فکر و نظر

طارق عزیر اور لامبا: ہندوپاک سفارت کارتی کا ایک باب بند ہو گیا

طارق عزیز اور لامبا دونوں کے جانے سے کشمیر پرہندوستان اور پاکستان کی سفارت کاری کے بہت سے پوشیدہ پہلو بھی راز میں ہی رہیں گے۔  مگر ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ انتقال سے قبل لامبا نے اپنی کتاب کا مسودہ مکمل کر لیا تھا۔ اب انتظار ہے کہ ان کی فیملی کب اس کو شائع کراتی ہے تاکہ بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھ جائےاوردونوں ممالک کی شاید کچھ رہنمائی بھی ہوجائے۔

طارق عزیر اور ستیندر کمار لامبا

طارق عزیر اور ستیندر کمار لامبا

کیا اتفاق ہے کہ ہندوستان  اور پاکستان کے دو زیرک سفارت کار، جنہوں نے  مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا ایک فارمولہ تیار کرکے، جنوبی ایشیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوشش کی تھی، یکے بعد دیگرے انتقال کرگئے۔

جون میں نئی دہلی میں  ستیندر کمار لامبا کی موت کے بس چار ماہ بعد ہی اسلام آباد میں طارق عزیز، جنہوں نے صدر پرویز مشرف کے پرنسپل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں، 18 ستمبر کو 81 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

اکتوبر 2008 کا دن تھا، پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے دو ماہ بعد، واہگہ اٹاری بارڈر پر ستیندر لامبا اور طارق عزیز کی جب ملاقات ہوئی، تو وہ ایک دوسرے سے گلے مل کر رو رہے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کےلیے انہوں نے جو پیش رفت پچھلے پانچ سالوں میں کی تھی، وہ اب بس فائلوں میں ہی دب کر رہ جائےگی۔

اس ملاقات کے وقت موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک جذباتی منظر تھا۔ صدر مشرف اور ہندوستان  میں پہلے اٹل بہاری واجپائی اور پھر منموہن سنگھ کی ایما پر دونوں سفارت کاروں نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کےلئے ایک نان پیپر تیار کیا تھا اور اس کے اکثر نکات پر دونوں ممالک متفق ہو گئے تھے۔ دونوں ممالک نے طے کیا تھا کہ زمینی حل کے بجائے اس مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر حل کرکے ایک پائیدار امن کی داغ بیل ڈالی جائے۔

لیکن جب تک وہ آخری نقطے پر پہنچ پاتے اور دونوں ممالک کے اداروں کو منوا پاتے،  دیر ہو چکی تھی۔ پاکستان میں مشرف کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا اور ہندوستان میں منموہن سنگھ کو انتخابات کا سامنا تھا۔ ان کی کانگریس پارٹی اب ہاتھ کھینچ رہی تھی۔ لامبا اور عزیز کی آخری ملاقات کے ایک ماہ بعد ہی نومبر 2008 میں ممبئی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ نے اس سفارت کاری کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ اس سے قبل سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین دھماکے نے بھی اس عمل کو پٹری سے اتارنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

ان دونوں مذاکرات کاروں کی خاص بات یہ تھی کہ جہاں لامبا پاکستان کے شہر پشاور میں پیدا ہوئے تھے، عزیرکی پیدائش دہلی کی تھی۔ لامبا کی اہلیہ کا تعلق بھی لاہور سے تھا۔ لاکھوں ہندو اور سکھ مہاجروں کی طرح وہ  بھی کبھی اپنی جڑوں سے تعلق ختم نہیں کر سکے۔ جب وہ 1978-81 تک ڈپٹی ہائی کمشنر اور پاکستان میں ہائی کمشنر (1992-95) کے طور پر تعینات رہے تو انہوں نے ذاتی تعلقات استوار کیے جو بعد میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن عمل کی بنیاد رکھنے میں معاون ثابت ہوئے۔

عزیز کی رگوں میں پنجابیت دوڑتی تھی۔ امرتسر کے لیے ان کی کشش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔

مشرف اور عزیز لاہور کالج میں اکٹھے پڑھے تھے۔ بعد میں مشرف فوج میں بھرتی ہو گئے اور عزیز  کسٹم سروس میں۔ ان کی دوستی سال در سال پروان چڑھتی گئی اور پختہ ہوتی گئی۔ جب مشرف نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے ہندوستان کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدہ کرنے کے لیے  اپنے قابل اعتماد دوست کا انتخاب کیا۔

عزیز کا انتخاب کرتے وقت مشرف کو اپنی ہی فارن سروس  کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں بیوروکریسی اکثر عزیز کی مذاکراتی صلاحیتوں اور ہندوستان  کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ان کی سمجھ کو چیلنج کرتی رہی۔ یہاں تک کہ انٹلی جنس ایجنسیوں نے عزیز کی تمام حرکتوں پر قریبی نظر رکھی ہوئی تھی۔ تب اکثر بیوروکریٹک اور انٹلی جنس لابیوں کی طرف سے عزیز  کے خلاف میڈیا میں خبریں پلانٹ کی جاتی تھیں۔

لیکن عزیز اور نہ ہی مشرف نے ایک بار بھی اپنے اس فیصلے پر شکوہ کیا۔ عزیز کی پنجاب سے محبت اور ہندوستان کے ساتھ امن کی چاہت مشرف کو اچھی طرح معلوم تھی۔ مشرف کو یہ بھی محسوس  ہوا کہ سفارت کاروں کے برعکس عزیز امن کے لیے زیادہ حساس تھے اور ہندوستان کے ساتھ گفتگو کے دوران وہ سفارت کاروں کے روایتی رویہ کے برعکس ذاتی سطح پر مسائل کو حل کرنے کی سکت رکھتے تھے۔

اگر کبھی ہندوستان  پاکستان کے امن کے سفر کی تاریخ لکھی جائے تو2004-2008 ایک سنہری دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ وہ وقت تھا، جب دونوں ممالک خون کا ایک قطرہ بہائے اور کچھ لو  اور دو کے بغیر اس مسئلہ کو حل کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے سرحدوں کو کھولنے اور کشیدگی کو کم کرنے  پر رضامندی ظاہر کی تھی۔


یہ بھی پڑھیں: ہندوستانی سفارت کاری کا رازدار اور کشمیر پر مشرف فارمولہ کا خالق ستیندر کے لامبا چلا گیا !


سال 2008 کے بعد بھی کسی نہ کسی سطح پرنان پیپر میں موجود اس حل کے احیا کی امیدیں بندھی تھیں۔مگر 2014 میں جب نریندر مودی نے ہندوستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو یہ امیدیں پورے طور پردم توڑ گئیں۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جبکہ لامبا نے مختلف پلیٹ فارمز پر ان مذاکرات کے بارے میں تفصیلات بیان کیں تاکہ یہ ریکارڈ پر رہیں،  جبکہ عزیز نے اپنا روایتی لو پروفائل برقرار رکھا۔ انہوں نے کسی عوامی کانفرنس یا سیمینار میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی اخبار میں کالم لکھے۔ وہ بہت پرائیویٹ شخص رہے جس کی زندگی گھر اور کتابوں تک محدود رہی۔ وہ صحافیوں یا سیاستدانوں یا سفارت کاروں سے ملنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔

کچھ صحافی جو ان کے ساتھ رابطے میں رہے، ان کے ساتھ ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوے بتاتے ہیں کہ انہیں  بے حد افسوس تھا  کہ ایک حل جو کامیابی کی دہلیز تک پہنچ گیا تھا، اچانک پھسل گیا۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا موقع صدیوں میں قوموں کو نصیب ہوتا ہے۔

عزیز صاحب کی بات کئی لحاظ سے درست تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں ملکو کے سربراہوں  کی جڑیں ایک دوسرے کے ممالک میں تھیں۔ دونوں مذاکرات کار پنجابی تھے۔ پھر سربراہان جیسے مشرف دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور منموہن سنگھ پاکستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔

اسی سال کے شروع میں، لندن کے ایک سول سوسائٹی گروپ نے دونوں مذاکرات کاروں کے درمیان ایک آن لائن میٹنگ کا اہتمام کیا تھا۔ میٹنگ میں چند صحافی بھی موجود تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ یہ ان دونوں کے درمیان آخری ملاقات تھی اوردونوں  بہت  ہی جذباتی بھی تھے۔

دونوں طرف سے سفارت کاروں اور امن کےلیے کام کرنے والوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کا ان کا تجویز کردہ حل ایک نہایت ہی عملی حل ہے۔

دونوں ممالک میں نوجوان نسل کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کے محدود مواقع ملے ہیں۔ سیاست دانوں اور سفارت کاروں کی نئی نسل ایک دوسرے سے کوسوں دور ہے۔ بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے ربط مزید کمزور ہوتے جا ر ہے ہیں۔ ان دونوں مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ  اگران کا تجویز کردہ حل نافذ ہوجاتا  توکشمیر ایک بفر کی طرح دونوں ممالک کے درمیان  کام کر سکتا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ختم ہو سکتے تھے۔

اب عزیز اور لامبا دونوں کے جانے سے کشمیر پرہندوستان اور پاکستان کی سفارت کاری کے بہت سے پوشیدہ پہلو بھی راز میں ہی رہیں گے۔  مگر ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ انتقال سے قبل لامبا نے اپنی کتاب کا مسودہ مکمل کر لیا تھا۔ اب انتظار ہے کہ ان کی فیملی کب اس کو شائع کراتی ہے تاکہ بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھ جائےاوردونوں ممالک کی شاید کچھ رہنمائی بھی ہوجائے۔

بقول اقبال؛

 جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی

جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ‌وَر پیدا

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)