خبریں

دہلی: جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی پر ہوئے فرقہ وارانہ تصادم کے بعد 14 لوگ گرفتار

شمال-مغربی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں گزشتہ سنیچر کو ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس میں پتھراؤ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔ حالات  اب قابو میں ہیں۔ فروری 2020 کے شمال-مشرقی دہلی فسادات کے بعد قومی دارالحکومت میں یہ پہلا بڑا فرقہ وارانہ تصادم تھا۔

دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں سنیچر کو فرقہ وارانہ تشدد کے دوران گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں سنیچر کو فرقہ وارانہ تشدد کے دوران گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: شمال-مغربی دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں سنیچر کو ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس میں پتھراؤ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا، جس میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ حکام نے اتوار کو کہا کہ دہلی پولیس نے فسادات اور قتل کی کوشش کے الزام میں اب تک چودہ لوگوں کوگرفتار کیا ہے۔

دہلی پولیس نے ٹوئٹ کیا،جہانگیر پوری میں تشدد کے سلسلے میں ابتدائی تفتیش کے دوران اب تک 14 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فائرنگ کرنے والا شخص بھی پکڑا گیا ہے اور اس سے استعمال کی گئی  پستول بھی برآمد کی  گئی  ہے۔ باقی شرپسندوں کی شناخت کی جارہی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ شام 6 بجے ہوئے تشدد کے دوران پتھراؤ ہوا اور کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ جہانگیرپوری اور دیگر حساس علاقوں میں اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

دہلی پولیس کے پبلک ریلیشن آفیسر (پی آر او) انیش رائے نے کہا کہ یہ ہر سال ہنومان جینتی پر نکالا جانے والا ایک روایتی جلوس تھا۔ رائے نے کہا، جب جلوس کشل سنیما پہنچا تو دونوں کمیونٹی  کے بیچ جھڑپ ہو گئی ۔ پتھراؤ بھی کیا گیا۔

انہوں نے کہا، جلوس کے ساتھ تعینات پولیس اہلکاروں نے مداخلت کی اور حالات کو قابو میں کیا، لیکن پتھراؤ کی وجہ سے کچھ پولیس اہلکار زخمی ہو گئے اور انہیں علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔

رائے نے کہا، حالات قابو میں ہیں۔ تمام سینئر افسران موقع پر موجود ہیں۔ چونکہ یہ حساس علاقہ ہے اس لیے اضافی پولیس تعینات کی گئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے جہانگیر پوری پولیس اسٹیشن میں آئی پی سی کی دفعہ 147 (فساد)، 148 (فساد، مہلک ہتھیار سے لیس)، 149 (غیر قانونی اجتماع)، 307 (قتل کی کوشش)، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 186 (سرکاری ملازم کو عوامی کاموں کی انجام دہی سے روکنا)، 353 (سرکاری ملازم کو اپنی ڈیوٹی انجام دینے سے روکنے کے لیے حملہ)، 332 (سرکاری ملازم کو ارادے سےاپنے فعل سے چوٹ پہنچانا)، 323 (چوٹ پہنچانا)، 436 (آگ سے نقصان پہنچانا)، 34 (یکساں ارادہ) اور 427 (پچاس روپے کا نقصان پہنچانا) اور آرمز ایکٹ کی دفعہ 27 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ آٹھ پولیس اہلکاروں اور ایک مقامی باشندے سمیت نو افراد زخمی ہوئے ہیں اور ان سبھی کو بابو جگ جیون رام میموریل ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ افسر نے کہا، ایک سب انسپکٹر کو گولی لگی ہے اور اس کی حالت مستحکم ہے۔

اسپیشل کمشنر، لاء اینڈ آرڈر (زون-1) دیپندر پاٹھک نے کہا، موقع پر امن و امان قائم ہے۔ ہم لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔ ہم نے ان سے امن و امان برقرار رکھنے اور افواہوں پر دھیان  نہ  دینےکی اپیل کی ہے۔

جہانگیرپوری میں سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم نے کافی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر دی ہے اور ہم نے حالات  کو قابو میں کر لیا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ تشدد کیوں ہوا، پاٹھک نے کہا، یہ تحقیقات کا معاملہ ہے۔ ہم اس کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں۔

افسروں نےبتایا کہ تشدد کی مذمت کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل نے کہا ہے کہ اس واقعہ کے لیے ذمہ دار لوگوں کو بخشا نہیں جائے گا۔

حکام کے مطابق،  سنیچر کی شام علاقے میں پتھراؤ کیا گیا اور رات گئے تک صورتحال کشیدہ رہی۔ پولیس نے بتایا کہ اتوار کو نیم فوجی دستوں کے سیکورٹی اہلکاروں نے سینئر افسران کے ساتھ مل کر علاقے میں فلیگ مارچ کیا، جس کے بعد حالات معمول پر آ گئے۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ جلوس نکالنے کے لیے پولیس کی اجازت تھی اور جہانگیرپوری میں پی سی آر، ایم وی پی اور ڈرون کے ساتھ تقریباً 50 پولیس اہلکار تعینات تھے۔

ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے بیجل نے لوگوں سے امن و قانون کو برقرار رکھنے میں پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی۔

تشدد کے بعد جہانگیر پوری میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

تشدد کے بعد جہانگیر پوری میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

انہوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر نے استھانہ سے کہا ہے کہ وہ دہلی کے دیگر تمام نشان زدحساس علاقوں اور خطوں میں فورسز کو تعینات کریں۔

واقعہ کے ایک مبینہ ویڈیو میں جلوس کے دوران کئی لوگوں کو پتھراؤ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ کچھ سڑک پر تلواریں لہراتے ہوئے نظر آئے تو کچھ گالیاں دے رہے تھے اور اس دوران پولیس کی گاڑی کا سائرن بھی بج رہا تھا۔ خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی آزادانہ طور پر اس ویڈیو کی سچائی کی تصدیق نہیں کر سکی۔

دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ نے فسادیوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیا اور شہریوں سے اپیل کی کہ وہ سوشل میڈیا پر افواہوں اور فرضی خبروں پر دھیان نہ دھریں۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا،شمال-مغربی ضلع میں واقعہ کے بعد حالات قابو میں ہیں۔ جہانگیرپوری اور دیگر حساس علاقوں میں مناسب سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

استھانہ نے ٹوئٹ کیا، سینئر افسران کو علاقے میں رہنے اور امن و امان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے اور گشت کرنے کو کہا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے تشدد کے بعد پولیس کمشنر اور اسپیشل کمشنر (لاء اینڈ آرڈر) سے بات کی اور تمام ضروری کارروائی کرنے کی ہدایت دی۔

دہلی پولیس نے مرکزی وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام کو جلوس کے دوران ہونے والے تشدد کے بارے میں آگاہ کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے دہلی پولیس کو ضروری ہدایات دی ہیں اور وہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ یہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے اور سبھی سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ کیجریوال نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر نے انہیں یقین دلایا ہے کہ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں اور قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔

کیجریوال نے ٹوئٹ کیا، دہلی کے جہانگیر پوری میں جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر امن بنائے رکھیں۔

کپل مشرا اور بی جے پی کی دہلی یونٹ کے ترجمان پروین شنکر کپور سمیت پارٹی کے کچھ لیڈروں نے الزام لگایا کہ یہ اس علاقے میں رہنے والے غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجرین کی کرتوت ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم پی منوج تیواری نے دعویٰ کیا کہ یہ ‘ایک بڑی سازش کا حصہ ہے جس کی فوری طور پر تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔’

عہدیداروں نے کہا کہ قومی دارالحکومت کے باقی تمام 14 اضلاع میں سیکورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے اور تکنیکی سطح کی نگرانی بھی کی جارہی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔

فروری 2020 کے شمال-مشرقی دہلی فسادات کے بعد قومی دارالحکومت میں یہ پہلا بڑا فرقہ وارانہ تصادم ہے۔ 24 فروری 2020 کو شمال-مشرقی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تشدد کے بعد فرقہ وارانہ جھڑپوں میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور تقریباً 700 زخمی ہوئے تھے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)