اسی کی دہائی کے بعد پہلی بار ہندوستان میں کوئی چینی رپورٹر نہیں ہے۔ ژنہوا نیوز ایجنسی اور چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن کے آخری دو صحافیوں کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ اس کے پاس اپنی میڈیا تنظیموں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب جوابی اقدامات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
نئی دہلی: امریکی اخبار ‘ دی وال اسٹریٹ جرنل’ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ چین سے ہندوستان میں اب کوئی صحافی نہیں رہ گیا ہے۔ اس جانکاری کے سامنےآنے کے بعد چین کی وزارت خارجہ نے بدھ (31 مئی) کو کہا کہ ‘اس کے پاس مناسب اقدامات کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ہے’۔
دونوں ممالک نے گزشتہ مارچ سے ایک دوسرے کے صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگانا شروع کر دی تھی۔ اخبار نے منگل کو بتایا تھا کہ یہ کارروائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔
ہندوستان کی جانب سے چین کی ژنہوا نیوز ایجنسی کے ایک صحافی کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کے لیے کہنے کے بعد چین نے تین ہندوستانی صحافیوں کے ویزےپر روک لگا دی ہے۔
اخبار نے اطلاع دی تھی کہ 1980 کی دہائی کے بعد پہلی بار ہندوستان میں کوئی چینی صحافی نہیں ہوگا، کیونکہ ژنہوا نیوز ایجنسی اور چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن کے آخری دو سرکاری میڈیا صحافیوں کو ملک چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔
بدھ کو اپنی روزانہ کی بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چینی صحافیوں کو ‘ طویل عرصے تک ہندوستان میں غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔’
انہوں نے 2017 میں ‘بغیر کسی معقول وجہ کے’ ہندوستان میں چینی صحافیوں کے ویزوں کی میعاد کو تین ماہ یاایک ماہ تک کم کرنے کا حوالہ دیا ۔ ماؤ نے کہا کہ 2020 کے بعدسے ہندوستانی حکومت نے ‘یہاں رہنے والے چینی صحافیوں کی درخواستوں کا جائزہ لینے اور انہیں منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے’۔
انہوں نے کہا،اس کے نتیجے میں، ہندوستان میں تعینات چینی صحافیوں کی تعداد عام اوقات میں 14 سے کم ہو کر صرف ایک رہ گئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے ہندوستان نے ابھی تک ملک میں آخری چینی صحافی کے ویزا کی تجدید نہیں کی ہے۔ ہندوستان میں تعینات چینی صحافیوں کی تعداد صفر ہونے جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے پیش نظر چینی فریق کے پاس ‘چینی میڈیا اداروں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب جوابی اقدامات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے’۔
تاہم، ماؤ نے دعویٰ کیا کہ چین ‘باہمی احترام، مساوات اور باہمی فائدے کے اصولوں کے تحت ہندوستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لیے اب بھی تیار ہے’۔
ماؤ نے کہا، ‘ہمیں امید ہے کہ ہندوستان اسی سمت میں چین کے ساتھ کام کرے گا، چین کے جائز خدشات کا سنجیدگی سے جواب دے گا اور دونوں ممالک کے میڈیا اداروں کے درمیان معمول کے تبادلے کو بحال کرنے کے لیے سازگار حالات بنانےکے لیے جلد از جلد ٹھوس قدم اٹھائے گا۔
لداخ میں متنازعہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان مہلک فوجی جھڑپ کے بعد سے ہندوستان اور چین کے درمیان کشیدگی انتہا پر ہے۔ ہندوستان نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سرحدی علاقوں میں امن وامان کوخراب ہونے کی صورت میں چین کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: عالمی خبریں