جب راہل گاندھی نے یہ یاترا شروع کی تو ان کے ناقدین نے اسے ایک اور غیر سنجیدہ پیش قدمی قرار دینے کی کوشش کی۔ اور جب اس کو عوامی حمایت حاصل ہونے لگی تو کہا جانے لگا کہ ابھی 2024 کے انتخابات دور ہیں، تب تک اس کا اثر زائل ہو جائےگا۔
طارق عزیز اور لامبا دونوں کے جانے سے کشمیر پرہندوستان اور پاکستان کی سفارت کاری کے بہت سے پوشیدہ پہلو بھی راز میں ہی رہیں گے۔ مگر ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ انتقال سے قبل لامبا نے اپنی کتاب کا مسودہ مکمل کر لیا تھا۔ اب انتظار ہے کہ ان کی فیملی کب اس کو شائع کراتی ہے تاکہ بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھ جائےاوردونوں ممالک کی شاید کچھ رہنمائی بھی ہوجائے۔
بلقیس بانو کیس کے 11 مجرمین کو رہا کیا گیا تو نودیپ نے مجھے فون کیا، وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنا درد یاد کر رہی تھی۔اس کو لگا جیسے وہ ایک بار پھر ملک کے قانون کے ہاتھوں شرمسار ہو گئی۔ مجھے لگا کہ یہ نہ صرف نودیپ بلکہ عصمت دری کا شکار ہونے والی ہر عورت کی اخلاقی شکست ہے۔
آزادی کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی کی 77 رکنی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے صوتی آلودگی پھیلانا کسی ایک مذہب کا خاصہ نہیں ہے۔ مگر کیا کیا جائے یہ معاملہ بھی ہندوستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہو گیا ہے۔
ایک شاندار ماضی ہوتے ہوئے بھی اب اردو کے صرف مٹھی بھر قارئین رہ گئے ہیں اور اب اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
ہندوستان میں تاریخ کو از سر نو لکھا جا رہا ہے۔ تاریخ میں بس ان ہی لیڈروں کی پذیرائی کی جارہی ہے، جن کو ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی توثیق حاصل ہے۔
کیا معلوم کہ انتخابات کے بعدلکھنؤ برقرار رہتا ہے یانہیں؟ اس کی تہذیب کوفرقہ پرستوں سے شدیدخطرہ لاحق ہے۔اس شہر میں جہاں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہتے تھے، اب اپنے مخصوص علاقوں میں منتقل ہورہے ہیں۔ دیواریں کھنچ رہی ہیں۔ ہندو اب ہندو علاقے میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ جن مسلمانوں کے مکان ہندو اکثریتی علاقوں میں ہیں، وہ ان کو بیچ کر مسلم محلوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
پچھلے کئی برسوں سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر خطوں میں پریس اور شہری حقوق کے ادارےمسلسل نگرانی میں ہیں۔ کشمیر کے صحافیوں پر تو کچھ زیادہ ہی مہربانی ہے۔ ان کے گھروں پر چھاپے، پولیس کی طرف سے طلبی اور پوچھ گچھ، صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ کو ضبط کرنا ان دنوں معمول بن گیا ہے۔
کچھ عرصہ سے ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو یہ خیال ستا رہا ہے دلیپ کمار عرف یوسف خان سے شروع ہو کر شاہ رخ خان تک اداکاروں کی ایک بڑی کھیپ، سوسائٹی کے لیے رول ماڈل کا کام کرتے ہیں۔ اسی لیے پچھلے کئی برسوں سے بالی ووڈ ان کے نشانے پر ہے۔
سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زبانوں کا تنوع جہاں ہندوستان کے لیے ایک قابل فخر بات ہے، وہاں یہ بھی سچ ہے کہ غلط ترجموں یا اس کی غلط تشریح کے بسا اقات مسائل کھڑے کیے ہیں اور کسی وقت توا س کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو صحافت کی دنیا ہی بدل گئی۔حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ حکومت سے متعلق معمولی اسٹوری کا بھی ایڈیٹر حضرات ایک طرح کا آپریشن کر دیتے ہیں۔ ان کو خدشہ رہتا ہے کہ اگر یہ اسٹوری حکومت کو پریشان کرے گی تو ادارے کے اشتہارات بند ہوں گےیا مالکان یا ادارے کی کمپنی کو کسی نہ کسی کیس میں گھسیٹا جائے گا۔
گو کہ افغانستان میں طالبان کی فوجی فتح کے بعد اقلیتوں کے ساتھ ابھی تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، مگر ان کے بیس سال قبل کے رویے اور نظام حکومت نے اقلیت کیا اکثریت سبھی کو تذبذب میں مبتلا کر کے ر کھ دیا ہے۔ اسی لیے جس بھی افغانی کے پاس وسائل ہیں، وہ جہاں بھی ممکن ہو سکتا ہے، ہجرت کر کے وہاں جا رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ برسوں تک مسلمانوں اور پاکستان کے متعلق میرے خیالات کچھ اچھے نہیں تھے۔ کئی مسلمانوں کے ساتھ علیک سلیک تو تھی، مگر دادی کی کہانیاں یاد کرکے میں ان سے مزید تعلقات استوار کرنے سے کتراتی تھی۔سال 2015 میں کچھ ایسا ہواکہ میری کاپا پلٹ ہوگئی۔
حیرت کی بات ہے کہ ان کی پارٹی کے ایک اہم لیڈر جب اس مجوزہ قانون کا اعلان کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کیا جائےگا اس لیڈر کے اپنے آٹھ بچے ہیں ۔ خود اترپردیش اسمبلی میں اس وقت بی جے پی کے 152اراکین کے تین سے زیادہ بچے ہیں۔
اکالی دل پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ رام کے نام پر فنڈ اکٹھا کرنا ایک بہت بڑا فریب ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان عبادت گاہوں کے زیر تصرف سونے، دولت کے انبار اور وسیع و عریض اراضی کو بھگوان کے عقیدت مندوں یا اللہ کے بندو ں کی فلاح و بہبود اور ان کی غربت دور کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا۔مہنتوں و پجاریوں کوبھی احساس ہونا چاہیے کہ اس دولت پر کنڈلی مار کربیٹھنے کے بجائے اس کو خرچ کرنے سے ہی بھگوان زیادہ خوش ہوجاتے، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے بندو ں کو بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
دہلی کی ثقافت و تہذیب ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہوکر ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح ملیا میٹ ہو رہی ہے، جو شاید نادر شاہ یاتیمور لنگ کے حملوں کے وقت بھی نہ ہوئی ہو۔
صرف اپریل کے مہینے میں ملک بھر میں 98 صحافی اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران کورونا وائرس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔ مئی میں ابھی تک یہ تعداد 54تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی ہر روز اوسطاً تین صحافیوں کی موت ہو رہی ہے۔ کسی جنگ کو کور کرتے ہوئے بھی کبھی اتنی بڑی تعداد میں صحافی مار ے نہیں گئے ہیں۔
کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد گھر سے16 کیلومیٹر صفدرجنگ اسپتال میں ایک ڈاکٹر میری ساس کا معائنہ کرنے پر راضی ہوگیا۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ شاید میری ساس کو ہماری بھاگ دوڑ، کسمپرسی اور لاچاری دیکھی نہیں گئی۔ کب اس نے گاڑی میں ہی دم توڑ دیا تھا، ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا۔ ڈاکٹر نے بس نبض دیکھ کر بتا یا کہ ان کو اب کسی علاج اور آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے۔
ہندوستان اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے، نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔
بتایا جاتا ہے کہ 1947میں تقسیم کے وقت جب پنجاب اور اس کے 24راجواڑوں میں کشت و خون کا بازار گرم تھا تو دہلی سے 300 کیلومیٹر دور مسلم اکثریتی مالیر کوٹلہ ایک جزیرہ امن کی طرح قائم رہا۔ یہاں کسی کا خون بہا نہ کسی کو ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پورے مغربی پنجاب میں یہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد 65فیصدہے۔
بی جے پی خود کو خواتین کی فلاح و بہبود سے متعلق پارٹی کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔وزیراعظم اکثر مسلم خواتین کےطلاق کےقانون کو پاس کرنے کا حوالہ دےکر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے مسلم خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد ملی ہے۔مگر جس طرح اس قانون میں شوہر کو جیل میں بند کرنے کی بات کہی گئی ہے، مسلمان خواتین کے ایک بڑے طبقے کا ماننا ہے کہ یہ ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔