الیکشن نامہ

نریندر مودی کا مسلمانوں کے خلاف نہ بولنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے

گزشتہ اپریل میں راجستھان کے بانس واڑہ سے شروع ہونے والی تقریروں کی ایک سیریز میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے دعوے کیے ہیں کہ کانگریس ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سے ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پر مسلم مخالف ویڈیو بھی ڈالے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی اپنے مسلم مخالف بیانوں سے مکر گئے ہیں۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جب مودی سے پوچھا گیا کہ وہ مسلمانوں کو ‘گھس پیٹھیا’ اور ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والا’ کیوں کہتے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کی باتوں کا غلط مطلب نکالا گیاہے۔

مودی نے کہا، ‘میں حیران ہوں جی، کس نے آپ کو کہا… جب زیادہ بچوں کی بات ہوتی ہے مسلمان کا نام جوڑ دیتے ہیں۔ کیوں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں آپ؟ ہمارے یہاں غریب گھرانوں میں بھی یہی حال ہے… غریبی جہاں  ہے وہاں بچے بھی زیادہ ہیں… میں نے نہ ہندو کہا ہے ،نہ مسلمان کہا ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘میں جس دن ہندو-مسلمان کروں گا، اس دن عوامی زندگی میں رہنے کے لائق  نہیں رہوں گا۔ میں ہندو مسلم نہیں کروں گا، یہ میرا عزم ہے۔’

نیوز 18 کو دیے گئے انٹرویو میں یہ بات چیت 21 اپریل کو بانس واڑہ (راجستھان) میں انتخابی مہم کے دوران مودی کی جانب سے کی گئی تقریر کے تناظر میں ہو رہی تھی۔

ایک طرف مودی ہندو-مسلمان نہ کرنے کے اپنے عزم کا اعلان کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی پارٹی کے آفیشل ایکس ہینڈل سے ویڈیو پوسٹ کر کے مسلمانوں کو ولن کے طور پر دکھایا جا رہا ہے۔ کانگریس کی مبینہ سازش کو دکھاتے ہوئے ویڈیو میں مسلمانوں کو ہندو مذہب کے محروم برادریوں کے ریزرویشن کو غصب کرنے والا دکھا یا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے ایسے ہی ایک ویڈیو کو ہٹانے کا حکم بھی دیا ہے ۔

مودی نے مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا تھا؟

بانس واڑہ میں مودی نے جھوٹا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ  لوگوں کی املاک کا سروے کرے گی اور ہماری بہنوں کا سونا دوسروں میں بانٹ دے گی۔

مودی نے کہا تھا، ‘پہلے جب ان کی حکومت تھی تب انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے،اس کا مطلب یہ جائیداد اکٹھا کرنے کے بعد کس کو  دیں گے- جن کے زیادہ بچے ہیں،ان کو دیں گے، گھس پیٹھیوں میں تقسیم کریں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی گھس پیٹھیوں کو دی جائے گی؟ آپ کو منظور ہے یہ ؟’

اپنی تقریر میں مودی سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے 2006 میں اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے کیے گئے تبصروں کا حوالہ دے رہے تھے۔ تاہم، منموہن سنگھ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہندوستان کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔

منموہن سنگھ نے کہا تھا، ‘درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو اوپر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ نئی اسکیموں کو لا کر ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اقلیتیں اور بالخصوص مسلمان کی  بھی ترقی ہوسکے، ترقی کا فائدہ مل سکے۔ ان سب کا وسائل پر پہلا حق (منموہن سنگھ نے انگریزی میں اپنی تقریر میں کلیم کا لفظ استعمال کیا تھا) ہونا چاہیے۔’

تاہم، نریندر مودی نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور ایک اور انتخابی اجلاس میں اپنے تبصرے کو  دہراتے ہوئے کہا کہ میں نے ملک کے سامنے صرف سچائی رکھی ہے۔

مسلم مخالف بیان بازی کرتے رہے ہیں نریندر مودی

وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے بھی نریندر مودی مسلم مخالف بیان دیتے رہے ہیں۔ مودی کا 2002 سے اسلامو فوبک زبان استعمال کرنے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔

گجرات فسادات (2002) کے بعد اسمبلی انتخابات کی  مہم کے دوران مودی نے مسلمانوں کے لیے ریلیف کیمپوں کو ‘بچے پیدا کرنے کا کارخانہ’ بتایا تھا۔ وہ مسلمانوں کو کمتر دکھانے کے لیے ‘ایک سے زیادہ شادی کرنے والا’ بھی بتا چکے ہیں۔ گجراتی میں انہوں نے کہا تھا- ‘امے پنچ، امارا پنچی (ہم 5 اور ہمارے 25)۔

وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے بی جے پی جنرل سکریٹری (ستمبر 2001) کی حیثیت سےمودی نے ایک ٹی وی مباحثے میں اسلام اور مسلم رہنماؤں کی تنقید کی تھی۔

اب اپنے بیان سے پیچھے کیوں ہٹ رہے ہیں مودی؟

مودی کے کھلے عام فرقہ وارانہ تبصروں نے ہندوستان کی ‘وشو گرو ‘ کی امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہندوستانی میڈیا میں تو ان کی تقریر کوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہی گیا ہے لیکن مودی کو زیادہ فکر عالمی میڈیا کی ہے۔

نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی مودی کی زبان اس  وشو گرو کی امیج کے خلاف ہے جسے انہوں نے عالمی سطح پر پیش کیا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بیان سے دستبردار ہونے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے تبصرے کا منفی رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ تقریر نے کچھ ووٹروں کو بی جے پی کے خلاف کر دیا ہے۔ تاہم، اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ابھی تک خاطر خواہ  شواہد نہیں ہیں۔

مودی کے خلاف کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن پر دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں، سول سوسائٹی کے لوگ اور عام لوگ کی جانب سےہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ان کی ہیٹ اسپیچ پر کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی بھی دائر کی ہے ۔

اب شاید قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے مودی اپنے مسلم مخالف بیانات سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ تاہم، یہ ظاہر کرنے کے لیے خاطر خواہ شواہد موجود ہیں کہ انھوں نے واقعی مسلمانوں کا نام لیا تھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )