فکر و نظر

سوشل میڈیا: نفرت کی یہ چکی چوبیسوں گھنٹے چلتی رہتی ہے

نفرت انگیز پیغامات پھیلانے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ 2014 کے انتخابات کے دوران ہی ہندوستان نے اس فن میں مہارت حاصل کر لی تھی جس نےنریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو اقتدارمیں لانے میں اہم رول ادا کیا۔ تب سے لے کر اب تک ہندوستان میں نفرت کی سیاست نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اب یہ ہندوستانی پارلیامنٹ تک پہنچ چکی ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

جب ہماری ہاؤسنگ سوسائٹی میں ریزیڈنٹ ویلفیرسوسائٹی نے وہاٹس ایپ گروپ بنایا، تو میں خوش تھی کہ چلو گھر بیٹھے ایک دوسرے کی خیریت معلوم ہوتی رہےگی اور سوسائٹی کے حوالے سے جانکاریاں موصول ہوتی رہیں گی۔ یوں گھر کے کاموں سے فرصت ملتے ہی خواتین باہر جانے کے بجائےگھر سے ہی گاشپ کرپا ئیں گی۔ مگر کیا معلوم تھا کہ مواصلات کا یہ ہتھیار نفرتوں کا سمندر بن جائے گا۔

  چند روز قبل ہی جب دسہرہ کے دن میں وہاٹس ایپ میسیج چیک کرکے دوستوں کومبارکبادی کے پیغام بھیج رہی تھی، تو دیکھا کہ ایک گروپ میں کسی نے میسیج بھیجا ہے کہ اس باروزیر اعظم نریندر مودی نہ صرف راون کے پتلے کو نذر آتش کریں گے بلکہ لال قلعہ پر بھی تیر برساکر اس کو  مسمارکریں گے۔

دسہرہ کے تہوار، راون کے پتلے کو جلانے کے عمل کو ہندو راشٹرسے اب جوڑا گیا ہے۔ لگتا ہے رام نے راون کو مار کر اس دن ہندو راشٹرکی بنیاد ڈالی۔ جئے شری رام کا نعرہ جو روحانیت اور عروج آدم کا مظہر تھا، اب کسی کو نفرت کا نشانہ بنانے کا نعرہ بن گیا ہے۔

ہر صبح پھولوں کے گلدستے کی تصویر کے ساتھ گڈ مارننگ کی میسیج کے بجائےہندوتو ریاست کے قیام کی نوید یا بھگوا پرچم یا اوم کی ایموجیز ہوتی ہیں۔ یہ سب صرف ہاؤسنگ سوسائٹی کے گروپ تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسکول میں بچوں کے والدین کے گروپ، صحافیوں کے گروپ تک اس سے مبرا نہیں ہیں۔

شروع شروع میں تو میں نے کچھ حقائق کے ساتھ ان پیغامات کا جواب دینے کی کوشش بھی کی لیکن پھر میں نے ہتھیار ڈال دیے۔

اب ان کو کون بتائے کہ دہلی کا لال قلعہ تو ملک کی شان ہے اور پھر دہلی کے رام لیلا میدان میں رام لیلا منعقد ہی آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرنے کروائی تھی، جہاں وزیر اعظم مودی راون کے پتلے کو آگ کے حوالے کرنے والے تھے۔

ان گروپوں میں لگتا ہے کہ باضابطہ کچھ افراد کو بس اس لیے تعینات کیا گیا ہے کہ وہ غلط اطلاعات پھیلائیں اور اتنی بار پھیلائیں کہ لوگ ان کو سچ ماننے لگیں۔ اب اگر کسی نے ان کی اطلاع کو درست کرنے کی کوشش کی تو اس پرایسی چڑھائی ہوتی ہے کہ بس پناہ لینی پڑتی ہے۔ میرا کچھ ایسا ہی تجربہ ہے۔ ملک دشمن کا لقب دے کر ایسے شخص کی زندگی اجیرن بناتے ہیں۔ پروپیگنڈہ کی یہ چکی چوبیسوں گھنٹے چلتی رہتی ہے۔

کسی جماعت کی حمایت کرنا یا اس کے لیے کمپین چلانا صرف انتخابی موسم تک محدود نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ہم مسلسل انتخابی موسم میں رہ رہے ہیں۔

الیکشن کے دوران یہ مشنری بس اوور ٹائم کام کرتی ہے۔عوام تک ہر وہ پیغام پہنچنی ہے جو اس نفرت کی سیاست کو مستحکم کرسکے۔ پھروہ ہندو مسلم ہو، یا اونچی ذات اور پسماندہ ذات کا مسئلہ یا پھر ہندوستان پاکستان کے درمیان کھیلا جانے والا کرکٹ میچ۔ نہ صرف وہاٹس ایپ، بلکہ فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام، ایسے تمام مقبول پلیٹ فارم، ہندوستانی عوام میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

نفرت انگیز پیغامات پھیلانے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیاڈپارٹمنٹ کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ان کی بریگیڈ کے پاس انٹرنیٹ ٹرولز،  آشوب گرو، حقیقی حامیوں اور پارٹی عہدیداروں کی فوج ہے۔

یہ سب اجتماعی طور پر ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے کو  مضبوطی کے ساتھ آگےبڑھانے کا کام کر رہے ہیں اور تشدد اور دہشت کا ماحول بنا رہے ہیں۔

ہندوستانی سوشل میڈیا نفرت، غلط معلومات اور خوفناک افواہیں پھیلانے کا وسیلہ  ہے۔ اس سے پہلے روس نے 2016 میں فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز کےذریعے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی تھی، ہندوستان نے 2014 کے انتخابات کے دوران اس فن میں پہلے ہی مہارت حاصل کر لی تھی جس نےنریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو اقتدارمیں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 تب سے لےکر اب تک ہندوستان میں نفرت کی سیاست نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اور اب یہ ہندوستانی پارلیامنٹ تک پہنچ چکی ہے۔

حکمراں بی جے پی کے ایک منتخب رکن رمیش بدھوڑی نے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے رکن دانش علی کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جہاں بدھوڑی اب راجستھان صوبہ انتخابات کی مہم میں مصروف ہیں، علی انصاف کے لیے پارلیامانی کمیٹی کی میٹنگ کا انتظار کر رہے ہیں۔

ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم، جو ملک بھر میں منتخب نمائندوں کے پس منظر کی جانچ کرتی ہے، نے ایک رپورٹ میں منتخب اراکین کے درمیان نفرت انگیز تقریر کے استعمال کی اطلاع دی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی خلاصہ کیا گیا ہے کہ 107 منتخب نمائندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے مقدمات درج ہیں،جس میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اول مقام پر ہے اور اس کے 44 ارکین پارلیامان کے خلاف ملک بھر کی عدالتوں میں نفرت سے متعلق مقدمات درج ہیں۔

گزشتہ 5 سالوں میں 480 امیدوار جن پر نفرت انگیز تقاریر کے مقدمات درج ہیں وہ پارلیامنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ جن میں سےزیادہ تر کا تعلق حکمراں بی جے پی سے ہے۔ یعنی انتخابات جیتنے کےلیے نفرت ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے، جو نہاہت ہی تشویش ناک امر ہے۔  انتخابات کےدوران الزامات، در الزامات تو سمجھ میں آتا ہے کہ  اب غیرسرکاری ہینڈل بھی نفرت پھیلانے اور بی جے پی کے لیے پراکسی مہم چلانے کے لیےچوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ بی جے پی آسانی سے ان پیغامات کے لیےجوابدہی یا ذمہ داری سے گریز کرلیتی ہے اور ساتھ ہی اگر کسی نے کارروائی کی تو اس کا  رخ وہاٹس ایپ یا فیس بک پر موڑ دیا جاتا ہے۔ اور نقرت کا بازارکبھی ٹھنڈا نہیں پڑتا۔

مگر بقول حبیب جالب؛

یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار

نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستےمیں

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)