گزشتہ دنوں منی پور تشدد سےمتعلق ایک اور ویڈیو وائرل ہوا ہے، جس میں کچھ لوگ زمین پر پڑے ایک شخص کو آگ لگاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ متاثرہ شخص کے بارے میں ابتدائی طور پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ 37 سالہ لال دین تھانگا کھونگسائی ہے، لیکن اب پولیس ذرائع اور کھونگسائی کے اہل خانہ نے اس پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔
منی پور خواتین کمیشن کمیشن نے گزشتہ سال ستمبر سے اب تک ریاست میں ریپ، جنسی ہراسانی اور گھریلو تشدد سمیت خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق کل 59 مقدمات درج کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کیس وادی کے اضلاع سے آئے ہیں، جن میں امپھال ویسٹ، امپھال ایسٹ، تھوبل اور کاکچنگ شامل ہیں۔
ویڈیو: 2 ستمبر کو آسام رائفلز کے جوان اور منی پور پولیس کی ایک ٹیم امپھال کے نیو لیمبولین علاقے میں رہنے والے کچھ کُکی خاندانوں کو زبردستی نکالنے کے لیے پہنچی تھی، جو شہر میں کمیونٹی کے کچھ آخری خاندان تھے۔ اب انہیں دارالحکومت سے 25 کلومیٹر دور کانگ پوکپی ضلع کے ایک گاؤں میں بھیج دیا گیا ہے۔
منی پور کا دورہ کرنے کے بعد ایڈیٹرز گلڈ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے رپورٹ میں ‘انٹرنیٹ پابندی’ کو غلطی قرار دیتے ہوئےکہا تھا کہ تشدد کے دوران منی پور کا میڈیا ‘میتیئی میڈیا’ بن گیا تھا۔ اب سی ایم این بیرین سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت نے گلڈ کےممبران کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جو ‘ریاست میں اور تصادم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے امپھال سے آخری پانچ کُکی خاندانوں کے نکالے جانے کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ریاستی حکومت ‘نسلی تطہیر’ کی قیادت کرتی ہے اور مرکز کا دعویٰ ہے کہ ریاستی حکومت آئین کے مطابق چل رہی ہے… اس سے زیادہ شرمناک اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
ایڈیٹرز گلڈآف انڈیا کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے گزشتہ ماہ منی پور کا دورہ کیا تھا۔ ٹیم کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی پورحکومت کی طرف سے انٹرنیٹ پر پابندی کا صحافت پر نقصاندہ اثر پڑا، کیونکہ بغیر کسی ابلاغ کے اکٹھی کی جانے والی مقامی خبریں صورتحال کا متوازن نظریہ پیش کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔
بی جے پی کی حلیف جماعت ناگا پیپلز فرنٹ کے رہنما اور منی پورسے آنے والے دو لوک سبھا ایم پی میں سے ایک لورہو ایس فوزے کا کہنا ہے کہ وہ ایوان میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران منی پور پر بولنا چاہتے تھے لیکن انہیں بی جے پی کے لوگوں نے بولنے سے منع کر دیا تھا۔
افسوس کی بات تھی کہ ایک ایسے نازک وقت میں ایوان کے اندر سرکارکے لوگ ہنسی مذاق اور چھینٹا کشی کر رہے تھے، جب منی پور میں گزشتہ تین ماہ سے لاشیں دفن کیے جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اتنی سنگدلی، بے رحمی اور بے حسی کے ساتھ کوئی معاشرہ کس قدر اور کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟
ویڈیو: 31 جولائی کی رات امپھال ویسٹ کے زومی ولا میں آگ لگنے سے 17 گھر جل کر خاکستر ہو گئے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی، تاہم یہاں کے لوگ اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ آگ کُکی برادری کے گھروں سے شروع ہوئی تھی، جو بعد میں ان گھروں تک پھیل گئی جہاں بہار سے آنے والے لوگ رہتے ہیں۔
لوک سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے کہا کہ اگر ملک میں کہیں تشدد ہورہا ہے تو وزیر اعظم کو دو گھنٹے تک اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے فوج دو دن میں روک سکتی ہے، لیکن وزیر اعظم منی پور میں آگ بجھانا نہیں چاہتے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر دو گھنٹے سے زیادہ کی تقریر کی، جس میں انہوں نے منی پور کے بارے میں10 منٹ سے بھی کم بات کی۔ اپوزیشن لیڈروں نے اس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہوں نے ایوان کو انتخابی ریلی کی طرح استعمال کیا۔
لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران کانگریس ایم پی راہل گاندھی نے منی پور تشدد کے معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ آپ پورے ملک میں مٹی کا تیل ڈال رہے ہو، آپ نے منی پور میں مٹی کا تیل ڈالا ، چنگاری لگا دی۔ اب آپ ہریانہ میں کر رہے ہیں۔ پورے ملک کو آپ جلانے میں لگے ہو۔
فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر سے وابستہ اس غیر رسمی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس کشمیر کے زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا امن و امان و سلامتی کا دعویٰ صحیح ہے، تو یہ خطہ پچھلے پانچ سالوں سے منتخب اسمبلی کے بغیر کیوں ہے؟
ویڈیو: منی پور میں 3 مئی سے جاری نسلی تشدد کے دوران بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں اپنے گھر والوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ ایسے لوگوں سے دی وائرکی ٹیم نےبات چیت کی۔
راہل گاندھی نے کہا کہ جب ملک کو تکلیف ہوتی ہے،کسی شہری کو تکلیف ہوتی ہےتوآپ کا دل بھی دکھتا ہے، لیکن بی جے پی-آر ایس ایس کے لوگوں کوکوئی دکھ نہیں، کیونکہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا منی پور سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے نظریے نے منی پور کو جلایا ہے۔
امپھال کی 17 سالہ طالبہ لووانگ بی لنتھوئنگ بی ہیجام اور ان کے دوست فیجام ہیمن جیت سنگھ کو آخری بار 6 جولائی کو سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک ساتھ دیکھا گیا تھا۔ تب سے وہ لاپتہ ہیں اور ان کے اہل خانہ مسلسل حکام سے کارروائی کی فریاد کر رہے ہیں۔
منی پور کے کاک چنگ ضلع کے سیرو اوانگ لیکائی گاؤں میں مئی کے اواخر میں ایک مجاہد آزادی کی اسی سالہ بیوی کو ان کے گھر میں مسلح ہجوم نےزندہ جلا دیا تھا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے کے دو ماہ گزرنے کے باوجود پولیس نے تفتیش شروع نہیں کی ہے۔
بے گناہوں کے قتل، خواتین کے ساتھ صریح زیادتیاں، اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بننے کو مجبور لوگ، شرپسندوں کے خلاف قانون کے محافظوں کی سست کارروائی، تشدد کے مذہبی یا فرقہ وارانہ ہونے کے واضح اشارے … ہم واقعات کے سلسلے کو دہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، بس درمیان میں ایک طویل وقفہ ہے۔
پی ایم مودی کا کہنا ہے کہ منی پور ویڈیو نے قوم کو شرمسارکر دیا ہے۔ مگر گجرات میں ان کی حکومت کے دوران جو کھیل کھیلا گیا وہ شاید چنگیز و ہلاکو کو بھی شرمسار کرنے کے لیے کافی ہے۔شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ آج کے ہندوستان میں بربریت کا ہر ایک واقعہ گجرات ماڈل کا حصہ ہے۔ لنچنگ، زمینوں پر قبضہ، جمہوریت، تعلیمی اور سائنسی اداروں کو ختم کرنا، میڈیا پر کنٹرول، خواتین پر بڑھتے ہوئے جنسی حملے، آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر حملے – ان سب کا تجربہ گجرات میں کیا گیا ہے۔
منی پور میں تشدد کے حالیہ واقعات پر ان کے بیان میں دوسروں کے رنج والم کے حوالے سے فطری انسانی ردعمل کاواضح فقدان نظر آتا ہے۔
ویڈیو: منی پور میں دو ماہ سے زیادہ سے جاری تشدد کے درمیان خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ ریپ کی خبریں سامنے آنے لگی ہیں۔ الزام ہے کہ پولیس اور انتظامیہ نے ان جرائم کے حوالے سے مناسب کارروائی نہیں کی۔ ان واقعات کے خلاف دہلی کے جنتر منتر پر کُکی کمیونٹی نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
ویڈیو: نیوز ایجنسی اے این آئی نے منی پور میں کُکی خواتین کی برہنہ پریڈ کے واقعہ کے حوالے سے فرضی خبر ٹوئٹ کیا۔ جس میں عبد الحلیم نامی شخص کو ملزم بتایا گیا۔ بتایا گیا کہ منی پور پولیس نے اسے گرفتار کر لیا ہے۔ حالاں کہ ان گرفتاری ایک دوسرے معاملے میں ہوئی تھی۔ بعد میں اے این آئی نے اس ٹوئٹ کو ہٹا لیا۔
ہندوستان کی تاریخ میں نواکھلی کا تشدد اور مہاتما گاندھی کا وہاں رہ کر قیام امن کے لیے کردار ادا کرنا دونوں ہی قابل ذکر ہیں۔ اگر منی پور میں واقعی امن قائم کرنا ہے، تو وہاں کسی مہاتما گاندھی کو جانا ہوگا۔
منی پور میں دو کُکی خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کا لرزہ خیز ویڈیو سامنےآنے کے بعد وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے اس سلسلے میں ریاست گیر احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہےکہ ریاست کے لوگ خواتین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں، لیکن کچھ شرپسندوں کی وجہ سےریاست کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔
گزشتہ 4 مئی کو تین کُکی خواتین پر میتیئی کمیونٹی کے مردوں کے ہجوم نے حملہ کیاتھا،اور ان کی برہنہ پریڈ کرائی تھی۔ خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی بھی کی گئی تھی۔ بدھ کو اس واقعے کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد چار ملزمین کی گرفتاری ہوئی ہے۔
ویڈیو: منی پور میں دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری نسلی تصادم کے درمیان وہاں خواتین کے ساتھ ہوئی زیادتی کا ایک ہولناک ویڈیو سامنے آیا، اس کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا۔ اس بارے میں بات چیت کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ڈی یو کے پروفیسر اپوروانند ۔
ویڈیو: منی پور میں خواتین کی برہنہ پریڈ کے واقعے کا خوفناک ویڈیوسامنے آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلی بار منی پور تشدد کے حوالے سےکوئی بیان دیا ہے۔ اس بارے میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ملی جانکاری کے مطابق، ملک میں سب سے زیادہ بندوق لائسنس ہولڈرز والا صوبہ اتر پردیش ہے۔ اس کے بعد جموں کشمیر اور پنجاب ہے۔
ویڈیو: منی پور میں گزشتہ دو ماہ سے اکثریتی میتیئی کمیونٹی اور کُکی برادری کے درمیان نسلی تشدد جاری ہے۔ اب آر ٹی آئی کے تحت یہ جانکاری ملی ہے کہ شمال–مشرقی ریاستوں میں منی پور حکومت نے پچھلے 7 سالوں میں سب سے زیادہ بندوق کے لائسنس جاری کیے ہیں۔
خصوصی رپورٹ: ایک آر ٹی آئی کے جواب میں دی وائر کو موصولہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ تشدد سے جوجھ رہےمنی پور میں اس وقت 35117 ایکٹو گن لائسنس ہیں۔ دسمبر 2016 میں یہ تعداد 26836 تھی۔
گزشتہ 28 جون سے1 جولائی کے درمیان نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے منی پور کا دورہ کیا تھا۔ اس کے تین ارکان اینی راجہ، نشا سدھو اور دکشا دویدی کے خلاف ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے، اکسانے اور ہتک عزت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
منی پور میں جاری تشدد کے حوالے سے حیدرآباد یونیورسٹی کے پروفیسر خام خان سوان ہاؤزنگ، کُکی مہیلا منچ کی کنوینر میری گریس زاؤ اور کُکی پیپلز الائنس کے جنرل سکریٹری ولسن لالم ہینگ شنگ نے دی وائر کے لیےکرن تھاپرکو انٹرویو دیا تھا۔ الزام ہے کہ انٹرویو کے دوران دیے گئے ان کے بیانات نے فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکایا تھا۔
منی پور کے سابق گورنر گربچن جگت نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ریاست بھر میں پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کے اسلحہ خانوں پر حملے کیے گئے ہیں اور ہزاروں بندوقیں اور بڑی مقدار میں گولہ بارود لوٹ لیا گیا ہے۔ جموں کشمیر، پنجاب، دہلی، گجرات کے بدترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
ویڈیو: منی پور میں دو ماہ سے نسلی تشدد جاری ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ لوگ اپنے گھر اور زمین چھوڑنے کو مجبور ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 70000 سے زائد لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں ، جن کے لیے 350 کے قریب امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ کیسی ہے ان کیمپوں کی حالت؟
تمام سروے بتاتے ہیں کہ نریندر مودی ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ‘انتہائی’ مقبول مودی فرقہ وارانہ فسادات، احتجاجی مظاہرے یا نسلی تشدد کے دوران کوئی اپیل جاری کیوں نہیں کرتے؟ مہاتما گاندھی کے گجرات سے آنے والے مودی منی پور کی مختلف برادریوں کے درمیان جا کر امن کی اپیل کیوں نہیں کرتے؟ دراصل ان کی مقبولیت محض انتخابی ہے۔
ویڈیو: منی پور میں اکثریتی میتیئی اور قبائلی کُکی کمیونٹی کے درمیان3 مئی کو شروع ہونے والا نسلی تشدد جاری ہے۔ تشدد کے دوران اب تک کم از کم 133 افراد کی جان جا چکی ہی اور لگ بھگ 50000 لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔
ویڈیو: منی پور میں گزشتہ دو ماہ سے جاری نسلی تشدد کے درمیان کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے 29 جون کو ریاست کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے ریلیف کیمپوں میں رہ رہے متاثرہ افراد اور سول سوسائٹی کےممبران وغیرہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ تشدد سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔
ویڈیو: 26 جون کو ہندوستانی فوج کے اسپیئر کارپس کے ٹوئٹر ہینڈل سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ منی پور میں خواتین مظاہرین ‘مسلح فسادیوں’ کی مدد اور حوصلہ افزائی کر رہی ہیں اور ریاست میں سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مداخلت کر رہی ہیں۔ انہوں نے تعاون کی اپیل بھی کی تھی۔
منی پور میں ویسے تو امن کی صورتحال ہمیشہ ہی خراب رہی ہے۔ مگر وزیر اعظم نریند ر مودی اور ان کے دست راست امت شاہ نے مکر و فریب کا سہار ا لےکر ایک ایسا امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، جو بس اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ حقیقی امن کے لیے کوششیں کرنے کے بجائے، مختلف گروپوں کو الجھا کر وقتی سیاسی فائدے حاصل کرنے کے کام کیے گئے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منی پور میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری نسلی تشدد کے درمیان منی پور کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے24 جون کو نئی دہلی میں ایک آل پارٹی میٹنگ بلائی ہے۔ وہیں، کانگریس لیڈر سونیا گاندھی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے منی پور میں امن کی اپیل کی ہے۔