خبریں

مرکزی حکومت تین ملکوں کی غیر مسلم اقلیتوں کے لیے شہریت کے حصول کو آسان بنائے گی: رپورٹ

ایک سرکاری  ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سےآئے چھ اقلیتی برادریوں –  ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، بودھ اور جین کی شہریت کی درخواستوں کو آگے بڑھانے کے لیے معاون دستاویزوں  کے طور پر ایکسپائرڈ پاسپورٹ اور ویزا کو قبول کرنے کے لیے شہریت کے پورٹل میں تبدیلی کرنےکی تیاری میں ہے۔

 (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے قانونی دستاویزوں کے ساتھ ہندوستان آئے ان اقلیتوں،جن کے پاسپورٹ اور ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے، کےلیے مرکزی حکومت شہریت کے عمل کو آسان بنانے کی تیاری میں ہے۔

دی ہندو نے ایک سرکاری ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایسی امید ہے کہ وزارت داخلہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے سےآئے چھ اقلیتی برادریوں –  ہندوؤں، سکھوں، پارسیوں، عیسائیوں، بدھ متوں اور جینوں کے لیے شہریت کی درخواستوں  کو آگے بڑھانے کے لیے معاون دستاویزوں  کے طور پرایکسپائرڈ پاسپورٹ اور ویزا کو قبول کرنے کے لیے شہریت پورٹل میں تبدیلی کرنے  کی تیاری میں ہے۔

وزارت داخلہ کے زیر انتظام شہریت پورٹل فی الحال صرف پاکستان اور افغانستان سے آئےان  ہندو اور سکھ درخواست دہندگان کے معاون دستاویز کے طور پرایکسپائرڈ پاسپورٹ کو قبول کرتا ہے، جو 31 دسمبر 2009 سے پہلے ہندوستان آئے تھے۔

ہندوستان میں پاکستانی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سیمانت لوک سنگٹھن (ایس ایل ایس) کے صدر ہندو سنگھ سوڈھا کے مطابق، پورٹل یکم جنوری 2010 یا اس کے بعد آنے والے افراد کے لیے ایکسپائرڈ پاکستانی پاسپورٹ  قبول نہیں کرتا ہے۔

سوڈھا نے کہا، 2010 میں ہندوستان میں داخل ہونے والے ایک پاکستانی ہندو  کے لیے آن لائن سسٹم ایکسپائرڈ پاسپورٹ کو قبول نہیں کرتا ہے، جس کی وجہ سے درخواست قبول نہیں کی جاتی ہے۔ اس کے بعد فرد یا خاندان کو دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جو پاسپورٹ کی تجدید کے لیے بھاری رقم وصول کرتا ہے اور بعض اوقات بے بنیاد وجوہات بتا کر اسے مسترد بھی کر دیتا ہے۔

انہوں نے کہا، اگرچہ وہ شخص 1955 کے ایکٹ کے تحت ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا اہل ہو، کیونکہ اس نے تقریباً 12 سال ہندوستان میں گزارے ہیں، تب بھی اسے رکاوٹوں کا سامنا  کرنا پڑتاہے۔

سال 2015 میں وزارت داخلہ نے شہریت کے قوانین میں ترمیم کی  تھی اور مذہبی ہراسانی  کی وجہ سے 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ہندوستان میں داخل ہونے والی ان چھ برادریوں سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی تارکین وطن کو ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی پاسپورٹ ایکٹ اور فارنرز ایکٹ نے کے اہتماموں سے چھوٹ  دے کر ہندوستان میں رہنے کا  قانونی جواز فراہم کیا تھا۔

اگرچہ انہیں ہندوستان میں غیر قانونی طور پر رہنے کے لیے کسی بھی مجرمانہ کارروائی کا سامنا کرنے سے چھوٹ حاصل تھی، لیکن آن لائن پورٹل ان کی شہریت کی درخواستوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایکسپائرڈدستاویزوں کو قبول نہیں کرتا ہے۔

ذرائع نے بتایا،آن لائن پورٹل میں تبدیلیاں کی جائیں گی تاکہ غیر ملکی پاسپورٹ اور ویزے جن کی میعاد ختم ہو چکی ہے، کو شہریت کی درخواستوں کے لیے معاون دستاویزات کے طور پر قبول کیا جا سکے۔

شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) 2019، جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہونے والے  تین پڑوسی ممالک سے ان چھ غیر مسلم کمیونٹی کے غیر دستاویزی (یا غیر قانونی) تارکین وطن کو شہریت دینے کی بات کرتا ہے ، ابھی تک لاگو نہیں ہوا ہے کیونکہ اس کے قوانین ابھی تک نہیں بنائے گئے ہیں۔

سوڈھا کے مطابق، ایسے 18000 رجسٹرڈ پاکستانی ہندو ہیں جو شہریت  ملنے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

غورطلب  ہے کہ وزارت داخلہ نے دسمبر 2021 میں پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ 2018 اور 2021 کے درمیان حکومت کو اقلیتی گروپوں سے شہریت کی 8244 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 3117 کو شہریت دی گئی۔