الیکشن نامہ

پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور ہندوستان

ہندوستان کا صحافی اس وقت ایودھیا میں بھگوان رام کے ساتھ مصروف ہے۔ اس کو اب حکمران جماعت کے ایجنڈے کو چلانے اور اقتدار میں حکومت کے بجائے اپوزیشن سے سوال کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے، تو کیسے پڑوسی کا حال دریافت کرنے پہنچ جائے گا۔

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: Screengrab via UNDP Pakistan Election Jingle/YouTube/UNDP in Pakistan

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: Screengrab via UNDP Pakistan Election Jingle/YouTube/UNDP in Pakistan

 آٹھ فروری کو پڑوسی ملک پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ پتہ نہیں یہ انتخابات کیوں پھیکے سے لگ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے انتخابات پر گہما گہمی نئی دہلی میں خاص طور پر صحافتی برادری میں ایسی ہوتی تھی، جیسے ہندوستان میں ہی انتخابات ہو رہے ہوں۔ پریس کلب یا فارن کارسپانڈنٹس کلب میں مذاکرے ہوتے تھے۔پاکستانی سیاست کے ماہرین اپنی آرا ء سے سامعین کو محظوظ کرتے تھے۔

دو دہائی قبل مجھے ایک الیکشن یاد ہے، جب ہندوستان کے چھوٹے سے چھوٹے علاقائی اخباروں کے رپورٹر پاکستان انتخابات کور کرنے پہنچے تھے۔ واپسی پر وہ پاکستان کی یادیں اور رابطہ بھی ساتھ لاتے تھے، جن سے پھر عمر بھر رشتے نبھاتے تھے۔

ہر انتخاب سے قبل پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر صحافی ویزا کے حصول کے لیے لائن لگاتے تھے۔ ہائی کمیشن کے پریس آفیسر کی ویلیو اس دوران بہت بڑھ جاتی تھی۔ ہر کوئی اس کی خاطر و مدارت کرتا نظر آتا تھا۔

مگر 2019کے بعد جس طرح ایک دم عوامی رابطے بھی منقطع ہوگئے، صحافیوں کے رابطے بھی لگتا ہے ختم ہوگئے ہیں۔ کسی بھی سطح پر ہندوستان میں پاکستان کے الیکشن کے چرچے نہیں ہیں، جو ایک اچھا شگن نہیں ہے۔

پچھلے ہفتے میں پریس کلب میں پاکستانی امور کے ماہر ایک صحافی سے ملاقات ہوئی۔میں نے ان سے پوچھا،”سر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو  تو اسلام آباد میں ہونا چاہیے تھا؟ لگتا ہے کہ آپ کے دوست میاں نواز شریف واپس اقتدار میں آرہے ہیں۔“

انہوں نے مسکراتے ہوئے بات کو ٹالتے ہوے کہا،”وہ دن گئے جب ہندوستانی صحافی انتخابات کو کور کرنے کے لیے پاکستان جایا کرتے تھے۔“

اس معمر صحافی کا کہنا تھا کہ ہندوستان کا صحافی اس وقت ایودھیا میں بھگوان رام کے ساتھ مصروف ہے۔ اس کو اب حکمران جماعت کے ایجنڈے کو چلانے اور اقتدار میں حکومت کے بجائے اپوزیشن سے سوال کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے، تو کیسے پڑوسی کا حال دریافت کرنے پہنچ جائے گا۔

پاکستان ان کی ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ہاں ان کی ٹی آر پی  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنماؤں کی ان تقریروں سے بڑھتی ہے، جن میں وہ ہندوستان میں رونما ہونے والی ہر برائی کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ لیکن ماضی میں ایسا نہیں تھا۔

چاہے  بے نظیر بھٹو کا اقتدار میں آنا ہو یا نواز شریف کا تختہ پلٹنا یا  پرویز مشرف کا صدر کا عہدہ سنبھالنا ہو، ہندوستانی سامعین میں ان واقعات کے تئیں خاصی دلچسپی ہوتی تھی۔

سال 2019  میں جب وزیراعظم نریندر مودی عام انتخابات کی مہم چلا رہے تھے تو انہوں نے اپنی تقریروں میں 15 بار پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے  اس کو ہندوستان میں بدامنی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔

صرف وزیر اعظم ہی نہیں، ان کی پارٹی کے دیگر لیڈروں نے بھی ہندوستان میں قوم پرستی کے جذبات کوبر انگیختہ کرنے کے لیے پاکستان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

ایک بار تو ایسا بھی لگنے لگا جیسے ہندوستان پاکستان کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے اور ملک کے اپنے اندر تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ ہندوستانی ووٹر کو لگا کہ پاکستان کے ساتھ آر یا پار کی لڑائی کرنے کے لیےصرف مودی میں ہمت ہے۔

یعنی 2019کے انتخابات پاکستان کے موضوع پر لڑ کر بی جے پی نے ایک واضح اکثریت حاصل کی۔ اس صورت حال میں اب پاکستان کی امیج ایک جڑواں بھائی کے بجائے ایک ایسے دشمن ملک کی ہے، جہاں ہر کوئی بندوق تانے بیٹھا ہے۔

ان پانچ سالوں میں پاکستان کے ساتھ ہر قسم کے رابطے چاہے تجارتی ہوں یا ٹریک ٹو، سبھی روک دیے گئے ہیں۔

اگرچہ نواز شریف اپنی انتخابی تقریروں میں ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی بحالی کی بات کرتے آرہے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ سب کچھ ان کو اقتدار میں لانے والوں پر اور پھر ہندوستان کی اگلی حکومت کے رویہ پر منحصر ہے۔

ڈاکٹر رشی گپتا، جو کہ ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی کے سینئر ریسرچ فیلو ہیں کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان غیر مستحکم تعلقات ایسے سیاسی گروہوں کی مدد کرتے ہیں جو قوم پرستی کو ہوا دے کر، زیادہ دفاعی اخراجات کو جواز بنا کر، ملک کے اصل اندرونی مشکلات سے توجہ ہٹاتے ہیں۔ کشیدگی کو عوامی حمایت بڑھانے اور فوجی اور پاپولسٹ لیڈروں کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی اختلاف، جیسے کشمیر کا سوال، ان سب میں مزید پیچیدگیاں  لاتا ہے۔

آج دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان میل جول اور رابطہ کا مکمل فقدان ہے۔ وہ نسل جس نے تقسیم کا مشاہدہ کیا تھا اور حالات کو بدلتے ہوئے دیکھنے کی امید رکھی تھی وہ دنیا سے تقریباً رخصت ہو گئی ہے۔

اب ہماری نسل دونوں ممالک کو جڑواں بھائیوں کی طرح کم سے کم ایک دوسرے سے آنکھیں ملاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم تو بس یہی مشورہ دے سکتے ہیں۔

بے جھجک آکے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں

آو ہم تم کو سکھاتے ہیں، ملانا دل کا

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)