خبریں

فیس بک نے آسٹریلیائی لوگوں کے لیے اپنے پلیٹ فارم پرخبر دیکھنے یا شیئر کر نے پر پابندی عائد کی

فیس بک پرخبرشیئرکیے جانے کے بدلےسوشل میڈیا کمپنی کی جانب سےمیڈیا اداروں  کو ادائیگی  کیے جانے کے سلسلے میں ایک مجوزہ قانون کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے کمپنی نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ آسٹریلیا کی سرکار نے اس کی مذمت  کی ہے۔

(فوٹو:  رائٹرس)

(فوٹو:  رائٹرس)

فیس بک نے جمعرات  کو سخت تیور دکھاتے ہوئے آسٹریلیا میں خبرشیئر کرنے پر پابندی لگا دی۔سوشل میڈیا کمپنی کے اس قدم سے سرکار، میڈیا اورطاقتور پرآئی ٹی  کمپنیوں کے بیچ تکرار بڑھ گئی ہے۔آسٹریلیا میں فیس بک پرخبرشیئر کیے جانے کےعوض میں میڈیااداروں  کو (سوشل میڈیا کمپنی کی جانب سے)ادائیگی کیے جانے کے سلسلے میں ایک مجوزہ  قانون کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے اس کمپنی نے یہ قدم اٹھایا ہے۔

آسٹریلیائی میڈیا ادارے اپنی خبر فیس بک پر پوسٹ نہیں کر پا رہے ہیں اور جو لوگ خبر شیئر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں یہ‘نوٹیفیکیشن’ مل رہا ہے کہ وہ اس کے لیے بلاک کر دیے گئے ہیں۔ایک ویب سائٹ نے کہا، ‘آسٹریلیا کے مجوزہ قانون کے جواب میں فیس بک نے ملک میں‘نیوز لنک’اور نیوز پیج سے تمام  طرح کے پوسٹ کیے جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ وہیں عالمی سطح پر بھی آسٹریلیائی پبلشرز کے ‘نیوز لنک’کو پوسٹ اور شیئر کرنے پر پابندی ہے۔’

فی الحال آسٹریلیا سرکار نے فیس بک کے اس قدم کی مذمت کی ہے۔ ایک وزیر نے اسے ‘ایک خودمختار ملک  پر حملہ’ قرار دیا ہے۔فیس بک نے ایمرجنسی خدمات کے بارے میں پیغامات سمیت کچھ سرکاری ابلاغ اور کچھ کامرشیل پیج کو بھی ‘بلاک’ کر دیا ہے۔

امریکی کمپنی فیس بک نے ایک بیان میں کہا کہ آسٹریلیائی پبلشرز فیس بک پرخبرشائع کر سکتے ہیں،لیکن ان کے ‘لنک’اور‘پوسٹ’آسٹریلیا کے لوگ نہ تو دیکھ پائیں گے اور نہ ہی اسےشیئر کر پائیں گے۔بیان کے مطابق، آسٹریلیائی صارفین آسٹریلیا کی یابین الاقوامی  خبربھی شیئر نہیں کر پائیں گے۔ وہیں آسٹریلیا کے باہر کے لوگ بھی آسٹریلیا کی کوئی خبر شیئر نہیں کر پائیں گے۔

فیس بک کے علاقائی منیجنگ ڈائریکٹر ولیم ایسٹن نے کہا، ‘مجوزہ قانون نے بنیادی طور پر ہمارے پلیٹ فارم اور پبلشرز کے بیچ تعلق کو سمجھنے میں غلطی کی ہے، جو اس کا استعمال خبروں کو شیئر کرنے کے لیے کرتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘اس نے ہمارے سامنے سخت متبادل ہی چھوڑا، یا تو اس قانون پر عمل کریں جو اس رشتے کی حقیقت کی ان دیکھی کرتا ہے یا آسٹریلیا میں اپنی خدمات  میں خبرنہ دکھائیں۔ بجھے دل کے ساتھ ہم دوسرا متبادل چن رہے ہیں۔’

اس سےقطع نظرآسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ مارسن نے اپنے فیس بک پیج پر اس قدم کی مذمت کی۔ انہوں نے پوسٹ کیا،‘ہیلتھ  اور ایمرجنسی خدمات سے جڑی ضروری جانکاریوں کو روکنا اناپرست اور مایوس کن  قدم ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘یہ قدم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کیوں ایسے ممالک  کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو بڑی ٹیک کمپنیوں کے رویے کو لےکرفکرمند ہیں۔ان کمپنیوں کو لگتا ہے کہ وہ سرکار سےبھی زیادہ طاقتور ہیں اور ان پر قاعدے لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ بھلے ہی یہ دنیا میں بدلاؤ لا رہی ہوں،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دنیا پر حکم بھی چلائیں گی۔’

انہوں نے کہا، ‘ہماری پارلیامنٹ  پر دباؤ بنانے کی بگ ٹیک(بڑی آئی ٹی  کمپنیوں)سے ہم نہیں ڈریں گے۔’

اس قانون کو تیار کرنے میں رول نبھانے والےوزرا میں سے ایک جوش فرائیڈین برگ نے ایک دن پہلے (بدھ کو) ہی کہا تھا کہ آسٹریلیائی میڈیا کمپنی کے ساتھ فیس بک اور گوگل کے ‘اہم کاروباری سمجھوتے’کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

گزشتہ جمعرات  کو وزیرخزانہ  جوش فرائیڈین برگ نے کہا کہ آسٹریلیا کی پارلیامنٹ کے ہاؤس آف رپریزینٹیٹو نے ایک ایسا قانون پاس کیا ہے، جو فیس بک اور گوگل کے ذریعے آسٹریلیائی صحافت کے لیےادائیگی  کرنے کا اہتمام  کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیس بک نے یہ قدم اٹھانے سے پہلے کوئی وارننگ  نہیں دی۔ حالانکہ اس ایکٹ کے قانونی شکل لینے سے پہلے اسے پارلیامنٹ کے اپرہاؤس سینیٹ کے ذریعےپاس کیے جانے کی ضرورت ہوگی۔ایسا کہا جا رہا ہے کہ فیس بک کو اس بات کا ڈر ستا رہا ہے کہ آسٹریلیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی پیروی دوسرے ممالک بھی کریں گے۔

فرائیڈین برگ نے کہا، ‘فیس بک کا یہ قدم غیرضروری  تھا، وہ سخت رخ اپنا رہے ہیں اور اس سے ان کی آسٹریلیا میں امیج  خراب ہوگی۔’فیس بک نے کہا ہے کہ مجوزہ قانون نے ہمارے پلیٹ فارم اور اس کا استعمال کرنے والے پبلشرز کے بیچ کے رشتےکو ذرا بھی نہیں سمجھا ہے۔

وزیر صحت گریگ ہنٹ نے پارلیامنٹ میں کہا، ‘یہ ایک خودمختار ملک پر حملہ ہے۔ یہ لوگوں کی آزادی پر حملہ ہے، خاص طور پر یہ بڑی آئی ٹی کمپنیوں  کی بازار ویلیو اور آئی ٹی  پر کنٹرول  کا پوری طرح سے غلط استعمال  ہے۔’

سرکار نے فیس بک پرالزام لگایا ہے کہ وہ ایمرجنسی خدمات کے پیغام  کو عارضی  طور پر ‘بلاک’کرکے عوامی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے، وہ بھی ایک ایسے دن جب ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب کی وارننگ  دی گئی ہے۔

وزیر مواصلات  پال فلیچر نے کہا کہ انہوں نے فیس بک سے کہا ہے کہ سرکار کی  اپنے پیج تک پہنچ بحال کی جائے۔انہوں نے کہا، ‘محکمہ صحت، دم کل سروس اورایمرجنسی سروس کے فیس بک پیج بلاک کر دیے گئے ہیں،یہ عوامی سلامتی کا مدعا ہے۔’

گوگل اور فیس بک دونوں نے ہی دھمکی دی ہے کہ اگر آسٹریلیا نے یہ قانون بنایا تو جوابی کارروائی کی جائےگی۔وہیں سرکار یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ملک کے میڈیا کاروبار کو اپنی صحافت کے لیے ان آن لائن پلیٹ فارمز پرمناسب رقم ملے۔

آسٹریلیا میں اگریہ نیا قانون نافذ ہو جاتا ہے تو ڈیجیٹل سیکٹر کی بڑی کمپنیاں خبروں کے لیے ادا کی جانے والی رقم کو لےکر ہونے والی سودے بازی میں دبدبہ رکھنے والی حالت  میں نہیں ہوں گی۔ وہ یہ پیشکش نہیں کر پائیں گی کہ بس اتنی رقم لے لویا نہیں ملےگا۔

فیس بک نے مجوزہ ‘نیوز میڈیا بارگیننگ کوڈ’(نیوز میڈیا سودے بازی کوڈ)کےاہتماموں کے تحت ادائیگی  کرنے کے بجائے آسٹریلیا میں لوگوں کو اپنے پلیٹ فارم پر خبریں شیئر کرنے سے روکنے کی دھمکی دی تھی۔وہیں، گوگل نے دھمکی دی تھی کہ وہ آسٹریلیا میں اپنے سرچ انجن کو ہٹا لےگا۔

اس بیچ فرائیڈین برگ نے کہا کہ فیس بک کے ذریعے پیج بلاک کرنے کا قدم اٹھائے جانے کے بعد انہوں نے اس کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ سے بات کی۔وزیر نے کہا، ‘انہوں نے (زکربرگ نے)مجھ سے کہا کہ انہیں مجوزہ قانون کے اہتماموں کو لےکر کچھ تشویش ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ ان کی سرکار اس قانون کے لیے پرعزم ہے۔

آسٹریلیا کےوزیر اعظم  نے فیس بک سےخبروں پر روک ہٹانے کو کہا

آسٹریلیا کے وزیر اعظم ا سکاٹ مارسن نے جمعہ  کو فیس بک سے گزارش کی کہ وہ آسٹریلیا کے صارف پر لگائی روک کو ہٹا لیں اورخبر شائع کرنے والے کاروبار سےبات چیت شروع کریں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے وارننگ بھی دی کہ دیگر ملک  بھی خبرشیئرکرنے کے عوض  میں ڈیجیٹل کمپنیوں سے فیس  وصول کرنے کے ان کی سرکار کے اقدامات کی پیروی  کر سکتے ہیں۔

مارسن نے کہا کہ انہوں نے فیس بک تنازعہ  کے بارے میں جمعرات  کو ہندوستان  کے وزیر اعظم  نریندر مودی سے بات کی۔ وہ برٹن، کینیڈا اور فرانس کے رہنماؤں کے ساتھ بھی آسٹریلیا کے اس مجوزہ قانون کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘آسٹریلیا جو کر رہا ہے اس میں کئی ممالک کی دلچسپی ہے۔ اس لیے میں گوگل کی طرح ہی فیس بک کو بھی مدعو کرتا ہوں کہ وہ مثبت  طریقے سے بات کرے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آسٹریلیا یہاں پر جو کرنے جا رہا ہے اس کی پیروی کئی مغربی ممالک کر سکتے ہیں۔’

مارسن نے آسٹریلیا کے لوگوں کی خبر تک پہنچ اور اسے شیئر کرنے سے فیس بک کے ذریعےجمعرات  کو روکے جانے کے قدم کو ایک خطرہ بتایا۔

مارسن نے صحافیوں  سے کہا، ‘کچھ سائٹ بند کرنے کا خیال، جیسا کہ انہوں نے کل (جمعرات  کو) کیا،یہ ایک قسم کا خطرہ  ہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آسٹریلیا کے لوگوں کا اس کے لیے کیساردعمل  ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ان کا یہ قدم ٹھیک نہیں تھا۔’

انہوں نے کہا، ‘انہیں جلد سے جلد اس سے آگے بڑھنا ہوگا، بات چیت کےپلیٹ فارم پر آنا ہوگا اور ہم پھر اس کاحل نکال لیں گے۔’

فیس بک کے روک لگانے کی ملک میں بڑے پیمانے پرتنقید ہوئی کیونکہ اس سوشل میڈیا کمپنی نے وبا،عوامی صحت اور ایمرجنسی خدمات تک پہنچ روک دی ہے، حالانکہ ایسا عارضی طور پر کیا گیا ہے۔

دراصل ایوان نمائندگان نے گزشتہ بدھ کی رات ایک ایکٹ  پاس کیا جس میں فیس بک اور گوگل کو آسٹریلیائی میڈیا کمپنیوں کو ان خبروں کا مناسب معاوضہ دینے کا اہتمام کیا گیا ہے جنہیں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دکھاتے ہیں۔ سینیٹ میں پاس ہونے کے بعد ہی یہ قانونی شکل لےگا۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)