خبریں

اتر پردیش: گھر والوں کی رضامندی کے باوجود لکھنؤ پولیس نے بین مذہبی شادی رکوائی

پولیس کے مطابق، ہندو یووا واہنی کے کچھ ممبروں  نے شادی کو لےکر اعتراض کیا تھا۔ نئے قانون کے تحت بین مذہبی شادی  کے لیے ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینا ضروری کر دیا گیا ہے۔ اس کی جانکاری لڑکے اور لڑکی کے اہل خانہ کو دے دی گئی ہے، انہوں نے منظوری ملنے کے بعد شادی کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتر پردیش پولیس نے مبینہ‘لو جہاد’کو روکنے کےنام پر یوگی سرکار کی جانب سے لائے گئے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھنؤ میں ایک بین مذہبی  شادی کو رکوا دیا، جبکہ دونوں فیملی  کے لوگوں کے بیچ رضامندی تھی۔پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ہندو تنظیموں  سے اس سلسلے میں شکایت ملی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ دو دسمبر کو لکھنؤ کے ڈوڈا کالونی میں شادی ہونے والی تھی۔ شادی کی آخری  تیاریاں پوری ہونے والی تھیں کہ اسی بیچ لکھنؤ کے پارہ پولیس اسٹیشن کی ایک ٹیم موقع پر پہنچ گئی اور شادی کر رہے جوڑےسے کہا کہ وہ آگے بڑھنے سے پہلے لکھنؤ ضلع مجسٹریٹ سے اس کی منظوری لیں۔

پولیس آفیسر نے بتایا کہ ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی ہونے والی تھی۔ پارہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایس او ترلوکی سنگھ نے بتایا،‘لڑکی کی فیملی ہندو ہے اور لڑکے والے مسلمان ہیں۔ دونوں رضامندی کے ساتھ شادی کر رہے تھے، وہاں کوئی زور زبردستی نہیں تھی۔’

انہوں نے آگے کہا، ‘ہندو یووا واہنی کے کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور ہم نے شادی رکوا دی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ انہیں نئے قانون کے تحت ضلع مجسٹریٹ سے منظوری لینی ہوگی۔ ہم نے انہیں بتایا کہ تبدیلی مذہب کا کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔’

سنگھ نے بتایا کہ 22 سالہ دلہن اور 24 سالہ دولہے کے  گھروالوں نے شادی کے لیے ضلع مجسٹریٹ سے منظوری ملنے تک انتظار کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا دولہا یا دلہن میں سے کسی نے بھی مذہب تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیاتھا، ایس ایچ او نے کہا، ‘یہ بعد میں ہو سکتا ہے، لیکن دونوں نے ہم سے کہا کہ وہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لڑکا ہندو بن کر شادی کرنا چاہتا تھا۔ دونوں ہندو رسم و رواج کے ساتھ شادی کر رہے تھے۔’

لکھنؤ ڈی جی پی (جنوب)روی کمار نے بتایا کہ لڑکے اور لڑکی  کو نئے متعلقہ ایکٹ کی ایک کاپی  دےکر یہ جانکاری دی گئی ہے کہ کس دفعہ کے تحت جب تک ضلع مجسٹریٹ کی اجازت نہیں مل جاتی، وہ شادی نہیں کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا،‘دونوں فیملی کو ان کے وکیلوں کی موجودگی میں اہتماموں کی جانکاری دے دی گئی ہے۔ انہوں نےتحریری طور پر اس بات کی رضامندی دی ہے کہ وہ پہلے جلا مجسٹریٹ سے اس بات کی اجازت لیں گے پھر شادی کریں گے۔’

بتا دیں کہ گزشتہ 24 نومبر کو اتر پردیش سرکار ‘لو جہاد’ کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب پر لگام لگانے کے لیے ‘قانون’لے آئی تھی۔اس میں شادی کے لیے فریب، لالچ دینے یا جبراً تبدیلی مذہب کرائے جانے پر مختلف اہتماموں کے تحت زیادہ سے زیادہ 10سال کی سزا اور 50 ہزار تک جرما نے کا اہتمام  کیا گیا ہے۔

بتا دیں کہ اتر پردیش پہلی ایسی  ریاست ہے، جہاں لو جہاد کو لےکر اس طرح کا قانون لایا گیا ہے۔