خبریں

کسانوں کے مظاہرہ کو سنبھالنے میں ناکام مرکز، زرعی قوانین پر روک لگانی چاہیے: سپریم کورٹ

مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف کئی عرضیوں کو سنتے ہوئے سی جےآئی ایس اے بوبڈے نے کہا کہ سرکار جس طرح سے معاملے کو سنبھال رہی ہے اس سے وہ  بےحدمایوس ہیں۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر سرکار کہے کہ قوانین کونافذکرنے پر روک لگائےگی، تو عدالت اس کے لیےکمیٹی بنانے کو تیار ہے۔

دہلی کے غازی پور بارڈر پرمظاہرین۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

دہلی کے غازی پور بارڈر پرمظاہرین۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:مرکزی حکومت کے تین نئے اور متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف داخل کئی عرضیوں پر شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوموار کو سرکار کے سامنے تینوں زرعی قوانین پر روک لگانے کی تجویز رکھی ہے تاکہ کسانوں اور سرکار کے بیچ تنازعے کو سلجھایا جاسکے۔

سوموار کے دن کی شنوائی ختم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ آج یا کل اپنا آرڈر جاری کرےگی۔لائیولاء کی رپورٹ کے مطابق، سی جےآئی ایس اے بوبڈے نے کہا کہ سرکار جس طرح سے معاملے کو سنبھال رہی ہے اس سے وہ بہت مایوس ہیں۔

بنچ میں جسٹس ایس ایس بوپنا اور جسٹس وی سبرامنیم بھی شامل ہیں۔بنچ نے یہ بھی کہا کہ دونوں فریق کے بیچ جاری بات چیت کسی فیصلے کی جانب نہیں جا رہی ہے اور معاملے کا حل  ایک کمیٹی کے ذریعے سے کیے جانے کی ضرورت ہے۔

سی جےآئی بوبڈے نے مرکز کے وکیل سے پوچھا، ‘ہمیں بتائیے کہ آپ قوانین پر روک لگا رہے ہیں یا ہم ایسا کریں۔ یہاں گھمنڈ کس بات کا ہے؟ اگر کچھ غلط ہوتا، ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔ ہم کسی طرح کا چوٹ یا الزام نہیں چاہتے ہیں۔’

سپریم کورٹ نے یہ تبصرہ  ان عرضیوں  پر شنوائی کے دوران کیا جن میں دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا کسانوں کو وہاں سے ہٹانے کی مانگ کی گئی تھی۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے تینوں زرعی قوانین کو چیلنج دینے والی عرضیوں  پر بھی شنوائی کی۔

اس سے پہلے 17 دسمبر کوشنوائی کے دوران سی جےآئی کی صدارت والی بنچ نے مشورہ  دیا تھا کہ بات چیت کے لیے مرکز تینوں زرعی قوانین کونافذ کرنے پر روک لگا دے۔سی جےآئی نے سوموار کو کہا، ‘رپورٹس سے ہم سمجھ رہے ہیں کہ بات چیت اس لیے ٹوٹ رہی ہے کیونکہ سرکار ایک ایک اہتمام  پر چرچہ چاہتی ہے جبکہ کسان پورے قانون کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔ تو جب تک کمیٹی کوئی فیصلہ نہیں کرتی ہے تب تک ہم قانون نافذ کرنے پر روک لگا دیں گے۔’

انہوں نے ایک کمیٹی بنانے کی تجویز رکھی جو دونوں فریق کو سنےگی اور مناسب سفارشات کرےگی۔ بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ایک غیرجانبدار کمیٹی کی تشکیل پر بھی غور کر رہا ہے۔

سی جےآئی نے کہا، ‘دونوں فریق  نے ایک تذبذب کی حالت  میں ڈال دیا ہے۔ ہم ایسی رپورٹس پڑھ رہے ہیں جس میں فریق کہہ رہے ہیں کہ عدالت فیصلہ کرےگی۔ ہمارا ارادہ صاف ہے۔ ہم مسئلے کا ایک دوستانہ حل چاہتے ہیں۔ اسی لیے پچھلی بار ہم نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ قانون پر روک کیوں نہیں لگا رہے ہیں۔ لیکن آپ وقت مانگتے رہے۔’

انہوں نے کہا، ‘اگر آپ میں ذرا بھی ذمہ داری کا احساس ہے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم قوانین کو نافذ کرنے پر روک لگائیں گے تو ہم فیصلے کے لیے کمیٹی کی تشکیل  کریں گے۔ ہم نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ ایسی ضد کیوں ہے کہ کسی بھی قیمت پر قانون نافذ ہوں گے۔’

سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے روک لگانے کے آرڈر کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ بہت سی کسان تنظیم یہ کہتے ہوئے سامنے آئی ہیں کہ قانون ترقی پذیر ہے اور انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔انہوں نے کہا، ‘مان لیجیے بڑی تعداد میں لوگ آکر کہیں کہ صرف کچھ گروپوں کی مخالفت کی وجہ سے ہمارے لیے نفع بخش  قوانین پر آپ نے روک کیوں لگا دی؟’

حالانکہ اس پر سی جےآئی نے کہا، ‘ہمارے سامنےایک بھی ایسی عرضی دائر نہیں کی گئی، جس میں کہا گیا ہو کہ یہ تین زرعی قانون کسانوں کے لیے فائدےمند ہیں۔’بنچ نے کہا، ‘کیا چل رہا ہے؟ ریاست  آپ کے قوانین کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔’بنچ نے مرکز سے کہا، ‘ہم معیشت کےماہر نہیں ہیں، آپ بتائیں کہ سرکار زرعی قوانین پر روک لگائےگی یا ہم لگائیں؟’

حالانکہ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عدالت سے کہا کہ کسی قانون پر تب تک روک نہیں لگائی جا سکتی، جب تک وہ بنیادی حقوق یا آئینی منصوبوں  کی خلاف ورزی  نہ کرے۔سی جےآئی نے کہا، ‘اسے ٹھنڈے بستے میں ڈالنے میں کیا پریشانی ہے؟ ہم نے آپ سے پچھلی بار پوچھا تھا۔ لیکن آپ نے جواب نہیں دیا تھا۔ اور معاملہ بگڑتا گیا۔ لوگ خودکشی کر رہے ہیں۔ لوگ ٹھنڈ میں پریشان ہو رہے ہیں۔’

غورطلب ہے کہ اس سے پہلے مرکز اور کسانوں کے بیچ ہوئی آٹھویں دور کی بات چیت میں بھی کوئی حل نکلتا نظر نہیں آیا کیونکہ مرکز نے متنازعہ قانون کو رد کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسان رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی‘گھر واپسی’ صرف قانون واپسی کے بعد ہوگی۔

مرکز اور کسان رہنماؤں کے بیچ 15 جنوری کو اگلی بیٹھک مجوزہ ہے۔ حالانکہ، اس دوران ایسی خبریں آئی تھیں کہ سرکار نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنے دیں۔حالانکہ، اس کے بعد کسان تنظیموں نے کہا کہ قانون سرکار نے بنایا ہے اور ہم اسی سے قانون واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں او رسپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے بعد بھی واپس نہیں لوٹیں گے۔

سوموار کو عدالت نے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ  کر رہے کسان تنظیموں سے کہا، ‘آپ کو بھروسہ ہو یا نہیں، ہم بھارت کی سب سے بڑی عدالت ہیں، ہم اپنا کام کریں گے۔’

معلوم ہو کہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)