خبریں

مدھیہ پردیش: حجاب میں ملبوس لڑکی کے یونیورسٹی میں نماز پڑھنے پر تنازعہ، جانچ کا حکم

مدھیہ پردیش کے ساگر میں واقع ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی کا واقعہ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبا کو نوٹس  جاری کیا ہےاور کہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی سرگرمی میں شامل نہ ہوں جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہوں اور کیمپس کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے ساگر میں واقع ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی نے ایک مسلم لڑکی کے حجاب پہن کر کلاس روم میں نماز ادا کرنے کا ویڈیو سامنے آنے کے بعد تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ایک اہلکار نے سنیچرکو یہ جانکاری دی،  انہوں نے بتایا کہ ایک دائیں بازو کی تنظیم نے اس معاملے میں شکایت کی ہے۔

ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی (ایچ جی یو) کے رجسٹرار سنتوش سہگورا نے بتایا کہ ہندو جاگرن منچ کی جانب سےویڈیو کلپ کے ساتھ یونیورسٹی کو ایک میمورنڈم بھی سونپا گیا ہے جس میں کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی تین دن میں اپنی رپورٹ دے گی اور اس کی بنیاد پر مزید کارروائی کی جائے گی۔

یونیورسٹی کے میڈیا افسر وویک جیسوال نے کہا کہ  کیمپس میں طلبا کے لیے کوئی رسمی ڈریس کوڈ نہیں ہے، لیکن انہیں بنیادی اخلاقی لباس کے ساتھ کلاسز میں شرکت کرنی چاہیے۔

یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر نیلما گپتا نے بتایا کہ انہوں نے طالبعلموں سے کہا، مذہبی سرگرمیاں صرف گھر یا مذہبی مقامات پر ہی کی جائیں، تاکہ یونیورسٹی میں پڑھنے لکھنے کا ماحول بنا رہے۔

دوسری جانب ہندو جاگرن منچ کی ساگر یونٹ کے صدر امیش صراف نے کہا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکی کافی عرصے سے حجاب پہن کر کلاس میں آ رہی تھی۔

انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں اس طرح کی مذہبی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

امیش کے مطابق، طالبہ کافی عرصے سے حجاب میں یونیورسٹی آ رہی تھی، لیکن جمعہ کی دوپہر اسے کلاس کے اندر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ قابل اعتراض ہے، کیونکہ تعلیمی اداروں میں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک شکایت وی سی اور رجسٹرار کو سونپی گئی ہے۔

دریں اثنا، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے مقامی لیڈروں نے سنیچر کو یونیورسٹی کیمپس کے ایک مندر میں ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا۔

وی ایچ پی کے صدر کپل سوامی نے کہا، اگر ایک کمیونٹی کے افراد کو احاطے میں  نماز ادا کرنے کی اجازت ہے، تو دوسرے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔

سوامی کے مطابق، اگر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو وی ایچ پی ایک ایجی ٹیشن شروع کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

معلوم ہو کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ کو کلاس رومز کے اندر حجاب یا سر پر اسکارف پہننے کی اجازت مانگنے والی درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ یہ اسلام میں ضروری مذہبی روایت  کا حصہ نہیں ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 26 مارچ کو یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے طلبا کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی ایسی سرگرمی میں شامل نہ ہوں جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوں اور کیمپس کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو۔

نوٹس میں طلبا سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی اعمال گھر پر یا کسی مذہبی مقام پرکیا کریں۔ ساتھ ہی طلبا کو متنبہ کیا گیا کہ اگر وہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)