فکر و نظر

کیا رام کو ایک بار پھر بن باس پر بھیجا جا رہا ہے؟

رام تو دل میں رہتے تھے۔ مگر لگتا ہے ان کو دل سے نکال کر مندر میں بھیج کر ایک بار پھر بن باس پر بھیجا جا رہا ہے۔ رامائن کے مطابق تو وہ بارہ سال بعد ایودھیا واپس آگئے تھے، مگر اب دل میں کب واپس آئیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔

رام مندر کا مجوزہ ڈیزائن۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

رام مندر کا مجوزہ ڈیزائن۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)

ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی کا موسم بھی عجیب سا ہوتا ہے۔ انتہائی گرمی اور پھر شدید سردی بھی۔چند روز قبل میں لحاف اوڑھے سردی کو بھگا رہی تھی۔ اطمینان تھا کہ آج بیٹے کی اسکول کی چھٹی ہے، اس کو تیار کرنے کےلیے صبح جلدی نہیں اٹھنا، تو کیوں صبح سویرے ہی لحاف کو چھوڑا جائے۔ ابھی دوبارہ خواب دیکھنے کی تیاری ہی کر رہی تھی کہ دورازے پر پہلے گھنٹی بجنے لگی، اور پھر لگاتار دستک۔یہ کون اتنے سویرے نازل ہوا۔ میں آنکھیں ملتے ہوئے اور صلواتیں سناتے ہوئے دروازے پر پہنچ گئی۔

یہ کیا گیروے کپڑا پہنے ایک ہجوم سا دروازہ کے باہر کھڑا تھا اور مجھے دیکھتے ہی جئے شری رام کے نعرے بلند کرنے لگا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس ہجوم میں سے ایک شخص ، جو کسی مندر کا پجاری لگ رہا تھا، جلد ہی میرے ماتھے پر ٹیکہ لگایا اور دوسرے شخص نے ایک کارڈ تھما کر کہا کہ ایودھیا میں رام مندر اب تیار ہو رہا ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب 22 جنوری کو ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ مجھے اس تقریب میں آنے کی دعوت دینے آئے ہیں۔ اگر ایودھیا جانے میں مشکل ہے، تو سوسائٹی میں بھی اسی دن تقریب منعقد کی گئی ہے اور اس میں بھگوان رام کو ان کا گھر ملنے کی خوشی میں جشن ہوگا۔ کیونکہ پچھلے چار سوسالوں سے بھگوان رام بے گھر تھے، اس جگہ پر بابری مسجد کھڑی تھی، جس کو 1992 میں مسمار تو کیا گیا تھا، مگر2019 میں سپریم کورٹ کی طرف سے مسجد کی زمین رام جنم بھومی ٹرسٹ کو دینے کے بعد ہی مندرکی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اور اب عام انتخابات کے چند ماہ قبل تیار ہو گیا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی خود اس کا افتتاح کریں گے۔ جو آدمی مجھے کارڈ دے رہا تھا، بے تکان بولے جا رہا تھا۔

اب میرے بولنے کی باری آئی، تومیں نے اس جم غفیر سے کہا کہ میرے گھر میں تو پہلے سے ہی بھگوان رام موجود ہیں۔ تو وہ کیسے بے گھر تھے۔ مگر وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ بھگوان رام کا گھر ایودھیا میں تھا، جو ان کو اب واپس مل گیا ہے۔

میں نے کہا، جو بھگوان میرے گھر پر برسوں سے براجمان ہیں، پھر وہ کون ہیں؟ اس کا کوئی جواب ان سے بن نہ پایا۔

بالآخر مجھے انہیں بتانا پڑا کہ میں سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہوں اور میرے لیے رام، پیغمبر محمد، یا گرو نانک سب ایک جیسے ہیں۔ میں سب کی عزت کرتی ہوں۔ اصل کام تو ان کی تعلیمات کو اپنانا ہے اور ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنا ہے۔

اب ان میں سے ایک آواز آئی،’’میڈم سکھ بھی تو ہندو ہوتے ہیں۔‘‘

اب چھٹی کے دن صبح سویرے ان سے کیا بحث کرتی، میں نے کارڈ اور ان کا لایا ہوا پرساد رکھ لیا۔

اگر یہ سب کافی نہیں تھا، ہماری سوسایٹی کا وہاٹس ایپ گروپ پیغامات سے بھر گیا ہے جس میں لوگوں سے بھگوان رام کو اس کا گھر ملنےکاجشن منانے کے لیے تیل اوردیے  عطیہ کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ اوریہ عطیہ دینے کے بعد آپ کو اپنی تصویر بھی پوسٹ کرنی ہے۔ ورنہ سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

مذہب اور عقیدے کے معاملات ہمیشہ سے ایک فرد کا ذاتی معاملہ رہا ہے۔ لیکن  ان دنوں جس طرح سے لوگوں کے عقیدے کے معاملات کو سیاست اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی حکمت عملی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، وہ خطرناک مثال پیش کر رہی ہے۔

یوں تو وشو ہندو پریشد کے زیر کنٹرول رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ مندر کے افتتاح کے تمام انتظامات کر رہا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسے ہر سطح پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت حاصل ہے۔ یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد کے رضاکار  ہیں جو ’’میرے گھر رام آئے ہیں‘‘ کی گھر گھر مہم چلا رہے ہیں۔

بھگوان رام کے سامنے سجدہ کرنا میرا ذاتی انتخاب ہے۔ ہندوستان میں، ہندو مذہب میں دیوتاؤں کی کمی نہیں ہے۔ قدرت کی قوتوں کی پوجا کرنے سے لے کر وشنو کے کئی اوتاروں تک، ہندوستان میں، ہر قبیلے اور علاقے کا اپنا خدا ہے۔ ہر ایک کی مختلف رسومات بھی  ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس ملک میں 33 کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہوتی ہے۔

وہ جگہ جہاں آج نیا تعمیر شدہ رام مندر کھڑا ہے، دسمبر 1992 تک بابری مسجدی  ہوا کرتا تھی۔

 اسے بابر کے دربار میں ایک کمانڈر میر باقی نے تعمیر کروایا  تھا۔ یہ جگہ سو سال سے زیادہ عرصے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعہ کی وجہ بنی ہوئی تھی۔ یہ معاملہ 1885 میں عدالت میں پہلی بار لایا گیا تھا اور پھر کئی موڑ سے گزرتے ہوئے 2019 میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مندر کے حق میں فیصلہ سنایا۔

اس تنازعہ نے حکمران بی جے پی کو اپنی سیاسی قسمت بنانے کا وسیلہ دیا ہے۔ مرلی منوہر جوشی اور لال کرشن اڈوانی سمیت بی جے پی کے اس وقت کے مضبوط رہنما، نےمندر  کو پارٹی کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے استعمال کیا۔ آج بی جے پی کو جو اکثریتی حکومت اور طاقت حاصل ہے وہ انہی  کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اڈوانی اور جوشی دونوں زندہ ہیں اوروہ مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں۔ لیکن ان دونوں کو گھر میں بیٹھنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

ایک صدی قبل علامہ اقبال نے رام کو امام ہند کہا تھا۔ اقبال کے لیے رام کے وجود کی اہمیت محض ہندوؤں تک محدود نہیں تھی۔

تب شاید وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ہندوستان کے رام ہندوؤں تک محدود ہوکر رہ   جائیں گے اور دائیں بازو کی بی جے پی کے لیے انتخابات جیتنے کا وسیلہ بن جائیں گے۔ رام تو دل میں رہتے تھے۔ مگر لگتا ہے ان کو دل سے نکال کر مندر میں بھیج کر ایک بار پھر بن باس پر بھیجا جا رہا ہے۔ رامائن کے مطابق تو وہ بارہ سال بعد ایودھیا واپس آگئے تھے، مگر اب دل میں کب واپس آئیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)