این سی پی میں پھوٹ کے بعد شرد پوار کے اگلے قدم کا انتظار ہے۔ مہاراشٹرکو بخوبی جاننے کا دعویٰ کرنے والے بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پوار کو اس بات کا علم تھا اور یہ سب ان کی خاموش رضامندی سے ہوا ہے۔
مہاراشٹر کو 2024 کے عام انتخابات کے لیے ایک اہم ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔یہاں 48 لوک سبھاسیٹیں ہیں، جو اتر پردیش کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ تاہم یہاں سیاسی سازش اور شکوک و شبہات اپنے عروج پر ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کہ گزشتہ اتوار کو شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار نے بھارتیہ جنتا پارٹی-شندے شیو سینا اتحاد میں شامل ہونے کے بعد ریاست کے دوسرے نائب وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔ انہوں نے دعویٰ بھی کیا کہ انہیں این سی پی کے زیادہ تر ایم ایل اے کی حمایت حاصل ہے۔
اس بات کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے، لیکن جو بات واقعی حیران کن تھی وہ یہ تھی کہ شرد پوار کے قریبی پرفل پٹیل اور چھگن بھجبل اجیت کے خیمے میں شامل تھے۔ پچھلے مہینے ہی جب پٹیل اور سپریا سولے کو شرد پوار نے این سی پی کا کارگزار صدر بنایا تھا،تب یہ قیاس آرائیاں تھیں کہ اجیت پوار اپنے وفاداروں کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں۔
لیکن کسی نے نہیں سوچا تھا کہ پرفل پٹیل بھی کبھی شرد پوار کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ لیکن پھر بات یہ بھی ہے کہ اجیت پوار، پرفل پٹیل اور بھجبل بھی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانچ کے دائرے میں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے بھوپال میں ایک اجلاس میں این سی پی پر 70000 کروڑ روپے کے بدعنوانی کے معاملات میں ملوث لیڈروں کی ‘گھوٹالہ ‘ پارٹی ہونے کا الزام لگایا تھا۔
مودی نے خاص طور پر آبپاشی گھوٹالہ کا ذکر کیا، جس کا تعلق اجیت پوار سے ہے۔ ای ڈی نے چند ماہ قبل جنوبی ممبئی میں پرفل پٹیل کی اہم جائیداد کی چار منزلیں قرق کی تھیں۔ مبینہ طور پر یہ جائیداد داؤد ابراہیم کے دائیں ہاتھ اقبال مرچی سے متعلق ہے۔اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہ لطیفہ چل رہا ہے کہ ‘این سی پی کے ای ڈی دھڑے نے بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے!’
لیکن مہاراشٹر کے سیاسی ڈرامے میں ابھی آخری پردہ گرنا باقی ہے۔
شرد پوار کے اگلے قدم کا انتظار ہے۔ مہاراشٹرا کو بخوبی جاننے کا دعویٰ کرنے والے بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پوار اس حالیہ پیش رفت سے واقف تھے اور یہ سب ان کی خاموش رضامندی سے ہوا ہے۔ خاص طور پر یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ پرفل پٹیل پوار کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔
ایک اور نظریہ یہ ہے کہ پوار نے مہاراشٹر کی زمینی حقیقت کو سمجھ لیا ہے، جہاں رائے دہندگان مودی اور شاہ کی دغاباز سیاست سے بیزار ہیں – یہ شندے-شیو سینا کے اقتدار پر قبضے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کافی حد تک واضح ہو گیا تھا۔ اس وقت ادھو ٹھاکرے کے لیے حقیقی ہمدردی تھی۔ حال ہی میں، بی جے پی کی تشویش رہی ہے کہ شیوسینا کے روایتی ووٹر ادھو ٹھاکرے کے حق میں ہیں، جس کی تصدیق بی جے پی کے اندرونی سروے سے ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے مہاراشٹر کے لوگوں میں ادھو کو اخلاقی بلندی بھی دی ہے۔
پوار بھی اب مراٹھا ووٹروں کے ساتھ وکٹم کارڈ کھیل سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر ماحول کو اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔ مودی کی جانب سے انہیں گھیرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے بارش میں کھڑے ہجوم کو خطاب کرتے پوار کی تصویر کو فراموش مت کیجیے۔
یہ مان لینا صحیح ہے کہ پوار کا آخری داؤ اپنی بیٹی کے لیے سیاسی وراثت چھوڑنا ہوگا۔ یہ بھی دھیان دیں کہ دل بدل کے بعد ایک ترجمان نے پوار کو اپنا ‘دیوتا’ بتایا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ بی جے پی کے خیمےمیں شامل ہوں گے۔ ہندوستانی دیومالا میں تو دیوتا خود کی صلاح پرعمل کرتے رہے ہیں!
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست کے اس قابل اور تجربے کار کھلاڑی کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ این سی پی نے آئین کے 10ویں شیڈول کے تحت باغی ایم ایل اے کونااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے بعد پارٹی کے انتخابی نشان کے لیے لڑائی ہو سکتی ہے۔ پارٹی میں پھوٹ کو 10ویں شیڈول کے اصولوں کے مطابق گائیڈکیا جانا چاہیے اور بالآخر الیکشن کمیشن پارٹی کے نشان جیسے مسائل پر فیصلہ کرے گا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے شیو سینا میں پھوٹ کے تناظر میں کہا تھا کہ،’دسویں شیڈول (اینٹی ڈیفیکشن لا) اس وقت بھی لاگو ہوتا ہے جب لوگوں کا کوئی گروپ، خواہ وہ اقلیت میں ہو یا اکثریت میں، یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ایک ہی پارٹی سے ہیں۔سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ 2024 کے عام انتخابات تک مہاراشٹر میں اس طرح کا کھلا کھیل فرخ آبادی جاری رہے گا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر