الیکشن نامہ

اتر پردیش: یوگی حکومت سے نوکری مانگتے نوجوان انتخابی تصویر میں کہاں ہیں

چار جنوری کو الہ آباد میں رہ کر پڑھائی کرنے والے اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طالبعلم اچانک سڑکوں پر نکل آئے اور تالی-تھالی  پیٹتے ہوئےمؤخربھرتیوں کو پُرکرنے کامطالبہ کرنے لگے۔ ان کا  کہنا تھاکہ وہ روزگار جیسے اہم مدعے پر سوئی ہوئی حکومت کونیند سےجگانا چاہتے ہیں۔

چار جنوری کی رات الہ آباد میں احتجاج کر رہے طالبعلم۔ (بہ شکریہ اسکرین گریب/ٹوئٹر)

چار جنوری کی رات الہ آباد میں احتجاج کر رہے طالبعلم۔ (بہ شکریہ اسکرین گریب/ٹوئٹر)

اترپردیش میں انتخابی سیاست کے درمیان نوجوان بے روزگاری کو لے کر مسلسل احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس مہینے کے شروع میں الہ آباد میں نوجوانوں نے بے روزگاری کے خلاف سڑکوں پر تالی-تھالی کے ساتھ ایسی ہی ایک آواز بلند کی۔

چار جنوری کی رات اچانک شہر کے سلوری علاقے میں ہزاروں نوجوانوں کا ہجوم نکل پڑا۔ مدعا تھاروزگار اور نوکریوں کا۔

احتجاج کرنے والے نوجوانوں کا ماننا ہے کہ حکومت شاید گہری نیند میں ہے، اس لیے وہ نوجوانوں کے روزگار جیسے اہم مدعے کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے، اسی  وجہ سے انہوں نے یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو نیند سے بیدار کرنے کے لیے تالی اور تھالی  بجا کر اپنا احتجاج درج کیا ہے۔

کیسے شروع ہوا مظاہرہ؟

الہ آباد یونیورسٹی سےتعلیم حاصل کرنے کے بعد شہر میں رہ کر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے سنیل موریہ کہتے ہیں،اس رات جو مظاہرہ شروع ہوا وہ بہت ہی نامیاتی انداز میں شروع ہوا۔ نجی لائبریری میں بیٹھے چند نوجوانوں نے ہی طے کیا کہ اب روزگار کے بارے میں حکومت سے براہ راست سوال کرنا ضروری ہے، چنانچہ وہ سلوری کے علاقے میں نکل آئے ، پھرتالی  اور تھالی بجا تے ہوئےنعرے لگانے لگے۔ ان چند لوگوں کے ساتھ دھیرے دھیرےاور لوگ جڑتے گئے اور مظاہرے نے اتنی بڑی شکل اختیار کر لی۔

سنیل نے مزید کہا کہ نہ صرف الہ آبادبلکہ نئے اساتذہ کی بھرتی کو لے کر تقریباً پورے اترپردیش میں نوجوانوں نےاپنا اپنا احتجاج  درج کیا ہے۔حکومت چاہتی تو محکمہ تعلیم میں لاکھوں خالی اسامیوں پر بھرتی کر کے نوجوانوں کو روزگار دے سکتی تھی،  لیکن حکومت کی نیت صاف نہیں اس لیےکسی بھی طرح کی  بھرتی پوری نہیں ہوئی ہے۔

الہ آباد یونیورسٹی سے ماڈرن ہسٹری میں ایم اے کر رہے وویک کہتے ہیں، 4 جنوری کی رات تقریباً 10 بجے اپنے کمرے میں مجھے باہر سے تھالی بجانے کی آواز آئی۔  باہر نکلنے پرسمجھ آیا کہ یہ مظاہرہ مؤخرسرکاری نوکریوں کے لیے ہےاور میں بھی اس میں شامل ہو گیا ۔ اگلے دن گووند پورٹیکسی اسٹینڈ پہنچ کر پھر باقی طالبعلموں کے ساتھ بالسن چوراہے تک اس مظاہرے میں  ہم موجود تھے۔

وویک نے مزید بتایا کہ بے روزگاری کے سلسلے میں پہلی بار طالبعلم سڑکوں پر نہیں آئے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی سالگرہ کے ساتھ ساتھ کئی اور مواقع پر الہ آباد کے نوجوانوں نےاپنے حقوق کےلیے جدوجہد کی ہے۔

الہ آباد سے وکالت  کی پڑھائی  اور بی ایڈ، بی ٹی سی، سی ٹی ای ٹی پاس کرچکے سمیت گوتم 3 جنوری کو لکھنؤ میں بے روزگاری کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہرے میں شامل تھے۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت کے روزگار کے وعدے محض انتخابی لالی پاپ تھے۔

سمیت نے بات چیت میں پولیس کےغیرمہذب رویے کے بارے میں بتایا، پولیس کی بدتمیزی ہم نے ایک بار نہیں کئی بارجھیلی ہے۔ان کی زبان انتہائی غیر مہذب ہوتی ہے۔اپنے حقوق کی  لڑائی کرنے پر ہمیں پولیس والےپڑھائی بند کروا  دینے اور مقدمے لگا دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس سے فطری طور پر نوجوانوں کے دل میں مستقبل کے بارے میں خوف پیدا ہوتا ہے۔

سمیت کے والدسرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب بڑی بہن کی شادی اور گھر چلانے کے لیےبھی  ٹھوس آمدنی کی اشد ضرورت ہے۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں

ایک طرف یوگی حکومت روزگار کے شعبے میں سب سے آگے ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے اور پوسٹر چھپوا رہی ہے، لیکن اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو حکومت کے تمام دعوے مسترد ہوتے نظر آتے ہیں۔

یوا ہلا بول کی مہم کے ساتھ نوجوانوں کے لیے کام کرنے والے انوپم کہتے ہیں، اتر پردیش میں 2017 میں جو حکومت آئی وہ اس وعدے پر آئی تھی کہ حکومت بنتے ہی 90 دن کے اندر تمام خالی سرکاری عہدے کو بھرنے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ پانچ سال گزر گئے، اس کے باوجود پانچ لاکھ سے زائد اسامیاں خالی ہیں، جنہیں پُر نہیں کیا جا رہا۔

حال ہی میں آئے سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار  کا حوالہ دیتے ہوئے انوپم نے مزید کہا کہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ 70 لاکھ نوکریاں دی جائیں گی۔ اعداد و شمار کے مطابق،  ریاست میں کام کرنے والی عمر کی آبادی ہے وہ تو بڑی ہے لیکن کام کررہے لوگوں  کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں میں ملازمت کے حصول کو لے کر نا امیدی بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی نا امیدی کا نتیجہ ہے کہ خودکشی کی خبریں مسلسل سامنے آتی رہتی ہیں۔

اس سے قبل فروری 2021 میں لکھنؤ کے یوپی پریس کلب میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں انوپم اور یوا ہلہ بول کی ٹیم نے دستاویزوں کے ساتھ بتایا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے ہورڈنگ میں تب پونے چار لاکھ نوکریوں کا دعویٰ کر رہی تھی  وہ بے بنیادتھا۔ اب انہوں نے سیدھا5 لاکھ بتانا شروع کر دیا ہے۔

لیکن جب آر ٹی آئی کے ذریعے ان سے ان پونے چار لاکھ نوکریوں  کی محکمہ وار تفصیلات مانگی گئیں تو ریاستی عملہ کے محکمے نے سیدھا جواب دیا کہ ان کے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔

نوکریوں کے معاملے میں نوجوانوں کےمظاہرے کو اپوزیشن نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم این ایس یو آئی کے ریاستی صدر اکھلیش یادو کو جب 4 جنوری کی رات ہوئے مظاہرے کی خبرسوشل میڈیا س ملی تو وہ فوراً موقع پر پہنچ گئے۔

اکھلیش کہتے ہیں،نوجوانوں کا اتنی بڑی تعداد میں بغیر کسی سیاسی قیادت کے بے روزگاری کے مسئلہ پر آواز اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدتیہ ناتھ حکومت بے روزگاری کے وعدوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں،17 ستمبر وزیر اعظم نریندر مودی کی سالگرہ کو جگہ جگہ طالبعلموں نے بے روزگاری کے دن  کے طور پرمنانا شروع کیاتو بے روزگاری کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔طالبعلم ہمیشہ پریشان رہے ہیں چاہے وہ بی جے پی حکومت میں ہو یا ایس پی حکومت میں۔ان  کے اندر غصہ ہے، بغیر کسی منصوبہ بندی کے وہ  رات گئے باہر نکل آئے اور احتجاج کرنے لگے۔

اکھلیش کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے اجتماع میں سوشل میڈیا نے بھی اہم رول ادا کیا۔ طالبعلم مظاہرے سے لائیو ہونے لگے اور انہی  ویڈیو کو دیکھ کرطلبا کی تعداد بڑھتی گئی۔

انقلابی چھاتر مورچہ کے کارکن رتیش ودیارتھی 4 جنوری کی رات مظاہرے میں شامل تھے۔انہیں فیس بک پر لائیو ویڈیو دیکھ کرکئی طالبعلم مظاہرے میں شامل ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ 5 جنوری کو ہوئےمظاہرے کے لیے طالبعلموں نے سوشل میڈیا کی مدد سے اپیل کی تھی اور اگلے دن الہ آباد یونیورسٹی کے ڈیلی گیسی الا پور، سلوری، کٹرا، گووند پور، بگھاڑا سے مارچھ کرتے ہوئےطالبعلم بالسن چوراہے پر واقع مہاتما گاندھی کے مجسمے کےقریب جمع ہوئے۔

رتیش نے کہا، چار تاریخ  کا مظاہرہ بہت ہی  قدرتی طریقےسے شروع ہوا۔ طلبا نے بغیر کسی سیاسی قیادت کے ایک متحدہ محاذ کی طرح بے روزگاری کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ احتجاج ایک دن میں پیدا نہیں ہوا ہے، پچھلے پانچ سالوں میں طلبا اور نوجوانوں نے انفرادی طور پرجدوجہد کا سامنا کیا ہے۔ یہ تحریک ریاست بھر میں مختلف طریقوں سے جاری ہے۔

رتیش کا دعویٰ ہے کہ الہ آباد میں تقریباً 10 لاکھ طلبہ مسابقتی اور دیگر امتحانات کی تیاری کرتے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں 70-80 طالبعلموں نے نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔

طالبعلموں پر مقدمے اور لاٹھی چارج

بے روزگاری کے خلاف کھڑے ہوئے نوجوانوں پر پولیس نے کئی سنگین دفعات میں معاملہ درج کیا ہے۔

خبروں کے مطابق،  4 جنوری کودیر شام جارج ٹاؤن تھانے میں 300 افراد پر نامعلوم اور 2 نامزد شکایتیں درج کی گئی تھیں۔

گووند پور پولیس چوکی میں 600 طلبا کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ طلبا کے ساتھ ساتھ کئی کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے لوگوں کو بھی پولیس انتظامیہ نے نہیں بخشا۔

بے روزگاری کے لیے احتجاج کررہے طلبا کا ماننا ہے کہ بلوہ، وبائی ایکٹ جیسےسنگین دفعات میں پھنسا کرانہیں  ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

طالبعلموں کے خلاف اس طرح کے مقدمے درج کیے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 26 دسمبر کو الہ آباد کے کمپنی باغ میں بھرتی کے لیے احتجاج کرنے والے طالبعلموں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مظاہرے میں سو سے زائد طالبعلموں نے کمپنی باغ میں جمع ہو کرداروغہ بھرتی کے دوبارہ امتحان کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے پہلے دسمبر 2021 میں لکھنؤ کے 1090 چوراہے پر اساتذہ کی بھرتی کے لیے کینڈل مارچ نکال رہےطالبعلموں پر پولیس نے بے دردی سے لاٹھی چارج کیاتھا۔ یہاں یہ سب 69 ہزار اساتذہ کی بحالی اور 22 ہزار مزید سیٹیں شامل کرنے کے مطالبے کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

لاکھوں اسامیاں خالی ہونے کے باوجود بے روزگاری

اتر پردیش میں خالی اسامیوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ خالی اسامیاں اساتذہ کی ہیں۔ اکتوبر 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق، ریاست بھرمیں تقریباً 3.25 لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی ہے۔ اس کے باوجود پچھلے پانچ سالوں میں حکومت نے ایک بھی نیا ٹیچر بھرتی نہیں کیا۔

مارچ 2021 میں وزارت داخلہ کی ایجنسی بی پی آر ڈی  کے اعداد و شمار کے مطابق، محکمہ پولیس میں ایک لاکھ 11 ہزار سے زیادہ اسامیاں ہیں۔

ستمبر 2020 میں شائع ایک میڈیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ریاست کے تمام محکموں میں ہزاروں اسامیاں خالی تھیں۔ ان میں پولیس،  ڈسٹرکٹ پولیس، پی اے سی ، فائر، ریزرو وغیرہ میں 140105اور محکمہ صحت میں 45755 عہدے خالی تھے۔

اپوزیشن نے کہا- روزگار کو بنائے مدعا

نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے معاملے کو اپوزیشن پارٹیاں وقتاً فوقتاً اٹھاتی نظر آتی ہیں۔ آئندہ  اسمبلی انتخاب سے پہلے کئی پارٹیوں نے اس کے لیے یوگی حکومت پر حملہ کیا ہے۔

دسمبر 2021 میں لکھنؤ کےمظاہرے کے دوران لاٹھی چارج کے بعد، عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنگھ نے ٹوئٹر پر لکھاتھا، آدتیہ ناتھ جی! ان بے روزگار نوجوانوں کو جتنی مرضی پٹوا لیجیے لیکن دو باتیں یاد رکھیے؛ ان نوجوانوں نے آپ کو اقتدار کی بلندی پر پہنچا یا۔ بے روزگاروں پر ہورہے جرم آپ کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔

وہیں، اتر پردیش کانگریس کی جنرل سکریٹری انچارج پرینکا گاندھی واڈرا نے ریاست کے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اسمبلی انتخاب میں تعلیم اور روزگار کے معاملے پر ووٹ کریں۔

سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ٹوئٹ کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ اسٹیج سے نوکری اور روزگار کے جھوٹے اعداد و شمار دے رہے ہیں جبکہ سچے بے روزگاران کی دہلیز پر انتظامیہ کے تشدد کا شکار ہو ر ہے ہیں۔

اکھلیش یادو نے یوگی آدتیہ ناتھ کی انتخابی مہم کو بھی نشانہ بنایا اور کہا کہ بات بات پر ہورڈنگ لگانے والے وزیر اعلیٰ ان کے ہورڈنگ کیوں نہیں لگوا دیتے جنہیں انہوں نے نوکری یا روزگار دیا ہے۔

(اونتیکا تیواری آزاد صحافی ہیں۔)