خبریں

’لو جہاد‘ کے نام پر ہراسانی کے ڈر سے لڑکے-لڑکی نے کہا-لوٹ کر یوپی نہیں جا ئیں گے

اتر پردیش کے ایک مسلم نوجوان  اور ہندولڑکی نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی  دائر کرکے نہ صرف ان کی فیملی  بلکہ یوپی پولیس سے بھی تحفظ کی مانگ کی ہے۔ دہلی سرکار کی جانب سے تحفظ کا بھروسہ دلائے جانے کے بعد دونوں نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کے لیے رجسٹریشن کرایا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: مبینہ‘لو جہاد’کے نام پر ہراساں  کیے جانے اور اتر پردیش کی یوگی سرکار کے ذریعے لائے گئے متنازعہ قانون کے تحت پولیس کی بربریت جھیلنے کے ڈر سے 25 سالہ شمیم اور 21 سالہ سمرن نے گزشتہ16دسمبر کو ہائی کورٹ میں عرضی  دائر کر انہیں نہ صرف فیملی  بلکہ یوپی پولیس سے بھی تحفط کی مانگ کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، دہلی سرکار کی جانب سے بدھ کو ہائی کورٹ کی یقین دہانی  کے بعد دونوں نے گزشتہ سنیچرکو اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت اپنی شادی کے رجسٹریشن کے لیے عرضی دی ۔دہلی سرکار نے کہا ہے کہ وہ دونوں کو رہنے کے لیے گھر اور اگر ضرورت پڑی تو پولیس تحفظ بھی فراہم  کریں گے۔

حالانکہ عدالت نے یوپی پولیس کے خلاف ان کے خدشات پر غور نہیں کیا ہے۔ ان دونوں نے دہلی میں حکام  کو یہ یقینی بنانے کے لیےہدایت  مانگی تھی کہ یوپی پولیس کی جانب سے کسی بھی جانچ کی صورت میں انہیں دہلی ہائی کورٹ  کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں کیا جائےگا۔

اس عرضی  کو خارج کرتے ہوئے جسٹس انو ملہوترا نے کہا کہ یہ مانگیں ‘تصور کے دائرے میں ہیں’ اور اس بارے میں فی الحال کوئی آرڈرنہیں دیا جا سکتا ہے۔اس اخبار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نومبر میں انہیں شاہجہاں پور سے بھاگنا پڑا تھا کیونکہ سمرن کی فیملی والے مبینہ  طور پر ان کی شادی کسی دوسرے سے کرانے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ انتطامیہ اور نگرانی کرنے والوں کے ڈر سے فی الحال واپس نہیں لوٹنے والے ہیں۔شمیم نے کہا، ‘نیا قانون بین مذہبی  جوڑوں کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ یہی وجہ  تھی کہ ہم نے شاہجہاں پور کو چھوڑا۔’

سمرن نے کہا، ‘اگر وہاں سے کرتے تو لو جہاد کہہ دیتے۔ ویسے تو مجھ پر شادی کا کوئی دباؤ نہیں ہے، لیکن وہ ایسا کہتے ہی کیونکہ میں ایک مسلم لڑکے کے ساتھ ہوں۔ یوپی میں وہ جان بوجھ کر لڑکے کو پھنسانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔’

اکاؤنٹنٹ کے بطور کام کر چکیں سمرن نے بتایا کہ 2017 میں وہ دونوں ایک کوچنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے رابطہ  میں آئے۔ ان کی فیملی  کو ان کے رشتہ کو لےکر شبہ تھا، لیکن ان کے شاہجہاں پور چھوڑنے تک وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ جس شخص کے رابطہ  میں ہیں وہ مسلم ہیں۔

بی ٹیک کیے ہوئے شمیم دہلی میں نوکری کرتے ہیں۔ نومبر میں شاہجہاں پور سے یہ دونوں دہلی آئے اور ایک این جی یو سے رابطہ کیا، جس کی مدد سے وہ عدالت پہنچے۔شمیم نے بتایا کہ پچھلے مہینے تک ان کی فیملی کو ان کے رشتےکے بارے میں نہیں پتہ تھا۔ انہوں نے کہا، ‘اگر وہ اعتراض  بھی کرتے ہیں تو میں سمرن کو نہیں چھوڑوں گا، نہ انہیں مذہب بدلنے کے لیے کہوں گا۔ ہم اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کریں گے۔’

ان دونوں نے بتایا کہ انہیں اپنے اہل خانہ  سے جتنا ڈر ہے، اتنا ہی ڈرانتظامیہ سے بھی ہے۔بتا دیں کہ گزشتہ24 نومبر کو اتر پردیش سرکار ‘لو جہاد’کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب  پر لگام لگانے کے لیےقانون لے آئی تھی۔

بتا دیں کہ گزشتہ 24 نومبر کو اتر پردیش سرکار ‘لو جہاد’ کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب پر لگام لگانے کے لیے‘قانون’لے آئی تھی۔اس میں شادی کے لیے فریب، لالچ دینے یا جبراً تبدیلی مذہب کرائے جانے پر مختلف اہتماموں کے تحت زیادہ سے زیادہ 10سال کی سزا اور 50 ہزار تک جرما نے کا اہتمام  کیا گیا ہے۔

بتا دیں کہ اتر پردیش پہلی ایسی  ریاست ہے، جہاں لو جہاد کو لےکر اس طرح کا قانون لایا گیا ہے۔