خبریں

گجرات: ارکان اسمبلی  نے بلقیس بانو معاملے میں مجرموں کی رہائی کے فیصلہ کو رد کرنے کا مطالبہ کیا

گجرات سے کانگریس کے تین مسلم ایم ایل اے نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ وہ مرکزی وزارت داخلہ اور ریاستی حکومت کو 2002 کے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کی رہائی کے ‘شرمناک فیصلے’ کو واپس لینے کی ہدایت دیں۔

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات اسمبلی میں کانگریس کے تین مسلم ایم ایل اے نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو خط لکھ کر ان سے اپیل  کی ہے کہ وہ مرکزی وزارت داخلہ اور ریاستی حکومت کو 2002 بلقیس بانوگینگ ریپ  اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل  کے معاملے میں عمر قید کی سزاپانے والے  11 مجرموں کی رہائی کے ‘شرمناک فیصلے’ کو واپس لینے کی ہدایت دیں۔

اس سلسلے میں ایم ایل اے غیاث الدین شیخ، عمران کھیڑا والا اور جاوید پیرزادہ نے صدر  جمہوریہ کو خط لکھا ہے۔ شیخ نے اس کی جانکاری  سنیچر (20 اگست) کو دی۔

ارکان اسمبلی کی طرف سے لکھے گئے مشترکہ خط میں گجرات کی بی جے پی حکومت کی جانب سے 11 مجرموں کی رہائی کے فیصلے کو ‘شرمناک’، ‘غیرحساس’  اور انصاف کے لیے لڑنے والوں کے لیے مایوس کن قرار دیا گیا ہے۔

شیخ نے ٹوئٹر پر شیئر کیے خط میں کہا ہے کہ، اگرچہ مرکزی حکومت کی طرف سے واضح ہدایت ہے کہ ریپ کے مقدمات میں عمر قید کی سزا پانے والے مجرموں کو معافی کی پالیسی کے تحت رہا نہیں کیا جانا چاہیے، پھر بھی گجرات کی بی جے پی حکومت نے بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے 11 مجرموں کو معاف کر کے اپنی بے حسی  کا مظاہرہ کیا ہے۔ انصاف کے لیے لڑنے والوں کے لیے یہ مایوس کن فیصلہ ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ایک عورت  ہونے کے ناطے صدر جمہوریہ ایک خاتون کے درد کو سمجھ سکتی ہیں۔ بلقیس بانو کیس کے قصورواروں کو سخت ترین سزا دی جانی چاہیے۔

خط کے مطابق، اس کے برعکس گجرات کی بی جے پی حکومت نے ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو معافی دے دی  ہے۔

ارکان اسمبلی نے کہا کہ وہ صدر سے اس معاملے میں فوری مداخلت کرنے کی اپیل کرتے ہیں اور مرکزی وزارت داخلہ اور گجرات حکومت کو مجرموں کو معاف کرنے کے شرمناک فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت دینے کی گزارش  کرتے  ہیں۔

خط میں کہاگیا ہے کہ، سب سے چونکانے والی بات یہ ہے کہ بنیاد پرست خیالات کے لوگ ایسے مجرموں کی رہائی پر جشن منا رہے ہیں اور ان کا استقبال کر رہے ہیں، جو کہ ایک غیر انسانی فعل ہے۔ گجرات حکومت کے اس قدم کو ایک خطرناک روایت میں تبدیل ہونے سے پہلے روکنے کی ضرورت ہے۔

ارکان اسمبلی نے کہا کہ یہ فیصلہ اس وقت اورزیادہ چونکانے والا ہےجب وزیر اعظم خواتین کے احترام کی بات کرتے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ،گجرات حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے تاکہ شہریوں کا قانون پر سے اعتماد ختم نہ ہو اور بلقیس بانو کی طرح کسی اورکو ایسی  تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

گزشتہ 15 اگست کو گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت عمر قید کی سزا کاٹ رہے ان  تمام 11 مجرموں کی رہائی کو منظوری دی تھی ، جس کے بعد ان سب کو اسی دن گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا۔

رہائی کی سفارش کرنے والے پینل کے ایک رکن بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نےریپسٹ کو ‘اچھے سنسکاروں’  والا ‘برہمن’ بتایا تھا۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ  اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  ان لوگوں  کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی ہے۔

بہرحال گجرات حکومت کے اس فیصلے پر وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا، یہ سال 2022 ہے لیکن میں وہی خوف، عدم تحفظ اور ناامیدی محسوس کر رہی ہوں جیسا 2002 میں محسوس کر رہی  تھی۔ اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بدلا ہی نہیں  ہے۔ یہ 2002 جیسا ہی لگ رہا ہے۔

سال 2002 میں پیش آئے اس  واقعے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنے والی بلقیس نے کہا تھا کہ اب ان میں صبر ہے نہ ہمت۔ انہوں  نے کہا، میں بہت مایوس ہوں۔ ہم ہار گئے۔

انہوں نے مزید کہا، آزادی کا دن ہمارے لیے بری خبر لے کر آیا۔ میری آزادی، حقوق، تحفظ سب چھین لیے گئے۔ میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی میری مدد کر سکتا ہے؟ ہاں، میں اپنی لڑائی  ہار چکی  ہوں۔

قصورواروں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کی اپوزیشن جماعتوں سمیت سماجی اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مذمت کی ہے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)