فکر و نظر

آبادی کے عدم توازن پر موہن بھاگوت کی تشویش: کسی کمیونٹی کا نام نہیں لیا، لیکن سنگھ کے عقلمندوں کو اشارہ ہی کافی ہے …

موہن بھاگوت نے کسی بھی برادری کا نام لیے بغیر ملک میں برادریوں کے درمیان آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن پرتشویش کا اظہارکیا۔ سنگھ شروع سے ہی اشاروں میں بات کرتا رہا ہے۔ اس سے وہ قانون کی گرفت سے بچتا رہا ہے۔ ساتھ ہی اشاروں کی زبان کی وجہ سے دانشور حضرات بھی ان کے دفاع  میں کود پڑتے ہیں، جیسا کہ اس وقت سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کر رہے ہیں۔

 (تصویر ، بہ شکریہ: Facebook/@RSSOrg)

(تصویر ، بہ شکریہ: Facebook/@RSSOrg)

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ نے ایک بار پھر وجئے دشمی کے موقع پر جھوٹ، آدھے سچ اور فریب کا سہارا لے کر ہندوؤں کے درمیان دیگر برادریوں کے خلاف شکوک وشبہات، نفرت اور تشدد کے مذموم جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سنگھ کا اثر ہندوؤں کی ایک بڑی آبادی پر ہے۔ اس کے لیے سنگھ سربراہ کے الفاظ کی اہمیت ہونی چاہیے۔

اگر ان سے متاثر ہو کر دوسری برادریوں کے خلاف پہلے سے ان کے اندرموجود دشمنی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے ہندوستان کی سماجی زندگی میں کشیدگی اور تشدد میں مزید اضافہ ہو گا۔ اسی وجہ سے آج کل ان میں اس آبادی کے باہر بھی تجسس بہت  بڑھ گیا ہے۔ مسلمان یا عیسائی بھی اسے سنتے ہیں، کیونکہ ان کے لیے  سنگھ کس رویے کی وکالت کر رہا ہے، یہ جاننا  ان کی اپنی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

سنگھ کا خیال صرف اس تک محدود نہیں ہے۔ ایک طرح سے سنگھ اپنے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے ہندوستان کے ایک بڑے حصے پر راج کر رہا ہے۔ ہندوستان کی بیوروکریسی اور پولیس پر بھی اس کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ میڈیا ان کے چھوٹے بڑے بیانات پر توجہ دیتا ہے۔

وزیراعظم بھی پہلےسویم سیوک ہی ہیں۔ یہ بات اٹل بہاری واجپائی نے بھی کہی تھی۔ ان کے دور کے مقابلے آج سنگھ کا اثر ریاستی مشنری پر، یہاں تک کہ فوج پر بھی کہیں زیادہ نظر آتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سنگھ کی پالیسی اب اسٹیٹ کی پالیسی ہے۔ لہٰذا سنگھ کے سربراہ جو بھی کہتے ہیں، اس پر دھیان دینے اور اس کی تحقیقات کی ضرورت  بنی رہتی ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوستان میں برادریوں کے درمیان آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن پر تبادلہ خیال کیا اوراس پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کسی کمیونٹی کا نام نہیں لیا۔ لیکن سنگھ کے عقلمندوں کو اشارہ ہی کافی ہے۔

سنگھ شروع سے ہی اشاروں میں بات کرتا رہا ہے۔ اس سے وہ قانون  کی گرفت سے بچتا رہتاہے۔ اس کے علاوہ اشارے کی اس  زبان کی وجہ سے میڈیا اور دانشور حضرات بھی اس کے دفاع کے لیے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ جیسا کہ اس وقت سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کوشش مضحکہ خیز حد تک قابل رحم ہے کیونکہ سنگھ کو یقین ہے کہ اس کے ہندو اس کی کوڈ لینگویج کےعادی ہیں۔

ہندوستان میں جب سنگھ کی جانب سے برادریوں کا ذکر ہو تو اس کا مطلب ہندو اور مسلم اور عیسائی ہوتا ہے۔ برہمن، آدی واسی یا دلت نہیں۔ قریشی صاحب کہہ رہے ہیں کہ بھاگوت نے کسی برادری کا نام نہیں لیا۔ لیکن بھاگوت نے اسے مبہم بھی  نہیں رکھا۔

جب موہن بھاگوت نے کہا کہ ہندوستان میں برادریوں کے درمیان آبادی کا توازن بگڑ رہا ہے تو وہ کہہ رہے تھے کہ یہ عدم توازن ہندوؤں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ عدم توازن کس طرح  ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق شرح پیدائش میں عدم توازن  سےآبادی میں عدم توازن  بڑھتا ہے اور زبردستی تبدیلی مذہب وغیرہ کی وجہ سے بھی۔ اس کے بعد کیایہ کہنے کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ بھاگوت کے متوازن بیان میں برادریوں سے کیا مراد  ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بھاگوت نے آبادی میں عدم توازن کے خطرے کی نشاندہی کی ہو۔ اس سے پہلے تو وہ  اس پر قابو پانے کے لیے ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کر چکے ہیں تاکہ مسلمان یا عیسائی کی آبادی ان سے زیادہ نہ ہوجائے۔

بھاگوت جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہر کمیونٹی میں شرح پیدائش تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ نسبتاً مسلمانوں میں شرح پیدائش ہندوؤں کے مقابلے بہت کم ہے۔ آبادی میں توازن کسی لحاظ سے بگڑ نہیں رہا۔ بلکہ اب یہ مستحکم ہوتا جا رہا ہے اور تمام برادریوں میں شرح پیدائش تقریباً یکساں ہوتی جا رہی ہے۔

مسلمان بچے زیادہ پیدا کرتے ہیں اور ان کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہو جائے گی، یہ وہم تقریباً 100 سال سے پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ اور کسی بھی طرح سے یہ  ممکن نہیں  ہےکہ مسلمان آبادی کے لحاظ سے ہندوؤں کے آس پاس بھی آسکیں، یہ بات  قریشی صاحب نے اپنی حالیہ ملاقات میں بھاگوت کو اعدادوشمار کی مدد سے سمجھائی تھی۔ ان کو ایسا لگاتھا کہ انہوں نے ان کی بات سمجھ لی ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر لکھی اپنی تحقیقی کتاب بھی انہیں پیش کی تھی۔ اس پر بھاگوت بھی کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔ تو کیا انہوں نے وہ کتاب نہیں پڑھی؟

کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ درحقیقت بھاگوت جانتے ہیں کہ وہ آبادی کے معاملےمیں جھوٹ کا پرچار کر رہے ہیں۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جو مطالبہ وہ ابھی کر رہے ہیں، یعنی آبادی پر قابو پانے کی پالیسی کی، اس کے بارے میں ان کی اپنی حکومت کو بھی کہنا پڑا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بھاگوت جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ ڈر بھی ظاہر کیا کہ آبادی میں عدم توازن کی وجہ سے جغرافیائی حدود بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اس کا مفہوم بھی واضح ہے۔

بھاگوت وجئے دشمی کے موقع کو جھوٹ اور جھوٹ کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ ہندوؤں کے اندر مسلمانوں اور عیسائیوں کا خوف پیدا کرنا کیا نیک فال ہے؟ قریشی صاحب کو تقریر متوازن لگ رہی ہے اور وہ بھاگوت کی تعریف کر رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی کے ایک بااثر لیڈر نے سنگھ کے سربراہ کو بالکل ٹھیک ٹھیک سنا اور سمجھا۔

سنگیت سوم نے کھشتریوں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی تاکہ آبادی میں توازن قائم کیا جا سکے۔ کیا سوم صاحب سنگھ کی گمراہ سنتان ہیں؟ کیا قریشی صاحب سنگیت سوم کو مشورہ دیں گے کہ وہ ان کی کتاب پڑھیں اور بھاگوت کو ٹھیک سے سنیں؟

بھاگوت کے بیان میں دھوکہ بھی تھا۔ وہ پچھلے وقتوں  سے کہہ رہے ہیں کہ عبادت کاطریقہ کچھ بھی ہو، ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگ ہندو ہیں۔ اگر ہر کوئی ہندو ہے تو عبادت کے طریقوں  کی تعداد میں اضافے کی فکر کیوں ہونی چاہیے؟ آخر تعداد تو’ہندوؤں’ کی ہی  بڑھ رہی ہے۔

لیکن اس بات کا مطلب سب جانتے ہیں۔ ایک طرف وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے آزادانہ  وجود سے انکار کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کو ہندوؤں سے مختلف ہی نہیں ،  بلکہ ان کا دشمن کہہ کر ہندوؤں  کو ان سےڈراتے ہیں۔

اس کے بعد موہن بھاگوت نے سماج میں تشدد پر تشویش کا اظہار کیا۔ وہ دشمی کے دن بول رہے تھے اور ان کے خطاب سے پہلے گجرات، مدھیہ پردیش اور دیگر مقامات سے بجرنگ دل کے لوگوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملوں کی خبریں موصول ہورہی تھیں۔ بجرنگ دل سنگھ سے وابستہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھاگوت کہتے کہ ہندوؤں کی طرف سے اس طرح  کا تشدد ناقابل قبول ہے۔اپنے مذہبی تہوار میں  ہر کسی کوخوش آمدید کہا جائے، مار پیٹ نہ کی جائے۔ لیکن بھاگوت نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ جیسے کہ یہ تشدد کبھی ہوا ہی نہیں ہو۔

بھاگوت نے ادے پور اور امراوتی میں مسلمانوں کے تشدداور قتل کا حوالہ دیا۔یہ کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ مسلمانوں نے اس تشدد کی مخالفت کی، لیکن یہ احتجاج زیادہ وسیع ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوؤں کی طرف سے تشدد ہوتا ہے تو تمام ہندو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے۔

ہندوؤں کی طرف سے ان کے نام پرجوتشدد ہندوستان میں مسلسل بڑھ رہا ہے، خود سنگھ نے کبھی اس کی مذمت نہیں کی، باقی ہندوؤں کی بات تو رہنے ہی دیجیے۔

بلکہ تشدد کے ملزموں کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ اور سنگھ سے وابستہ تنظیموں کی طرف سے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھ کروہ ایسے کسی بھی تشدد سے انکار کرتے ہیں۔ بلکہ کئی بار وہ مسلمانوں پر ہوئے تشدد کے لیے انہی کو ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوسنگھ کی تنظیم یعنی بی جے پی الیکشن میں ٹکٹ دیتی ہے اور وزیر بھی بناتی ہے۔

اس کے بعد موہن بھاگوت نے حکومت کی تعریف کی۔ ان کی تقریر کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کا کام حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ اس سے نوکری وغیرہ مانگ کر اس کو تنگ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ تقریر سن کر وہ تجزیہ نگار الجھن میں پڑ گئے کیونکہ ابھی کچھ دن پہلے ہی سنگھ کے ایک سینئر عہدیدار نے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

لیکن سنگھ کو جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ سنگھ دس منہ سے بولتا ہے تاکہ سننے والے اپنی سہولت کے مطابق اس کی تشریح کرتے رہیں۔ سب سے بےپرواہ سنگھ  کوجو  کام بھی کرنا ہے کرتا رہے گا۔ وہی کام جو اس بارموہن بھاگوت کیا: ہندوؤں میں عدم تحفظ، دوسری برادریوں کے لیے  شکوک و شبہات، نفرت اور علیحدگی کاپروپیگنڈہ۔

(اپورواننددہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)