خبریں

ہریانہ: کارمیں دو لوگوں کی جلی ہوئی لاش ملی، اہل خانہ نے بجرنگ دل پر قتل کا الزام لگایا

ہریانہ کے بھیوانی ضلع کا معاملہ۔اہل خانہ  نے  گائے کے نام پر تشدد کا الزام لگایا ہے۔ پولیس کے مطابق، جمعرات کو ایک کارکے اندر سے دو جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ اس سے ایک دن پہلے، راجستھان میں ایک خاندان نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ دو نوجوان– جنید اور دوست ناصر – لاپتہ ہو گئے تھے اور انہیں بجرنگ دل کے لوگوں نے اغوا کر لیا تھا۔

ہریانہ کے بھیوانی ضلع میں ایک جلی ہوئی بولیرو کار، جس کے اندر سے دو لوگوں کی جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ (فوٹوبہ شکریہ: اے این آئی)

ہریانہ کے بھیوانی ضلع میں ایک جلی ہوئی بولیرو کار، جس کے اندر سے دو لوگوں کی جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ (فوٹوبہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی : قومی راجدھانی دہلی سے صرف  100 کلومیٹر کے فاصلے پر گائے کے نام پر تشدد کا ایک مبینہ معاملہ سامنے آیا ہے۔ دو نوجوانوں پر مبینہ طور پر حملہ کر کے ہجوم نے ان کا اغوا کر لیا تھا۔ بعد میں مبینہ طور پر ان کو ان  کی گاڑی کے ساتھ آگ کے حوالے کر دیا گیا۔

ہریانہ کے بھیوانی میں جمعرات (16 فروری) کو ایک گاڑی کے اندر سے دو جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔اس سے  ایک دن پہلے بدھ (15 فروری) کو راجستھان میں ایک خاندان کی طرف سے ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ دو نوجوان جنید اور دوست ناصر – لاپتہ ہو گئے تھے  اور بجرنگ دل کے لوگوں  نے  ان کا اغوا کر لیاتھا۔

بتایا جاتا ہے کہ مقتول پر گائے کی اسمگلنگ کے الزام لگائے جانے کے بعد اس  واقعے کوانجام دیا گیا۔

لاشوں کی تلاش کے چند گھنٹے بعد ایف آئی آر درج کرانے والے جنید کےچچا زاد  بھائی اسماعیل نے کہا کہ لاشیں جنید اور ناصر کی ہیں اور انہیں قتل کیا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے کہا کہ وہ ابھی تک لاشوں کی شناخت نہیں کرسکے ہیں، لیکن انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جلی ہوئی کار وہی بولیرو ہے، جسے دونوں نوجوان راجستھان کے بھرت پور سے لاپتہ ہونے سے پہلے چلا رہے تھے۔ راجستھان پولیس کے مطابق جنید کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کے پانچ معاملے درج ہیں۔

ایف آئی آر میں نامزد بجرنگ دل کے چھ ارکان میں سے ایک موہت یادو عرف مونو مانیسر نے ایک سوشل میڈیا ویڈیو میں الزام کی تردید کی ہے اور معاملے میں ملوث ‘ملزمین کے خلاف سخت کارروائی’ کا مطالبہ کیا ہے۔

نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے بھرت پور کے آئی جی گورو سریواستو نے کہا، ‘کل (بدھ) کی رات، دو لوگوں کے اہل خانہ نے گوپال گڑھ پولیس اسٹیشن ( بھرت پور میں) کو اطلاع دی کہ انہیں اغوا کر لیا گیا ہے اور ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔’

انہوں  نے بتایا، ‘ہم نے ان کے فون ٹریس کیے، جو بند تھے۔ انہیں آس پاس کے علاقوں میں دیکھا  گیا اور کچھ مشتبہ افراد کے نام سامنے آئے۔ کہا گیا کہ وہ بولیرو کار میں تھے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور ان کا اغوا کر لیا گیا۔ جمعرات کی صبح بھیوانی ضلع کے لوہارو علاقے میں اسی انجن اور چیسس نمبر والی بولیرو کار ملی۔

سریواستو نے کہا، ‘کار میں سے دو نامعلوم افراد کی جلی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ ہماری ٹیم اہل خانہ کے ساتھ جائے وقوعہ پر گئی ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کیا یہ دونوں افراد وہی ہیں جنہیں اغوا کیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے کے تجزیے کے بعد ان  کی شناخت کی تصدیق کی جائے گی۔ اہل خانہ  نے کچھ مشتبہ افراد کے نام لیے ہیں۔ ہم نے انہیں پکڑنے کے لیے خصوصی ٹیمیں بھیجی ہیں۔ تمام مشتبہ افراد کا تعلق ہریانہ سے ہے۔

آئی جی نے کہا کہ مشتبہ قتل کے پیچھے کی منشا واضح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ناصر کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ جنید کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کے پانچ معاملے درج ہیں۔

رابطہ کرنے پر بھیوانی ضلع کے لوہارو کے ڈی ایس پی جگت سنگھ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، ہمیں جمعرات کی صبح  8 بجے اس واقعے کے بارے میں معلوم ہوا۔ بولیرو کار کے چیسس نمبر کی مدد سے ہم نے گاڑی کے مالک سے رابطہ کیا۔ ہم نے ابتدائی تفتیش کی اور موقع پر پہنچےگوپال گڑھ (راجستھان) کے ایس ایچ او کو مطلع کیا۔

اہلکار نے بتایا کہ لوہارو کے سرکاری اسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں  لاشیں متعلقہ خاندانوں کے حوالے کر دی گئیں۔ ہم نے سی آر پی سی کی دفعہ 174 کے تحت تفتیش شروع کر دی ہے۔ مزید تفتیش راجستھان پولیس کرے گی۔

بھرت پور میں اسماعیل کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، آج (بدھ) صبح تقریباً 5 بجے شکایت کنندہ کے چچا زاد بھائی جنید اور ناصر اپنی بولیرو کار میں کسی ذاتی کام کے لیے گئے ہوئے تھے۔ شکایت کنندہ صبح 9 بجے کے قریب چائے پی رہا تھا، جب چائے پینے والے ایک اجنبی نے بتایا کہ صبح 6 بجے کے قریب گوپال گڑھ جنگل کی طرف جارہے دو لوگوں کو 8-10 لوگوں نے بری طرح پیٹا (اور ان کی حالت نازک تھی)۔ انہیں حملہ آوروں نے اغوا کر لیا تھا۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ملزمین کے بارے میں پوچھنے پر موقع پر موجود لوگوں نے کہا کہ وہ بجرنگ دل سے ہیں۔ ان میں ملتان کے رہنے والےانل، مرودا کے رہنے والے شری کانت، فیروز پور جھرکہ کے رنکو سینی، ہوڈل کے رہنے والے لوکیش سنگلا اور مانیسر کے رہنے والے مونو شامل ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے بھرت پور کے آئی جی گورو سریواستو نے کہا، پہلی  نظرمیں ایسا لگتا ہے کہ متاثرین میں سے ایک پر گائے کی اسمگلنگ کے معاملے درج تھے اور اس شبہ کی وجہ سے مخصوص تنظیم کے کچھ لوگوں نے، جیسا کہ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے، انہیں اغوا کیا گی ۔ پرتشدد حملہ  کیا اور ممکنہ طور پر بھیوانی ضلع میں لاشوں کو ٹھکانے لگا دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں پانچ افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ متاثرہ کی شناخت کے لیے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جائے گا۔ تفصیلی تفتیش جاری ہے۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے اسماعیل نے الزام لگایا کہ دو لوگوں کو اغوا کر کے زندہ جلا دیا گیا۔ ہم انصاف چاہتے ہیں۔

جمعہ کو راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘ بھرت پور کے ہریانہ کے گھاٹمیکا کےرہنے والے دو لوگوں کا قتل قابل مذمت ہے۔ راجستھان اور ہریانہ پولیس تال میل بناکر کارروائی کر رہی ہے۔ ایک ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور باقی ملزمین کی تلاش جاری ہے۔ راجستھان پولیس کو سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

اس دوران سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ایک ویڈیو کلپ میں ایف آئی آر میں نامزد موہت یادو عرف مونو مانیسر نے کہا، ‘ہم پر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ جہاں یہ واقعہ ہوا وہاں بجرنگ دل کی کوئی ٹیم موجود نہیں تھی۔ بجرنگ دل کا کوئی رکن اس میں ملوث نہیں ہے۔ یہ واقعہ جیسا کہ ہم نے سوشل میڈیا پر دیکھاہے، افسوس ناک ہے۔ مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور کسی کو بھی بخشانہیں جانا چاہیے۔

گزشتہ 28 جنوری کو موہت اور دیگر لوگوں کو  ہریانہ کے نوح کے تورو میں ایک اور پولیس شکایت میں نامزدکیا گیا تھا۔ 22 سالہ نوجوان کو ملزم نے مویشی اسمگلنگ کے شبہ میں پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ بعد میں ہسپتال میں اس کی موت ہوگئی تھی۔

پولیس نے بتایا تھا کہ نوجوان کی موت حادثے میں چوٹ  کی وجہ سے ہوئی،  جب وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کار میں سفر کر رہا تھا اور ایک ٹیمپو سے ٹکرا گیا تھا۔

مانیسر کا رہنے والا 28 سالہ موہت اس علاقے میں مزدوروں کے رہنے کے لیے کمرے بناتا ہے۔ انہوں نے خود کو گئو رکشک  اور سماجی کارکن بتایا ہے۔ 2011 میں وہ بجرنگ دل میں بطور ضلع کوآرڈینیٹر شامل ہوا تھا۔

انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں مونو مانیسر نے کہا تھا، ‘میں گائے کےآس پاس پلا بڑھا ہوں۔ یہ میرے لیے عقیدے کا معاملہ ہے اور مقدس گائے کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔ گایوں کے خلاف مظالم دیکھنے کے بعد میں نے انہیں بچانے اور میوات اور پڑوسی اضلاع میں مویشیوں کی غیر قانونی اسمگلنگ کو روکنے کی قسم کھائی تھی۔

آلٹ نیوز کی شنجینی مجمدار کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ مونو مانیسر اور ان کی ٹیم نے ماضی میں کئی پرتشدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی ہیں، جن پر قانون نافذ کرنے والے حکام کا کوئی دھیان نہیں گیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ مانیسر کے سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں فالوورز ہیں، جہاں وہ اکثر میٹا اور یوٹیوب کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مواد اپ لوڈ کرتے ہیں۔

ان کی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی کئی تصویروں  میں ان کی ٹیم کو زخمی نوجوانوں کے بال پکڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جن کے بارے میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ گائے کے اسمگلر ہیں۔