خبریں

بجٹ 2023: 7 لاکھ روپے کی سالانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں

مودی حکومت کی دوسری مدت کار  کا آخری مکمل بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے نئے ٹیکس نظام کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ بھی  کہا کہ اب سے انکم ٹیکس سلیب کی تعداد چھ سے کم کر کے پانچ کر دی گئی ہے۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مالی سال 2023-24 کے لیےآخری بار اس حکومت کا مکمل بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اعلان کیا کہ اب سے ایک نیا ٹیکس نظام لاگو کیا جائے گا، جس میں انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد بڑھاکر 7 لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔

موجودہ نظام میں شہری پانچ لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی پر کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔

سیتا رمن پانچویں بار بجٹ پیش کر رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ہی انکم ٹیکس سلیب کی تعداد چھ سے کم کر کے پانچ کر دی گئی ہے، جس میں 3 سے 6 لاکھ روپے پر 5 فیصد، 6 سے 9 لاکھ روپے پر 10 فیصد، 9 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے پر15 فیصد  اور 12 لاکھ روپےسے 15 لاکھ روپے پر 20 فیصد کی زیادہ کی آمدنی پر 30 فیصدٹیکس دینا ہوگا۔

وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ اب انکم ٹیکس جمع کرانے کے عمل کو بھی آسان بنایا جائے گا، جس کے لیے نیکسٹ جنریشن ٹیکس فارم جاری کیا جائے گا۔

سیتارمن نے کہا کہ نیا ٹیکس نظام ڈیفالٹ ہوگا۔ لیکن شہری اگر چاہیں تو پرانا نظام استعمال کر سکتے ہیں۔ ‘ڈیفالٹ’ کا مطلب ہے کہ اگر آپ انکم ٹیکس رٹرن فائل کرتے وقت آپشن کا انتخاب نہیں کرتے ہیں، تو آپ خود بخود انکم ٹیکس کے نئے نظام میں چلے جائیں گے۔

‘ڈیفالٹ’ نظام کے بارے میں پوچھے جانے پر انکم ٹیکس کے ماہر ستیندر جین نے کہا، ‘اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے انکم ٹیکس رٹرن میں اپنا آپشن نہیں منتخب کیا ہے، تو آپ خود بخود نئے ٹیکس نظام میں چلے جائیں گے۔ درحقیقت حکومت نئے ٹیکس نظام کو فروغ دے رہی ہے۔ لیکن یہ صرف ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو کچھ نہیں بچاتے۔

وزیر نے کہا کہ بجٹ میں زیادہ آمدنی والے ٹیکس دہندگان کو بھی ریلیف دیا گیا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ سرچارج کی شرح 37 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی گئی ہے جس سے ٹیکس کی شرح تین فیصد متاثر ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی سینئر سٹیزن اکاؤنٹ اسکیم کی حد 4.5 لاکھ روپے سے بڑھا کر 9 لاکھ روپے کردی جائے گی۔ ساتھ ہی جوائنٹ اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ جمع رقم کی حد بڑھا کر 15 لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔

نئے ٹیکس نظام کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ اس کی وجہ سے مرکز کو کتنا نقصان ہوگا۔

انہوں نے کہا، ‘مڈل انکم گروپ کو ریلیف دینے کے لیے ہندوستان کو خالص ٹیکس ریونیو میں 35000 کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔ تقریباً 38000 کروڑ روپے کا ریونیوبراہ راست ٹیکسوں میں–37000 کروڑ روپے بالواسطہ ٹیکسوں میں اور 1000 کروڑ روپے معاف کیے جائیں گے، جبکہ تقریباً 3000 کروڑ روپے کا ریونیو اضافی طور پراکٹھا کیا جائے گا۔ اس طرح، کل چھوڑا گیا ریونیو تقریباً 35000 کروڑ روپے سالانہ ہے۔

قابل ذکر ہے کہ عام بجٹ سے ایک دن پہلے منگل کو جاری کیے گئے اقتصادی سروے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ ہندوستان کی معیشت یکم اپریل سے شروع ہونے والے مالی سال میں 6 فیصد سے 6.8 فیصد تک بڑھے گی، جو کہ موجودہ سال کے تخمینہ 7 فیصد سے کم ہے۔ جیسا کہ عالمی کساد بازاری سے برآمدات کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔

سیتا رمن نے بدھ کو کہا، چیلنجز کے باوجود معیشت صحیح راستے پر ہے اور جامع اصلاحات پر ہماری توجہ ان مشکل وقتوں میں اچھی کارکردگی کے مظاہرہ  میں ہماری مدد کر رہی ہے۔

سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مہنگائی نہ تو اتنی زیادہ ہے کہ نجی کھپت کو روک سکے اور نہ ہی اتنی کم ہے کہ سرمایہ کاری کی ترغیب کو کمزور کر سکے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ 2022-23 میں افراط زر مرکزی بینک کے 2فیصد سے 6فیصد کے ہدف سے زیادہ ہونے کے باوجود ہوا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)