خبریں

رانچی تشدد میں مارے گئے نابالغ کے اہل خانہ  10 دنوں سے ایف آئی آر لکھوانے کے لیے بھٹک رہے ہیں

پیغمبر اسلام کےبارے میں  بی جے پی لیڈروں کے تبصرے کے خلاف میں 10 جون کو جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں پیش آئے  تشدد کے  واقعہ میں ایک نابالغ سمیت دو افراد کی موت ہوگئی تھی۔ متاثرہ خاندان  نے پولیس کے ساتھ ساتھ ایک مقامی ہندوتوا کارکن پر گولی باری  کا الزام لگایاہے، لیکن پولیس نے ابھی تک اس سلسلے میں ان کی  ایف آئی آر نہیں لکھی ہے۔ اب اہل خانہ نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرنے کی بات کہی ہے۔

جس ہنومان مندر کے پاس 10 جون کو احتجاجی مظاہرہ پرتشدد ہو گیا تھا، اس کے باہر تعینات حفاظتی دستے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جس ہنومان مندر کے پاس 10 جون کو احتجاجی مظاہرہ پرتشدد ہو گیا تھا، اس کے باہر تعینات حفاظتی دستے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کی طرف سے پیغمبر اسلام کے بارے میں تبصرے کے خلاف جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں احتجاجی  مظاہروں کے دوران پولیس کی کارروائی میں گولی لگنے سے ایک نابالغ اور ایک نوجوان کی موت ہو گئی تھی۔

اس کارروائی میں جان گنوانے  والے 15 سالہ مدثر عالم کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ تشدد کے  10 دن بعد بھی  پولیس نے ابھی تک ان کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ پولیس ایف آئی آر نہ لکھ کر قاتلوں کوبچارہی ہے۔

خاندان کا دعویٰ ہے کہ 10 جون کے تشدد کے دوران مبینہ طور پر گولی چلانے والے بھیروں سنگھ کی جانب سےایک کاؤنٹر شکایت درج کروائی  گئی ہے۔

عدالت کا رخ

مدثر کے چچا شاہد ایوبی نے کہا،حکومت اپنی پولیس، اپنی انتظامیہ اور خود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

شاہد نے بتایا کہ اہل خانہ کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خاندان رانچی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرے گا۔

شاہد نے الزام لگایا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت اپنی پولیس اور انتظامیہ کو شرمندگی سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ قاتلوں کو بھی بچانا چاہتی ہے۔

مدثر کو 10 جون کو گولی مار دی گئی تھی۔ انہیں شہر کے آر آئی ایم ایس اسپتال لے جایا گیا، جہاں رات  میں انہوں نے دم توڑ دیا تھا۔ اسی رات تشدد کے دوران گولی لگنےسے 20 سالہ محمد ساحل  کی بھی موت ہو گئی تھی۔

مدثر 10ویں جماعت کے امتحان کے نتائج کا انتظار کر رہے  تھے، ساحل نے 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور ایک موبائل شاپ میں کام کر رہے تھے۔ مدثر کے والد میوہ فروش ہیں، جبکہ ساحل کے والد آٹو چلاتے ہیں۔

دی وائر نے مدثر کے اہل خانہ کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کی تفصیلات  پر اس سے قبل رپورٹ  کی تھی اور اس میں تین لوگوں کے نام ہیں، بھیروں سنگھ، ششی شرد کرن، سونو سنگھ اور دیگر۔ اہل خانہ نے ان پر مندر کی چھت سے فائرنگ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ گولی باری کے  بعد مسلم فریق نے بھی پتھراؤ شروع کردیا۔

والد کی طرف سے کی گئی شکایت میں مزید کہا گیا ہے کہ ،وہیں سے افراتفری پھیل گئی، بھگدڑ کا ماحول پیدا ہو گیا۔ ایسے میں وہاں موجود پولیس والوں نے مسلم فریق کو نشانہ بناتے ہوئے اے کے 47 اور پستول سے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ ایک طرف مندر کی چھت اور دوسری طرف سڑک پر موجود پولیس اہلکاروں کی مسلسل فائرنگ کی وجہ سے بھگدڑ میں ایک گولی میرے بیٹے کے سر میں لگی اور وہ خون میں لت پت سڑک پر گر گیا۔

دی وائر کے ذریعے ڈیلی مارکیٹ تھانے سے رابطہ کرنے پربتایا گیا کہ پولیس نے شکایت موصول ہونے کی جانکاری جاری کر دی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایف آئی آر درج کی گئی ہے تو تھانہ انچارج نے کوئی جواب نہیں دیا۔

کاؤنٹر شکایت

تشدد کے بعد مقامی رپورٹس کے مطابق، مندر سے گولی چلانے کے ملزم بھیروں سنگھ علاقے میں مشہور ہندوتوا کارکن ہیں۔

رانچی میں 10 جون کو ہونے والے تشدد میں ملوث ملزمین کی تصاویر والے بینر سڑکوں پر لگائے گئے ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

رانچی میں 10 جون کو ہونے والے تشدد میں ملوث ملزمین کی تصاویر والے بینر سڑکوں پر لگائے گئے ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سنگھ اس سے قبل مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کر چکے ہیں۔ 2021 میں انہوں نے جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کے قافلے پر حملہ کیا تھا، ایسی خبریں ہیں کہ اس کے بعد انہیں کچھ وقت جیل میں گزارنا پڑا تھا۔

رپورٹس کے مطابق، بھیروں سنگھ نے بھی مدثر کے گھر والوں کے خلاف  شکایت درج کرائی ہے۔ سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ رانچی کے مین روڈ علاقے میں  جمعہ کی نماز کے بعد پیش آنے والے پرتشدد واقعہ میں ایک کمیونٹی کی جانب سے ان کی شبیہ کو خراب کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق، شکایت میں انہوں نے تبلیغی جماعت اور جھارکھنڈ مسلم یوتھ فورم کی صوفیہ اور پرویز کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

جھارکھنڈ مسلم یوتھ فورم ایک این جی او ہے جسے مدثر کے چچا شاہد چلاتے ہیں۔

دی وائر نےبھیروں سنگھ سے رابطہ کیا، حالانکہ ان  کا فون بند جا رہا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ وہ رانچی چھوڑ چکے ہیں۔

شاہد نے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے خلاف شکایت درج کی گئی ہے، لیکن ہمیں ابھی تک ایف آئی آر کی کاپی نہیں ملی ہے۔

شاہد نے کہا کہ تنظیم کا نام صرف اس لیے لیا جا رہا ہے، کیوں  کہ وہ اس سے وابستہ ہیں۔

انہوں نے بتایا، میرے جس بھائی کا نام بھیروں  کی شکایت میں درج ہے، اس کے پاس فون تک نہیں ہے اور اس پر سوشل میڈیا پر بھیروں سنگھ کی امیج  خراب کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور مل کر انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ڈیلی مارکیٹ تھانے کے انچارج نے دی وائر کو تصدیق کی کہ مدثر کے اہل خانہ کے خلاف شکایت درج کرائی گئی ہے، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کیا اس معاملے میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

رانچی تشدد کے سلسلے میں ملزمین کی گرفتاری جاری ہے۔ اس دوران مسلم لیگ کے ریاستی صدر عرفان خان نے الزام لگایا کہ سماجی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا 10 جون کے واقعات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

خان نے کہا، متاثرہ خاندان روزانہ پولیس اسٹیشن کے باہر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے رشتہ داروں کو کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شرمناک ہے کہ جس شخص کا بیٹا مارا گیا ہے اس کی ایف آئی آر ابھی تک نہیں لکھی گئی ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔