خبریں

’ہندوستان ہمارا وطن ہے، جتنا یہ مودی اور بھاگوت کا ہے، اتناہی محمود کا ہے‘

محمود مدنی نے کہا کہ، ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت نہیں ہے بلکہ ہمیں صر ف ان نظریات سے اختلاف ہے، جو سماج کے مختلف طبقات کے درمیان برابری، نسلی عدم امتیاز اور دستور ہند کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔

محمود مدنی، فوٹو اسپیشل ارینجمنٹ

محمود مدنی، فوٹو اسپیشل ارینجمنٹ

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدرمحمود مدنی نے اپنے ایک پیغام میں کہاکہ، ہمارا ملک نفرت اور مذہبی تعصب کی زد میں ہے،نوجوانوں کو تعمیری کاموں میں لگانے کے بجائے تخریب کا آلہ کار بنایاجارہا ہے۔

واضح ہو کہ انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے 34ویں اجلاس عام میں  اپنے خطبہ صدارت  کے دوران گزشتہ 11فروری (سنیچر)کو دہلی کے رام لیلا میدان میں قوم کے نام ایک  پیغام میں یہ بیان   پڑھ کر سنایا۔

اس پیغام میں انہوں نے کہا کہ، میڈیا اشتعال پھیلانے کا سب سے بڑا حربہ بن گیا ہے۔ اسلام، اسلامی تہذیب اور کلچر کے خلاف بیہودہ اوربے بنیاد پروپیگنڈہ کی مہم پورے شباب پر ہے اور ارباب اقتدار،سپریم کورٹ کی تنبیہات کے باوجود ان  باتوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔

مزید کہا کہ، جمعیۃ علماء ہند جارحانہ فرقہ واریت کو پوری قوم اور وطن کا نقصان عظیم تصورکرتے ہوئے اسے وطن کی سالمیت کے لیے سخت خطرہ سمجھتی ہے۔

مدنی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ، آج کا دور اصول اور آدرشوں کی حفاظت کے لیے جنگ لڑنے کا دور ہے، آج ہر طرف یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ دستور ہند میں دی گئی ضمانتیں بے سود ہیں، ان حالات میں اگر سوامی وویکانند،گاندھی،نہرو اور چشتی کے آدرش کو ماننے والے لیڈران اسی طرح تماشائی بنے رہے تو نہیں کہا جاسکتا کہ ملک کا حشر کیا ہو گا۔دلتوں، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو نظرانداز کرکے ملک کی ترقی کا تصور محال ہے، یہ وطن سب کا ہے اور سب کے حقوق اور فرائض یکسا ں ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست اَفراد سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ  ، سب  کی ذمہ داری ہے کہ رد عمل اور جذباتی سیاست کے بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں۔

اس موقع پرانہوں نےاس بات پر بھی زور دیا کہ، ہندوستان ہمارا وطن ہے،جتنا یہ وطن نریندر مودی اور موہن بھاگوت کا ہے، اتناہی محمود کا ہے۔ نہ محمود ان سے ایک انچ آگے ہے اورنہ وہ محمودسے ایک انچ پیچھے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ، اس سرزمین کی خاصیت یہ ہے کہ خداکے سب سے پہلے پیغمبرآدم علیہ السلام یہیں آئے،یہ دھرتی اسلام کی جائے پیدائش اور مسلمانوں کا پہلا وطن ہے۔اس لیے یہ کہنا کہ اسلام باہر سے آیا ہوا کوئی مذہب ہے،سراسر غلط اور تاریخی اعتبار سے بے بنیاد ہے۔اسلام اسی ملک کا مذہب ہے اور سبھی مذاہب میں سب سے قدیم اور پرانا بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ، اس لیے میں واضح طورپر کہتا ہوں کہ ہندوستان، ہندی مسلمانوں کے لیے سب سے اچھی جگہ ہے۔

اس موقع پر انہوں نے انصاف کی حکمرانی کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نہ صرف ہم ظالموں، قاتلوں اور لٹیروں کو قرار واقعی سزا دینے میں ناکام ہیں، بلکہ بے قصور افراد کو جان بوجھ کر گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر ان کو قید میں رکھا جاتا ہے اور بیسیوں سال گزرنے کے بعد عدالت ان کو رہا کردیتی ہے، ایسے ہزاروں واقعات کا ریکارڈ پیش کیاجاسکتا ہے۔

عدلیہ پر اٹھنے والے سوالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ،سپریم کورٹ اور ملک کی دوسری عدالتیں ہندوستان کی سب سے بڑی جمہوریت کی محافظ اور اس کی طاقت ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے بالخصوص بابری مسجد، طلاق ثلاثہ اور رافیل وغیرہ  پر فیصلوں کے بعد یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ عدالتیں ریاست کے دباؤ میں کام کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ، اقلیتوں کے آئینی حقوق اور دستور کےبعض بنیادی اصولوں کی تشریح کی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جنھوں نے عدالتوں کے کردار پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

اسی طرح انہوں نے مقننہ کے ذریعے ناانصافی کے پہلو پر بھی بات کی اور کہا کہ،ہندوستان کی متعدد ریاستوں نے مذہب کی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ گجرات اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹوں نے ان دفعات پر یہ کہتے ہوئے روک لگادی ہے کہ یہ کسی شخص کی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی  پر مبنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ، ان قوانین کی زبان اس قدر مبہم ہے کہ وہ خود مذہبی آزادی کے لیے سنگین چیلنج ہے جو آئین ہند کا بنیادی حصہ ہے۔

 مدنی نے مزید کہا کہ،’زبردستی’، ‘دھوکہ دہی’ اور ‘لالچ’ کے ذریعہ کسی کا مذہب تبدیل کرانے کے ہم بھی مخالف ہیں لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ جو لوگ حقیقی طور پر سچے دل سے مذہب بدلتے یا بدلواتے ہیں ان  کے خلاف بھی زبردستی، دھوکہ دہی اور لالچ کا غلط الزام لگاکر انھیں گرفتار کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں قانون کا بے جا استعمال ہورہا ہے۔اس لیے ایسا قانون ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔

اپنے خطبہ صدارت میں انہوں نے انتظامیہ کے  رویے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں قانون کا غلط استعمال کرکے  اقلیتوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔

انہوں نے عوامی مقامات میں نماز پر پابندی، شہری حقوق کے مظاہرین کے خلاف پولیس کا رویہ، بلڈوزر کی کارروائی، آسام میں انخلا کے مظاہرین پر ظلم و ستم جیسے معاملوں کی متعدد مثالیں دے کر تفصیل سے اپنی بات رکھی۔

اس موقع پر انہوں نے میڈیا کے رویے کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ،میڈیا آج جمہوریت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے، میڈیا کی اکثریت جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے اورہندوستان کی ایک کمز ور اقلیت کو مذہبی، سماجی اور قومی معاملات میں بدنام کررہی ہے۔

مدنی نے ہندو تو اور متحدہ قومیت کے درمیان نظریاتی کشمکش پر بات کرتے ہوئے کہا کہ، اقلیتوں، دلتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر ہونے والے حملے اور ماب لنچنگ کے واقعات بلاشبہ نہایت افسوس ناک اور ملک کے لیے شرم ناک ہیں۔ ان کے خلاف مختلف سطح پر آواز اٹھائی جارہی ہے اور اٹھائی جانی چاہیے، لیکن ان سے بھی زیادہ جو چیز ہمیں پریشان کررہی ہے وہ ہندوتوا کی غلط تشریح اور ہماری دیرینہ متحدہ قومیت کے نظریات کے درمیان نظریاتی ٹکراؤ کی جارحانہ کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ،ہندو توا کی موجودہ دور میں جو تشریح کی جارہی ہے اور ہندوتوا کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے ، وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت نہیں ہے بلکہ ہمیں صر ف ان نظریات سے اختلاف ہے، جو سماج کے مختلف طبقات کے درمیان برابری، نسلی عدم امتیاز اور دستور ہند کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا، ہم جب بھی آرایس ایس اور اس کے نظریات کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے  اس کے ماضی کے سر سنگھ سنچالک گرو گولوالکر اور ان کی کتاب’بنچ آف تھاٹ‘ کے حوالے ہوتے ہیں،حالاں کہ آرایس ایس کے موجودہ قائد کے حالیہ ایسے بیانات جو ایک قومی نظریے، متحدہ قومیت اور بھائی چارہ سے کچھ میل کھاتے ہیں ان کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق دوستی کے لیے بڑھایا جانے والا ہاتھ آگے بڑھ کر مضبوطی سے پکڑا جانا چاہیے۔ ہم آرایس ایس اور اس کے سر سنگھ چالک شری موہن بھاگوت جی اور ان کے متبعین کوگرم جوشی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ آئیے آپسی بھید بھاؤ اور بغض و عناد کوبھول کر ایک دوسرے کو گلے لگائیں اور اپنے پیارے وطن کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ، پر امن،مثالی اور سپر پاور ملک بنائیں۔

اس اجلاس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں ا سلامو فوبیا بھی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہا ہے، یہ کوئی مذہبی عداوت نہیں بلکہ عداوت کو ذہن وفکر پر حاوی کرنے کا نام ہے، جو کبھی نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ،اس کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کی کھلے لفظوں میں مذمت کی جائے اور قانون اپنا کام کرے۔

انہوں نےاس بات پر بھی زور دیا کہ ، میڈیا کے لیے بھی ایک واچ ڈاگ ہونا چاہیے۔ حالیہ برسوں میں نفرت انگیز تقریر وں اور بیانات کو  میڈیا اور انٹرنیٹ میں نمایاں طور سے شائع کیا جارہا ہے۔

سدبھاؤنا منچ کے  استحکام پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ،نفرت کو دورکرنے  اورایک دوسرے کو قریب لانے کے لیے صرف گفت و شنید ہی کافی نہیں بلکہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے جہاں مختلف قومو ں اور برادریوں کے لوگ سماجی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھ سکیں، اسی سوچ کے تحت جمعیۃ علماء ہند نے سدبھاؤنا منچ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ، جمعیۃ علماء کے ذمہ داروں سے یہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس تحریک کو مستحکم کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں جمعیۃ سدبھاؤنا منچ کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔ہمیں امید ہے کہ جمعیۃ کے کارکنا ن موجودہ حالات میں اسے ضروری سمجھیں گے اور اس سلسلے میں ہر ممکن جد وجہد کریں گے۔

اپنے خطبہ صدارت میں مدنی نے یکساں سول کوڈ کے ایشو پر بھی بات کی، انہوں نے کہا کہ، حکومت نے اپنے بیان کے ذریعہ ایک بار پھر صاف کردیاہے کہ2024 میں الیکشن لڑنے کے ایجنڈہ کے تحت ملک میں یکساں سول کوڈ جلد نافذ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ،یکساں سول کوڈ پر اب تک کی بحثوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مسلم پرسنل لا کو ختم کردینا چاہتی ہے اور اس کی جگہ اپنے منشا کے مطابق قانون نافذ کرنا چاہتی ہے

جدید تعلیمی پالیسی اور تعلیم کے بھگوا کرن پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ابھی کچھ ماہ قبل گجرات حکومت نے اعلان کیا کہ بھگوت گیتا کو اسکول کے نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔ طلبہ کو گیتا کے ا شلوکوں کو یاد کرانے کے علاوہ ان کی مشہور تشریحات سے واقف کرایا جائے گا۔ اس فیصلے میں کسی دوسرے مذہبی صحیفے کا ذکر نہیں ہے جو نصاب میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ہم بھگوت گیتا کی تعلیم دیے جانے کے خلاف نہیں ہیں، لیکن معصوم بچوں کے ذہن پر زبردستی کسی اور مذہب کو تھوپناہرگز درست نہیں ہے اور نہ آئین اس کی اس کی اجازت دیتا ہے۔

اس موقع پر انہوں نے دینی اور عصری تعلیم کو وقت کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا اور کہا کہ،موجودہ حالات میں ضروری ہوگیا  ہے کہ جگہ جگہ مکاتب قائم کیے جائیں، جہاں ہر گھر کا بچہ زیر تعلیم ہواور اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے دینی تعلیم کا خصوصی نظم ہو۔

انہوں نےتعلیم نسواں کے حوالے سےکہا کہ ، اس میں ابھی ہم بہت پیچھے ہیں، لڑکیو ں کے لیے مخصوص ادارے نہ ہونے کے باعث یا تو ہماری لڑکیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں یا انھیں مخلوط اداروں میں جانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی اخلاقی اور دینی زندگی پر برا اثر پڑتا ہے۔اس کے تدارک کے لیے فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

یہاں مدنی نے اسلامی تعلیمات سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ، اہل وطن کے درمیان، اسلامی تعلیمات کے سلسلے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں،اس سلسلے میں فوری طور سے تین کام کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے؛

سوشل میڈیا کے ذریعہ ایسے پیغامات ویڈیو کی شکل میں تیار کرنا اور انہیں نشر کرنا جو اسلام اور مسلمانوں کے محاسن کو اجاگر کریں۔

جدید تعلیم یافتہ ذہنوں میں پرورش پارہے الحادی افکار کی اصلاح کے لیے ان کے مزاج سے ہم آہنگ مواد جمع کرنا اور موقع بموقع ورکشا پ کرنا۔

سیرت کے عنوان سے اسلامی کوئز منعقدکرنا اور اس میں سبھی مذاہب اور طبقات کے طلبہ کو شامل کرنا۔

اسی طرح انہوں نے پسماندہ مسلمانوں کے مسئلے پر بھی بات کی اور کہا کہ،ہندوستان کے مسلم سماج میں جو بگاڑ پیداہوئے، ان میں اہم ترین ذات پات کا نظام ہے، گوکہ اسلام کی واضح تعلیمات مساوات اور نسلی عدم تفریق پر مبنی ہیں، لیکن جن لوگوں نے مذہب اسلام کو اختیار کیا، وہ اپنے آپ کو ذات پات کے پرانے نظام اوررسم و رواج سے پوری طرح آزاد نہ کرسکے۔

انہوں مزید کہا کہ ،اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ برادران وطن کی طرح نسلی تفریق کا شکا رہے اور اس کی پسماندگی کو دورکرنے کے لیے ریزرویشن جیسے اقدام کی سخت ضرورت ہے،لیکن پسماندگی اور اشراف وارذال کے سوال پر مسلمانوں کے درمیان تفریق ہرگز درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ، البتہ مسلمانوں میں دلت اور پسماندہ برادریوں کی زمینی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ہر ایک طبقہ مسلم سماج میں برابری کی حیثیت رکھتا ہے اور ماضی میں جو زیادتیاں ذات پات کے نام پر ہوئی ہیں، ان پر ہمیں شرمندگی ہے اور اسے دور کرنے کے لیے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں معاشی، سماجی،تعلیمی ہر زاویے سے مساوات قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش بروئے کار لائیں گے اور پسماندہ مسلمانوں کو خصوصی مراعات، ریزرویشن اور سرکاری اسکیمیں دلانے کے لیے ہر ممکن جد وجہد کریں گے۔

مدنی نے مسلمانوں کی اقتصادی صور ت حال پر بھی بات کی اور کہا کہ،مختلف اقتصادی سروے اور کمیشنوں کی رپورٹ سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ مسلمان تعلیمی و ا قتصادی طور پر سب سے پسماندہ، کمزور اور دلتوں سے بھی ایک درجہ نیچے ہیں۔ہماری بیس فی صد آبادی کی اس درجہ ابتری کے باوجود ملک معاشی اور اقتصادی طور پر کیسے ترقی کرسکتا ہے اور ہم بین الاقوامی سطح پر کیسے طاقت ور بن سکتے ہیں، ہماری سرکار اور اقتصادی پالیسی سازوں کو اس پر غورکرنے کی فوری ضرورت ہے، یہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ ہے۔

اس موقع پر  انہوں نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی،ماحولیاتی تحفظ، اصلاح معاشرہ، اوقاف کے تحفظ کا مسئلہ،عالم اسلام کی صورت حال،افغانستان،تنظیمی استحکام جیسے موضوعات پربھی  تفصیل سے اظہار خیال کیا۔

خطبہ صدارت کا مکمل متن یہاں ملاحظہ کریں؛

Mahmood Madani Speech by The Wire