خبریں

یوپی: ڈاکٹر نے کیا تھا ہندو تنظیموں کی حمایت کی وجہ سے دھمکی ملنے کا دعویٰ، جانچ میں معاملہ فرضی نکلا

غازی آباد کے ایک ڈاکٹر نے کیس  درج کرواتے ہوئے کہا تھاکہ ہندو تنظیموں کی حمایت کی وجہ سے انہیں ایک غیر ملکی نمبر سے سر قلم کرنے کی دھمکی ملی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش میں معاملہ فرضی پایا گیا۔ ڈاکٹر نے سستی شہرت  حاصل کرنے کے لیےیہ کیس درج  کرایا تھا۔

یتی نرسنہانند کے ساتھ ڈاکٹر اروند وتس ۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

یتی نرسنہانند کے ساتھ ڈاکٹر اروند وتس ۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: غازی آباد میں ہندو تنظیموں کی حمایت کرنے پر سر قلم کرنے کی دھمکی ملنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ درج کروانے والے ڈاکٹر کا دعویٰ پولیس کی جانچ میں فرضی پایا گیا ہے، جس کے بعد ضلع پولیس ان کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (سٹی-فرسٹ) نپن اگروال نے اتوار کوکہا کہ سیہانی گیٹ تھانہ حلقہ کے تحت لوہیا نگر میں کلینک چلانے والے ڈاکٹر اروند وتس نے 2 ستمبر کو امریکہ کے نمبر سے وہاٹس ایپ کال پر ان کا سر قلم کرنے کی دھمکی دیے جانے کا مقدمہ درج کرایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر نے الزام لگایا تھا کہ وہاٹس ایپ کال پر فون کرنے والے نے کہا تھا کہ اگر اس نے ہندوتوا تنظیموں کی حمایت بند نہیں کی تو اس کا ‘سر تن سے جدا’ کر دیا جائے گا اور اسے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مہامنڈلیشوریتی  نرسنہانند بھی نہیں بچا پائیں گے۔

اگروال نے کہا، ڈاکٹر کی تحریر پر درج کیس کی جب جانچ کی گئی تو معاملہ پوری طرح سے فرضی نکلا۔ پولیس نے پایا کہ ڈاکٹر نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے یہ مقدمہ درج کرایا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ انہیں امریکہ سے کوئی کال نہیں آئی تھی،بلکہ مالویہ نگر دہلی کے رہنے والے ان کے مریض انیش کمار نے ان سے مشورہ کے لیے وہاٹس ایپ کال کی تھی۔ ڈاکٹر کو سر قلم کرنے کی کوئی دھمکی نہیں دی گئی ہے۔

اپنی شکایت میں 9 ستمبر کو وتس نے الزام لگایا تھا کہ اسے ایک امریکی نمبر سے تین دھمکی آمیز وہاٹس ایپ کالز موصول ہوئی تھیں اور کال کرنے والے نے انہیں ہندو تنظیموں کی حمایت کرنے کے خلاف وارننگ دی تھی۔

ایک،دو اورسات ستمبر کو آئےان فون کالز کے سلسلے میں تحقیقات کے دوران پولیس کو پتہ چلا کہ کال ڈاکٹر کے ہی  23 سالہ دمے کے مریض نے کی تھی اوراپنی بیماری کے بارے میں بتایا تھا اور کوئی دھمکی نہیں دی تھی۔

پولیس نے بتایا، 2 ستمبر کو کمار نے ڈاکٹر کو وہاٹس ایپ کال کی تھی اور اپنی سوجی ہوئی ٹانگ کی تصویر بھی شیئر کی تھی۔

ایس پی اگروال نے صحافیوں کو بتایا کہ مریض نے انٹرنیٹ کے ذریعے جاری کردہ نمبر سے کال کی تھی جس کی وجہ سے ان کا نمبر امریکی نمبرجیسادکھا۔

اگروال نے بتایا کہ اب ڈاکٹر وتس کو جھوٹا مقدمہ درج کروانے کے جرم میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ پولیس نے ان کے کلینک اور گھر پر دبش دی ہے، لیکن وہ وہاں نہیں ملے۔ تاہم ان کی تلاش جاری ہے۔

وتس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 182 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، وتس کےشروعاتی دعوے کو کئی ٹی وی نیوز چینلوں سمیت مین اسٹریم کےمیڈیا آؤٹ لیٹس نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا تھا۔ صحافی اور فیکٹ چیکر محمد زبیر نے ایسے کئی چینلوں کے کلپ ٹوئٹ کیے ہیں جن میں ڈاکٹر کے دعووں کو کور کیا گیاتھا۔

زبیر نے ایک اور ٹوئٹ کیا ہے جس میں وتس کے فیس بک اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کی گئی تصویروں کو  دکھایا گیا ہے۔ تصویروں میں وتس کو بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے پوسٹروں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پوسٹر میں ان کی پہچان ‘مغربی اتر پردیش’ کے مقامی میڈیا انچارج کے طور پر بتائی گئی ہے۔

وتس کو تصویروں میں عام طور پر بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ پہنے جانے والے اسکارف میں دیکھا جا سکتا ہے۔

زبیر کے ذریعہ شیئر کردہ ایک اور ویڈیو میں مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کرنے کے الزام میں گرفتارہوئےاور ضمانت پر رہا ہوئے کٹرہندوتوا لیڈریتی نرسنہانندکو ڈاکٹر کا دفاع کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دوران ڈاکٹر ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آرہے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ڈاکٹر نے پولیس کی تفتیش کو غلط قرار دیا ہے۔ انہوں نے اخبار کو بتایا، پولیس جو کچھ بھی کہہ رہی ہے، وہ بالکل غلط ہے۔ وہ اس نمبر کو جس شخص کا بتا رہی ہے میں اس کو نہیں جانتا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)