خبریں

سرکار کا صحافت پر فرمان جاری کرنا خطرناک ہے: سدھارتھ وردراجن

کیرالہ حکومت کے محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کی جانب سے منعقد ایک تقریب کے دوران دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے کہا کہ ماضی میں حکومتوں کی جانب سے میڈیا اور میڈیا کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن آج اس میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

سدھارتھ وردراجن حکومت کیرالہ کےمحکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں۔ (فوٹو بہ شکریہ: آرگنائزر)

سدھارتھ وردراجن حکومت کیرالہ کےمحکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں۔ (فوٹو بہ شکریہ: آرگنائزر)

نئی دہلی: دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے کہا کہ ہندوستان میں آزاد صحافت کا کمزور ہونا جمہوریت کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ،اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے  لوگ طے کرتے ہیں کہ صحافت کیسی ہونی چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق، ورادراجن اتوار (29 جنوری) کو حکومت کیرالہ کے محکمہ اطلاعات اور تعلقات عامہ کی جانب سے انڈین نیوز پیپر ڈےمنانے کے لیےمنعقد ایک تقریب کے دوران ’21ویں صدی میں آزاد صحافت کو درپیش چیلنجز’ کے موضوع پر کلیدی خطبہ دینے کے لیے ترواننت پورم میں تھے۔

وردراجن کے بقول، آزاد صحافت کے لیے سب سے بڑا خطرہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں  کا سیاسی رویہ ہے جو یہ طے کرتے ہیں کہ پرنٹ، ٹی وی اور آن لائن میڈیا میں کیا دکھایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا،’حکومت کے پاس اپنی پالیسیوں اور حصولیابیوں کو عوام تک لے جانے کے متعددوسائل ہیں۔ یہ میڈیا کا کام نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج حالات اس کے برعکس ہیں۔ بہت سے مین سٹریم میڈیا گھرانے حکومت کے بھونپو بن چکے ہیں۔ ایک جمہوری نظام میں میڈیا کو حکومت کے ترجمان کی طرح برتاؤ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسےعوام کے لیے، ملک کے آئین اور آئین کی طرف سے دی گئی آزادی کے مطابق چلنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتوں کی جانب سے میڈیا اور میڈیا کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے کئی واقعات رونما ہوئے، لیکن آج اس میں  غیر معمولی حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، کسی خاص ایشو سے متعلق خبروں اور تبصروں کی غیر رسمی سینسرنگ اس کا ثبوت ہے۔ اس قسم کی سینسرنگ کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جہاں حکومت مسلسل یہ طے کرتی ہے کہ لوگوں کو کیا پڑھنا، دیکھنا اور بولنا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا پر لوگوں کا کم ہوتا ہوا اعتماد آزاد میڈیا کو درپیش ایک اور چیلنج ہے۔ لوگ ان دنوں جو خبریں پڑھتے یا دیکھتے ہیں ان پر یقین کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ معروضی صحافت اور اقتدارسے ناپسندیدہ  سوال پوچھنے سے میڈیا کے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے ہے۔

اس پروگرام کا افتتاح کیرالہ کے مقامی یونت  اور آبکاری وزیر ایم بی راجیش نے کیا۔ ان کے مطابق، آزاد میڈیا کو درپیش چیلنج وہی ہیں جو جمہوریت کو درپیش ہیں۔ راجیش نے مین اسٹریم میڈیا کے ایک حصے پر طنز کیا، جو کہ ان کے مطابق سیاسی دباؤ کا شکار ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میڈیا گھرانے اس وقت بھی آواز اٹھانے کو تیار نہیں جب ان کی آنکھوں کے سامنے آزادی صحافت کو سلب کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کے کئی اداروں میں حکمرانوں کی حصولیابیوں  کا ڈھول پیٹنے کا مقابلہ جاری ہے۔ یہ تبدیلی پچھلے چند سالوں میں آئی ہے۔ ہندوستان، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت وہ  رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرز کے پریس فریڈم انڈیکس میں 150 ویں نمبر پر ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوستانی  میڈیا کے لیے یہ کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔

پروگرام کی صدارت کیرالہ میڈیا اکیڈمی کے صدر آر ایس بابو نے کی۔ دیگر مقررین میں اطلاعات اور تعلقات عامہ کے سکریٹری پنیت کمار اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے جنرل سکریٹری آر کرن بابو شامل تھے۔

اس کے بعدایک پینل چرچہ میں نیوز لانڈری کے شریک بانی اور سی ای او ابھینندن سیکھری، دی نیوز منٹ کے مدیردھنیا  راجندرن، کارواں میگزین کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، ونود کے جوس، دی وائر کے مدیرر سدھارتھ وردراجن، صحافی جوسی جوزف، جانی لوکوس اور وی بی پرمیشورن نے حصہ لیا ۔اس کی نظامت سینئر صحافی ایم جی رادھا کرشنن نے کی ۔