ریپ اور اسپتال میں اس کی موت کے معاملے کو لےکرسپریم کورٹ میں ریاستی سرکار نے ایک حلف نامہ دائر کرکے کہا ہے کہ 14ستمبر کو علی گڑھ کے جواہر لال میڈیکل کالج میں بھرتی دلت لڑکی نے دو بیان درج کرائے تھے۔

ہاتھرس ضلع میں14ستمبر کومبینہ طور پر ہوئے گینگ ریپ کے دو ہفتے بعد 29 ستمبر کو لڑکی نے دہلی کے اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش سرکار کے حلف نامے کے مطابق، لڑکی کا پہلا بیان 19ستمبر کو ایک خاتون کانسٹبل نے اسپتال میں درج کیا، جس میں اس نے کہا تھا کہ چاروں ملزمین میں سے سندیپ نے اس کو ہراساں کیا تھا اور دوپٹے سے گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی تھی۔

یوپی سرکار کے حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘19 ستمبر کو سی آر پی سی کی دفعہ161کے تحت خاتون کانسٹبل رشمی نے لڑکی کا بیان درج کیا۔ اس وقت وہ اسپتال کے نیورو وارڈ کے آئی سی یو میں بیڈ نمبر نو میں بھرتی تھیں۔ یہ بیان ان کے والدین کے ساتھ لیا گیا، جس کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملزم سندیپ عرف چندو نے ان کو ہراساں کیا تھا اور دوپٹے سے گلا گھونٹ کر انہیں مارنے کی کوشش کی تھی۔ اس بیان کی بنیاد پر پولیس نے فوراً آئی پی سی کی دفعہ354 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔’

حالانکہ، بیان کی اس کاپی کو حلف نامے کے ساتھ منسلک  نہیں کیا گیا۔حلف نامے میں کہا گیا کہ دو دنوں بعد 21 ستمبر کو لڑکی کےاہل خانہ  نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کا بیان دوبارہ لیا جائے۔

حلف نامے کے مطابق، ‘21 ستمبر کو لڑکی کےاہل خانہ نے جانچ افسر کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پولیس 22 ستمبر کو ان کی بیٹی کا بیان دوبارہ لیں۔ اس درخواست پر جانچ افسر ایک خاتون  ہیڈ کانسٹبل سرلا کے ساتھ علی گڑھ اسپتال پہنچے اور آئی سی یو کے وارڈ نمبر چار میں لڑکی کا بیان دوبارہ درج کیا، جس کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی گئی۔ لڑکی نے پہلی بار کہا کہ جب میں اپنی ماں کے ساتھ چارہ اکٹھا کرنے گئی تھی تو میرے ہی گاؤں کے سندیپ، رامو، لوکش اور روی نے میرا ریپ کیا۔ اس کے بعد سندیپ نے دوپٹے سے میرا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔’

اصل بیان(ہندی)کی کاپی پر لڑکی کے انگوٹھے کے نشان بھی ہیں۔ اس کے ساتھ بیان کے ترجمےکی کاپی کو حلف نامے کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘لڑکی سے اس بارے میں پوچھ تاچھ بھی کی گئی تھی کہ انہوں نے پہلے بیان میں کہا تھا کہ سندیپ نے ان کو ہراساں  کیا تھا لیکن اب کہہ رہی ہیں کہ چاروں نے ریپ کیا، جس پر لڑکی نے کہا کہ وہ اس وقت پوری طرح سے ہوش میں نہیں تھیں۔ ان سب نے میرا ریپ کیا اور میں اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتی۔’

سرکار کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ لڑکی کے بھائی کے ذریعے14 ستمبر کو درج کرائی گئی شکایت میں کہا گیا تھا کہ سندیپ نے میری بہن کو مارنے کی منشا سے اس کا گلا گھونٹا تھا۔

حلف نامے کے مطابق،‘لڑکی نے یہ بھی کہا کہ سندیپ نے ہاتھ سے ان کا گلا دباکر مارنے کی کوشش کی اور اس وجہ سے ان کے گلے میں درد ہو رہا تھا۔ لڑکی اور ان کی ماں دونوں نے ویڈیو ریکارڈنگ میں صاف طور پر کہا ہے کہ گردن کے علاوہ انہیں(لڑکی)کہیں اور چوٹیں نہیں آئیں۔ملزم صرف سندیپ تھا، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوا تھا۔’

حلف نامے میں کہا گیا کہ علی گڑھ کے ڈاکٹروں نے اہل خانہ کو باربار صلاح دی کی کہ وہ لڑکی کو ریڑھ کی ہڈی کے اسپیشل  اسپتال میں بھرتی کرنے کے لیےرضامندی دیں تاکہ ان کا بہتر علاج ہو سکے لیکن انہوں نے اس کے لیے رضامندی دینے سے انکار کر دیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق،والد اور بھائی کے مبینہ طور پردستخط  شدہ بیان میں کہا گیا ہے، ‘میں متاثرہ کا بھائی ہوں اور ہم علاج سے مطمئن ہیں۔ ہم مریض کو یہیں رکھیں گے۔ اگر مریض کو کچھ ہوتا ہے تو اس کے لیے ڈاکٹر یا اسپتال ذمہ دار نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر ساحل نے 24 ستمبر کو شام 7:10 بجے اس بیان کی تصدیق کی۔’

منسلک دستاویزوں کے مطابق، 28 ستمبر کو لڑکی کو دہلی شفٹ کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ جے این میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘درخواست پر ایمس میں ریفر کیا جا رہا ہے۔’

دستاویزوں کے مطابق، ‘لڑکی کے علاج اور انہیں شفٹ کرنے کے دوران ان کے اہل خانہ کو ان کی صحت کے بارے میں صحیح رائے نہیں دی گئی۔اہل خانہ بہتر علاج کے لیے انہیں ایمس میں بھرتی کرانا چاہتے تھے۔’حالانکہ، اس کے بعد لڑکی کوصفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا، جہاں ان کی موت ہو گئی۔

بتا دیں کہ اس سے پہلے اتر پردیش سرکار نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے بتایا تھا کہ لاء اینڈ آرڈر کو بنائے رکھنے کے لیے29 ستمبر کی دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی  کی گئی  تھی۔

ریاستی سرکار نے حلف نامے میں کہا تھا کہ انہیں خفیہ ایجنسیوں سے جانکاری ملی تھی کہ اس معاملے کو لےکر صبح بڑے پیمانےپر دنگا کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اگر صبح تک انتظار کرتے توحالات بے قابو ہو سکتے تھے۔

بتادیں کہ 19سالہ لڑکی سے گزشتہ14 ستمبر کو گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ملزمین  نے ان کی زبان  بھی کاٹ دی تھی۔ ان کا علاج علی گڑھ کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا۔تقریباً10دن کے علاج کے بعد انہیں دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔

واقعہ کے 9 دن بیت جانے کے بعد 21 ستمبر کو لڑکی ہوش میں آئی تو اپنے ساتھ ہوئی آپ بیتی اپنے گھروالوں کو بتائی۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو انہوں نے پولیس کے سامنےبیان دیا تھا۔متاثرہ  پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔

29 ستمبر کو لڑکی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں  نے پولیس پر ان کی رضامندی  کے بغیر آناًفاناً میں29 ستمبر کو ہی  دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ، پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔

لڑکی کے بھائی کی شکایت پرچار ملزمین سندیپ (20)،اس کے چچا روی(35)اور دوست لوکش (23)اور رامو (26)کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف گینگ ریپ اور قتل کی کوشش کے علاوہ ایس سی/ایس ٹی  ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

اس بیچ ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کے ذریعے متاثرہ کے والدکو مبینہ طور پر دھمکی دینے کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا تھا، جس کے بعد معاملے کو لےکر پولیس اور انتظامیہ کے رول  کی تنقید ہو رہی ہے۔

لڑکی کی موت کے بعدجلدبازی میں آخری رسومات کی ادائیگی  کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔نیشنل وومین کمیشن (این سی ڈبلیو)نے اتر پردیش پولیس سے جلدبازی میں رسومات کی ادائیگی پر جواب مانگا ہے۔

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہاتھرس کے واقعہ کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی ٹیم بنائی  تھی۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد لاپرواہی اورلاپرواہی  کے الزام  میں دو اکتوبر کوایس پی وکرانت ویر، سرکل آفیسررام شبدٹ، انسپکٹر دنیش مینا، سب انسپکٹر جگ ویر سنگھ، ہیڈ کانسٹبل مہیش پال کوسسپنڈ کر دیا گیا تھا۔معاملے کی جانچ اب سی بی آئی کو دے دی گئی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ریاستی پولیس نے کم ے کم 19 شکایتیں درج کی ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اتر پردیش سرکار کو بدنام کرنے اور ذات پات کی بنیاد پرکشیدگی کو بڑھانے کے لیے ایک بین الاقوامی  سازش کی گئی ہے۔