خبریں

شاہین باغ احتجاج پر سپریم کورٹ نے کہا، مزاحمت کا حق کبھی بھی، کہیں بھی نہیں ہو سکتا

سپریم کورٹ نےاکتوبر 2020 میں اپنے فیصلے میں سی اے اے کے خلاف  دہلی کے شاہین باغ میں تین مہینے سے زیادہ عرصےتک ہوئے احتجاج  کو غیرقانونی بتاتے ہوئے اس کو ناقابل قبول بتایا تھا، جس کے خلاف کچھ کارکنوں  نےنظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی، جس کو عدالت نے خارج کر دیا۔

شاہین باغ (فوٹو : رائٹرس)

شاہین باغ (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی:  سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ احتجاج  کرنے اور اختلافات کے اظہار کا حق  کچھ ذمہ داریوں  کے ساتھ آتا ہے اور اس کا استعمال کبھی بھی اور کہیں بھی نہیں کیا جا سکتا۔این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے 2019 میں دہلی کے شاہین باغ میں شہریت  قانون (سی اے اے)کے خلاف ہوئے مظاہروں  کو لےکر دائر نظرثانی کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے یہ تبصرہ  کیا۔

دراصل شاہین باغ کی  کنیز فاطمہ سمیت بارہ کارکنوں  نے سپریم کورٹ کے ذریعے شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف  ہوئے احتجاج  کو غیرقانونی بتانے کے گزشتہ سال سات اکتوبر کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی عرضی  دائر کی تھی۔

جسٹس ایس کے کول، جسٹس انرودھ بوس اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے اس نظرثانی کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا، ‘احتجاج کا حق  کسی بھی وقت اور کہیں بھی نہیں ہو سکتا۔ کچھ فطری  اختلافات  ہو سکتے ہیں، لیکن اختلافات اور احتجاج  کے معاملے میں دوسروں کے حقوق کو متاثر کرتے ہوئے عوامی مقامات  پر طویل عرصے  تک قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔’

عرضی  پر یہ فیصلہ گزشتہ  نو فروری کو دیا گیا تھا، لیکن یہ فیصلہ جمعہ کودیر رات آیا ہے۔ججوں  کی تین رکنی بنچ  نے کہا کہ احتجاج  کے لیے عوامی مقامات پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا اورعوامی احتجاج صرف طے شدہ مقامات  پر ہی ہونے چاہیے۔

بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے سات اکتوبر 2020 کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اس طرح کے مظاہرے قابل قبول نہیں ہیں اور عوامی مقامات  پرغیر معینہ مدت کے لیے قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔معلوم ہو کہ دہلی کا شاہین باغ2019 میں سی اے اے کے خلاف مظاہروں کا اہم مرکز بن کر ابھرا تھا، جہاں مظاہرین  اکثرخواتین  اور بچہ تین مہینے سے زیادہ عرصے تک دھرنے پر بیٹھے تھے۔

شاہین باغ کے مظاہرے نے دنیا بھر کی توجہ  اپنی جانب  کھینچی تھی اور ٹائمس میگزین نے شاہین باغ مظاہرہ  کا چہرہ رہیں بلقیس دادی(82) کو 2020 کے 100 سب سے زیادہ بااثر لوگوں کی فہرست  میں شامل کیا تھا۔

شہریت قانون (سی اے اے)کے مخالف اس کو مسلمانوں کےخلاف بتاتے ہیں۔ سی اے اے کے تحت سرکار کے ذریعے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی استحصا ل کے شکار ایسےغیر مسلموں کو شہریت فراہم  کرنے کا اہتمام  کیا گیا ہے، جو 2015 سے پہلے ہندوستان  آ چکے ہیں۔

کو رونا وائرس سے پہلےسی اے اے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے دیکھے گئے تھے۔ حالانکہ پچھلے سال مارچ میں کورونا وائرس کے مدنظرنافذلاک ڈاؤن کی وجہ سےاکثرآبادی کو گھروں میں بند ہونے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔