اندرا گاندھی اگر نریندر مودی کی طرح ایمرجنسی کے بغیرہی ویسے حالات پیدا کر کے جمہوری اور آئینی اداروں کو تنزلی کی راہ پر گامزن کر سکتیں، توبھلا وہ ایمرجنسی کا اعلان کیوں کراتیں؟
اپنی دو بار کی وزارت عظمیٰ کے دوران، نریندر مودی جون کا مہینہ آنے پر اس ایمرجنسی کی یاد دلانا (کہنا چاہیے، اس کا ڈر دکھانا) اب تک نہیں بھولے، جو آج سے 48 سال قبل اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور میں یعنی 25-26 جون 1975کی رات کو نافذ کی گئی تھی۔ اس بار بھی امریکہ کے دورےپرجانے سے پہلےوہ اپنے ‘من کی بات’ میں بھلے ہی منی پور کے سنگین بحران پر خاموش رہے ، لیکن مذکورہ ایمرجنسی کو فراموش نہیں کیا۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس ایمرجنسی کے تحت اظہار رائے کی آزادی سمیت اہل وطن کے تمام شہری حقوق سلب کرلیے گئے تھے اور پریس پر سینسر لگا کر اس کا منھ بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن کے بیشتر رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس لیےبعد میں جنتا پارٹی کی مرارجی دیسائی حکومت کی جانب سے اس کےاعادہ کے امکان کو روکنے کے لیے کیے گئے اہتماموں کے باوجود ملک میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس سے متعلق خدشات ڈراتے نہیں ہیں۔
لیکن دوسرے پہلو پر جائیں تو گزشتہ 48 سالوں میں کئی بار تبدیل ہونے والے سیاسی دھاروں کے درمیان ماہرین نے اس پر اتنے زاویوں سے، اتنی بار اور اتنے طریقوں سے تبصرہ اور تجزیہ کیا ہے کہ اب شاید ہی اس کا کوئی گوشہ اچھوتارہ گیا ہو۔تاہم، 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مودی جس ‘چالاکی’ سے ملک کے لوگوں پر غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کیے ہوئے ہیں، اس کے مدنظر اب اس ایمرجنسی کے سلسلے میں صرف ایک سوال کا جواب ملنا باقی ہےکہ ؛مسز گاندھی کو اگر اس قسم کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی سہولت میسرہوتی توانہیں اس ایمرجنسی کی ضرورت کیوں ہوتی؟ اس کا اعلان کرکے وہ جگ ہنسائی کیوں مول لیتیں؟
آج مختلف قسم کے جذباتی مظالم کی مدد سے ملک کو اس قدر افسوسناک مذہبی فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا شکار بنا دیا گیا ہے کہ اگر یہ سوال کیا جائے تو جہاں ایک فریق ‘ایک چپ ہزار سکھ’ کی صورت اختیار کرلے گا، وہیں دوسرا ‘قطعی نہیں’ کہہ کر جواب دے گا۔ پھر کوشش ہو گی کہ سب کچھ گڈمڈ کر دیا جائے۔
یوں چیزیں پہلے ہی اس قدر گڈ مڈ کی جا چکی ہیں کہ نئی نسل کو نہیں معلوم کہ ملکی آئین کے آرٹیکل 252 سے 360 تک غیرمعمولی حالات میں تین طرح کی ایمرجنسی لگانے کا اہتمام ہے۔ پہلی: قومی ایمرجنسی (نیشنل ایمرجنسی)، دوسری: ریاستی ایمرجنسی (اسٹیٹ ایمرجنسی)اور تیسری: مالیاتی ایمرجنسی (فائننشیل ایمرجنسی)۔ ان میں سے کسی بھی ایمرجنسی کا اعلان صرف صدر ہی کر سکتے ہیں- تاہم اس کے لیے کابینہ کی منظوری ضروری ہے، اس لیے ان کی ذمہ داری وزیر اعظم پر ہی عائد ہوتی ہے۔
جہاں تک قومی ایمرجنسی کا تعلق ہے، تو ملک کو اب تک تین بار اس سے گزرنا پڑا ہے۔ پہلی بار 26 اکتوبر 1962 کو چین کے حیران کن حملے کے بعد، جبکہ دوسری بار 3 سے 17 دسمبر 1971 کے درمیان پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ 25-26 جون 1975 کی شب تیسری بار قومی ایمرجنسی نافذ کی گئی اور یہ پہلا موقع تھا، جب غیر ملکی حملے کے بجائے ‘داخلی سلامتی کو لاحق خطرے’ کی وجہ سے ایمرجنسی نافذ کی گئی– وہ بھی انتہائی غیرمعمولی طریقے سے۔
پہلی ایمرجنسی کے دوران پنڈت جواہر لال نہرووزیر اعظم تھے، جبکہ دوسری اور تیسری ایمرجنسی کے دوران ان کی بیٹی اندرا گاندھی۔ اندرا گاندھی اب تک کی واحد وزیر اعظم ہیں، جن کے دور میں ملک کو دو قومی ایمرجنسی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن…غور کیجیے، مودی جب بھی ایمرجنسی کی بات کرتے ہیں، وہ صرف اس تیسری ایمرجنسی کی ہی بات کرتے ہیں– سیاسی نقطہ نظر سے اس کی تنقید کرتے ہوئے۔
بلاشبہ، تب داخلی سلامتی کو خطرہ اندرا گاندھی کا محض ایک بہانہ تھا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ ان دنوں ان کا سامناانتہائی شدید اور طاقتور اپوزیشن سےتھا اور وہ اس سے نمٹنے میں ہلکان ہوئی جا رہی تھیں۔ دریں اثنا، 12 جون، 1975 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے رائے بریلی لوک سبھا سیٹ سے ان کے 1971 کا انتخاب- اسے جیتنے کے لیے سرکاری وسائل کے غلط استعمال کو لے کر رد کر دیا تو فطری طور پر ان پر وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا دباؤ بڑھ گیا۔ پھر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے انہوں نے نہ صرف ملک پر ایمرجنسی نافذ کی، بلکہ لوک سبھا انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے (اپوزیشن لیڈروں کے جیل میں ہونے کی وجہ سے) اپوزیشن سے خالی پارلیامنٹ میں آئین میں ترمیم بھی کر ڈالی۔
لیکن 1977 آتے آتے انہیں غلط فہمی ہو گئی کہ ایمرجنسی نے پھلنا پھولنا شروع کر دیا ہے اور اب اگر لوک سبھا انتخابات ہوئے توعوام انہیں بھاری اکثریت سے اقتدار میں واپس لائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب انہوں نے انتخابات کرائے تو عوام نے بے دخلی کا فیصلہ سناکر تمام تر پریشانیوں اور اتار چڑھاؤ کے درمیان ملک کی جمہوریت کو اس کے آسان اور فطری راستے پر لا کھڑا کیا۔
پھر نوے کی دہائی تک کئی اقتداری تبدیلیوں کے درمیان یہ مانا جانے لگا کہ ہندوستان میں جمہوریت کا سنہری دور آچکا ہے اور اس کے لوگ اس قدر پختہ ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی آمر اس پر قابو نہیں پا سکتا۔ یہ عین وہ وقت تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے سیاسی عدم استحکام کے درمیان حالات کو بدلنے کے لیے رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کے بہانے فرقہ پرستی کا ایک شدید سیاہ طوفان کھڑا کر دیا اور اس سے نمٹنے میں پسینہ پسینہ ہوتی کانگریس کی پی وی نرسمہا راؤ حکومت نے 24 جولائی 1991 میں گلوبلائزیشن کی لبرل اور عوام دشمن اقتصادی پالیسیوں کو ملک کو درپیش چیلنجز کا واحد حل بتا کر اہل وطن کو ان کی طرف موڑ دیا۔
پھرتو جمہوریت کو سیاسی نظم و نسق کی شکل دے کر ملک کو ایسےایسے دلائل (پڑھیے: کٹھ حجتی) سے چلایا جا نے لگا کہ جمہوریت کے ‘سنہرے دور’ کو تباہ و برباد ہوتے دیر نہیں لگی۔ بعد ازاں نو لبرل ازم اور اکثریت پسندی کے گٹھ جوڑ نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ اس نے 2014 میں ‘گجرات کے نایک’ نریندر مودی کو ‘ملک کے مہانایک’ کے طور پر تخت نشین کیا اور 2019 میں بھی اس کو بنائے رکھا، تو غیر ملکی میڈیا کے کئی حلقے اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے کہ ہندوستانیوں نے 2014 میں اپنے لیے جو پانچ سالہ طویل رات کا انتخاب کیاتھا، اس کو2019 میں دس سال تک دراز کرنے کا فیصلہ کیوں کر ڈالا!
دوسری طرف اس طویل رات میں وطن عزیز کے برے دنوں کے لیے حکومتوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا رواج ہی ختم کیا جا رہا ہے۔ جو اس رسم کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، ’راجہ کا باجا‘ بجانے والے اس کا منہ نوچنے اور اہل وطن کو ہی ان کی حالت زار کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں! گویا حکومت عوام کے لیے نہیں، بلکہ عوام حکومت کے لیے ہو!
ملک کی جمہوریت جو اپنے بدترین دور میں بھی حکمرانوں کے راج دھرم پر عمل کرنےکی بات کرتی تھی، ’ مینیمم گورنمنٹ میکسیمم گورنینس‘ کا نعرہ دیتی ہوئی، ’سینگول‘ یعنی راج دنڈتک آچکی ہے اور بین الاقوامی اشاریوں کے مطابق آزادی جزوی ہو گئی ہے، جبکہ جمہوریت لنگڑی۔
کیا تعجب کہ مودی محترمہ گاندھی سے کئی گنا زیادہ ‘خوش قسمت’ اورجوابدہی سے کئی گنا زیادہ آزاد ہو چکے ہیں۔
یہ سوال اس صورت حال سےپیدا ہوا ہے کہ اندرا گاندھی اتنی ‘خوش قسمت’ ہوتیں کہ مودی کی طرح ایمرجنسی نافذ کیے بغیر ایمرجنسی جیسے حالات پیدا کرکے جمہوری اور آئینی اداروں کوتنزلی کی راہ پر گامزن کر سکتیں اور ان کا استعمال کر سکتیں، تو وہ بھلا ایمرجنسی کا اعلان ہی کیوں کراتیں؟ انہیں تو سرکاری ایجنسیوں کے ذریعےاپوزیشن لیڈروں پر بے شرمی سے کارروائیوں تک کے لیے ایمرجنسی کی ضرورت تھی، کیونکہ اس وقت تک ملک کی جمہوریت اتنی بے شرم نہیں ہوئی تھی جتنی آج وہ لنگڑی ہو چکی ہے۔
اگر میڈیا پر آج جیسےغیر اعلانیہ اور بالواسطہ پابندیوں اور دباؤ یا ‘سیلف سینسرشپ’ تک لے جانے والے ری فائنڈ طریقوں سے کام چل جاتا تو وہ سینسر کیوں لگا تیں؟ میڈیا سے ایک جھٹکے میں اس کی معروضیت کیوں نہ چھین لیتیں؟ اس کے بعد تو وہ خود حکومت کے ماؤتھ پیس کے طور پر کام کرنے لگتا۔ اس میں ‘ویرگاتھا کال’ اور ‘بھکتی کال’ ختم ہی نہیں ہوتا، تو اسے سینسر کی ضرورت ہی کیوں ہوتی؟
اس حقیقت کی گواہی مودی کے گرو ایل کے اڈوانی سے بھی دلوائی جا سکتی ہے، جو ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد بننے والی جنتا پارٹی کی مرارجی دیسائی کی حکومت میں اطلاعات و نشریات کے وزیر تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے صحافیوں سے کہاتھا کہ اندرا گاندھی نے توآپ کو صرف جھکنے کو کہا تھا، لیکن آپ لوگ تو گھٹنوں کے بل رینگنے لگے!
تاہم ان کے بیان میں بھی ایک آدھا سچ چھپا ہوا ہے کہ ان دنوں سینسر کے باوجود میڈیا نے آج کی طرح اپنی مزاحمت ترک کرکے خود کو خود ہی سینسر کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ جس دن پریس کو سینسر کرنے کا حکم دیا گیا، اور تو اور فیض آباد سے نکلنے والے چھوٹے سےروزنامہ ’جن مورچہ‘ نے بھی اسے آنکھ دکھانے سے گریز نہیں کیا تھا۔ سیلف سینسر شپ تک گرنے کی تو ان دنوں کوئی سوچتا تک نہیں تھا، اور جو سوچتا تھا، اس سے مسز گاندھی کومسلسل ‘شکایت’ نی رہتی تھی کہ میڈیا اپوزیشن کا رول نبھارہا ہے۔
ہندی کے سینئر نقاد وجئے بہادر سنگھ کے مطابق ایسا اس لیے تھا کہ اس وقت تک ملک میں نظم و نسق کی منطق اس حد تک نہیں گئی تھی کہ ایمرجنسی نافذ کیے بغیر حب الوطنی تک کا اہتمام کرکے دوسروں کی حب الوطنی پر شک کیا جا نے لگے۔ تب ہم رعایا سے شہری بننےکی طرف سفر کر رہے تھے، نہ کہ شہری سے رعایا کی طرف ۔ اس وقت تک ہم آزاد ملک کے غلام شہری میں نہیں بدلےتھے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے اپنی آزادی کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بیچنے پر آمادہ ہونا ہمیں گوارہ نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ تب بھی انتخابات میں ذات پات، علاقہ، زبان اور فرقہ پرستی کا استعمال کم نہیں ہوتا تھا، لیکن سیکولر آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں رام مندر کی تعمیر کے لیے مینڈیٹ مانگنے کی ‘سہولت’ تو نہیں ہی تھی۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر