خبریں

منی پور: وزیر داخلہ امت شاہ کے دورے کے درمیان تشدد اور گھروں کو نذر آتش کرنے کی اطلاع

گزشتہ 29 مئی سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ منی پور میں ہیں،انہوں نے بدھ کو تقریباً ایک ماہ سے جاری تشدد کو ختم کرنے کے لیےمیتیئی اور کُکی برادریوں کے رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کی۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے منی پور کے دورہ کے دوران  وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ  کے ہمراہ  ایک ریلیف کیمپ میں میتیئی برادری کے لوگوں سے ملاقات کی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ امت شاہ)

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے منی پور کے دورہ کے دوران  وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ  کے ہمراہ  ایک ریلیف کیمپ میں میتیئی برادری کے لوگوں سے ملاقات کی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ امت شاہ)

نئی دہلی: بدھ (31 مئی) کی صبح منی پور کے بشنو پور-چوڑاچاند پور اضلاع کے تانگ جینگ گاؤں کے قریب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ دریں اثنا، ریاست کا دورہ کر رہے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے تقریباً ایک ماہ سے جاری تشدد کو ختم کرنے کے لیے میتیئی اور کُکی برادریوں کے رہنماؤں کے ساتھ بیٹھک جاری رکھی۔

ڈکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق، منگل (30 مئی) کی رات امپھال ایسٹ ڈسٹرکٹ کے تھوبن ڈیم پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والے کئی گاؤں  اور کُکی اکثریتی کانگ پوکپی ضلع  کےآئی لینڈ سب ڈویژن میں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔

شاہ نے بدھ کی صبح موریہہ اور کانگ پوکپی اضلاع کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے کُکی اور میتیئی برادریوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس سے پہلے گزشتہ سوموار (29 مئی) سے منی پور میں موجود وزیر داخلہ نے موریہہ میں فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں سے ملاقات کی تھی۔

بدھ کی شام کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، شاہ نے سیکورٹی ایجنسیوں کو ہدایت دی کہ وہ مسلح شرپسندوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے سخت اور فوری کارروائی کریں،اور جلد از جلد حالات کو بحال کرنے کے لیے لوٹے گئے ہتھیاروں کو برآمد کریں۔

امپھال میں ایک ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے کے بعد امت شاہ نے ٹوئٹ کرکے ان کی جلد اور محفوظ گھر واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔

انہوں نے کہا، ‘امپھال میں ایک ریلیف کیمپ کا دورہ کیا، جہاں میتیئی کمیونٹی کے لوگ رہ رہے ہیں۔ ہمارا عزم منی پور کو ایک بار پھر امن اور ہم آہنگی کے راستے پر لانے اور بے گھر لوگوں کی جلد از جلد ان کے گھروں کو واپسی پر مرکوز ہے۔

گزشتہ 3 مئی کومیتیئی اور کُکی برادریوں کے درمیان تشدد شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 75 افراد مارے گئے ہیں، سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں اور تقریباً 50000 لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔

ڈکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، منی پور حکومت نے موبائل اور براڈ بینڈ دونوں پر انٹرنیٹ پابندی 5 جون تک بڑھا دی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے لوگوں سے ان ہتھیاروں کو واپس کرنے کی بھی اپیل کی ہے، جوتشدد کے دوران وادی اور پہاڑی علاقہ کی پولیس سے چھینے گئے تھے۔قابل ذکر ہے کہ 1000 سے زیادہ ہتھیار چھینے گئے تھے، لیکن 500 سے کم برآمد یا واپس کیے گئے ہیں۔

واضح ہو کہ منی پور میں 3 مئی کو ہونے والا نسلی تشدد تقریباً ایک ماہ سے جاری ہے۔ اکثریتی میتیئی کمیونٹی کی طرف سے ایس ٹی کا درجہ دینے کے مطالبے نے ریاست میں کشیدگی کو جنم دیا تھا، جسے پہاڑی قبائل اپنے حقوق پر تجاوز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس تشدد کے بعد اب قبائلی رہنما الگ انتظامیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

 میتیئی برادری کا مسئلہ ایک بار پھر اس وقت سامنے آیا، جب 27 مارچ کو منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ  میتیئی برادری کو درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کے سلسلے میں مرکز کو سفارش پیش کرے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ اس فیصلے سے منی پور کے غیرمیتیئی باشندے جو پہلے سے ہی درج فہرست قبائل کی فہرست میں شامل ہیں،میں کافی بے چینی پیدا کر دی تھی، جس کے نتیجے میں 3 مئی کو نکالے گئے ایک احتجاجی مارچ کے دوران نسلی  تشدد دیکھنے کو ملا۔

گزشتہ 17 مئی کو سپریم کورٹ نے منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو درج فہرست قبائل کی فہرست میں میتیئی کمیونٹی کو شامل کرنے پر غور کرنے کی ہدایت کے خلاف ‘سخت ریمارکس’ دیے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے اس  فیصلے کو حقائق کی رو سے بالکلیہ  غلط قرار دیا تھا۔

اس سے قبل 8 مئی کو ہوئی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے منی پور میں تشدد کو ‘انسانی مسئلہ’ قرار دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ کسی کمیونٹی کو شیڈول کاسٹ (ایس سی) یا شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کے طور پر نامزد کرنے کا اختیار ہائی کورٹ کے پاس نہیں ہے، بلکہ صدر کے پاس ہے۔

منی پور میں  میتیئی کمیونٹی آبادی کا تقریباً 53 فیصد ہے اور زیادہ تر وادی امپھال میں رہتی ہے۔آدی واسی ، جن میں ناگا اور کُکی شامل ہیں، آبادی کا 40 فیصد ہیں اور زیادہ تر پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں، جو وادی کے علاقے کے چاروں طرف واقع ہیں۔

ایس ٹی کا درجہ ملنے سے میتیئی سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن  کے حقدار ہوں گے اور انہیں جنگلاتی زمین تک رسائی کا حق حاصل ہوگا، لیکن ریاست کی موجودہ قبائلی برادریوں کو خدشہ ہے کہ اس سے ان کے لیے دستیاب ریزرویشن کم ہو جائے گا اور صدیوں سے وہ جن زمینوں پر آباد ہیں ، وہ خطرے میں پڑ جائیں گی۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔