گزشتہ دنوں ایک ریلی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ مہاتماگاندھی نے 1947 میں کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والا ہندو، سکھ ہر نظریے سےہندوستان آ سکتا ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بتایا تھا کہ گاندھی جی نے کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے ہندو اور سکھ ساتھیوں کو جب لگے کہ ان کوہندوستان آنا چاہیے تو ان کا استقبال ہے۔ کیا واقعی مہاتما گاندھی نے ایسا کہاتھا جیسا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں؟
1984کے راجیو گاندھی اور 1993 کے نرسمہا راؤ کی طرح واجپائی تاریخ میں ایک ایسے وزیر اعظم کے طور پر بھی یاد کیے جائیں گے ،جنہوں نے سبق کو رواداری کا پڑھایا ،مگر بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی طرف سے آنکھیں موند لیں ۔
مدراس کرشچین کالج(ایم سی سی)میں بیالوجی کی کم سے کم 34 طالبات نے کالج کے ایک پروفیسر پر جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ جسٹس ایس ویدیہ ناتھن نے پروفیسر کو جاری وجہ بتاؤ نوٹس کو خارج کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔
آدیواسیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے مذہب کو پہچان دی جانی چاہیے اور مذہب کے کالم میں ان کو ٹرائبل یا Aboriginal Religion چننے کا اختیاربھی دیا جانا چاہیے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں قید آسیہ بی بی کی سزائے موت کے فیصلے کو ختم کر دیا ہے۔ مسیحی خاتون نے اپنی موت کی سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں دلتوں ،مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کو بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے بائیکاٹ کاسامنا کرنا پڑا ہے۔
جھارکھنڈ میں عیسائی تنظیم اور چرچ ،ریاستی حکومت کے رویے پر لگاتار سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ واقعات کو مرکز میں رکھکر بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی بھی مشنری اداروں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہی ہے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سیلاب کی تباہی کی میڈیا کوریج اور اٹل بہاری واجپائی کی شخصیت کے بارے میں سینئر صحافی پورنیما جوشی اور جنتا کا رپورٹر کے مدیر رفعت جاوید سےارملیش کی بات چیت۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ آگرہ سربراہ کانفرنس اور رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ حل کرنے میں اٹل بہاری واجپائی کو کامیابی ملی ہوتی تو ملک کی صورتِحال آج کچھ اور ہوتی۔ لیکن تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!