فکر و نظر

جموں و کشمیر کو اب صرف عدلیہ کا ہی سہارا ہے

محبوبہ مفتی لکھتی ہیں، جموں و کشمیر کے لوگوں نے جمہوریت اور سیکولرازم کی مشترکہ اقدار پرجس ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، اس نے ہمیں مایوس کر دیا ہے۔ اب صرف عدلیہ ہی ہمارے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی (تصویر: پی ٹی آئی)

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی (تصویر: پی ٹی آئی)

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے یہاں بڑی تعداد میں وفود کی میزبانی کی گئی ہے۔ تاہم، مقامی لوگ خاموش تماشائی بن کر رہ  گئے ہیں، ان کے پاس سخت پابندیوں کی پیروی کے علاوہ کوئی اور  چارہ نہیں ہے،یہ بس اس  بات کویقینی بنانے کے لیے ہے کہ وادی میں ‘نارملسی کے آثار’ کی جستجو میں آنے والوں  کو وہی ملے جو وہ دیکھنے آئے تھے۔

اگرچہ، مجھے یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس بار یہ ذرا سا مختلف تھا۔دراصل عزت مآب  چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں سرکردہ ججوں کا 200 رکنی وفد گزشتہ ہفتے سری نگر پہنچا، میں حیران  ہوں  کہ؛ اپنی غیر معمولی فہم و فراست کے ساتھ ہربات کی حقیقت کو سمجھنے والے یہ لوگ کیا اس دورے پر نارملسی کے پردے میں  چھپی اصلیت کو دیکھ پائیں گے؟ ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو انصاف دلانے میں ان کے اہم کردار اور خدمات کو بہ آسانی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

پچھلے مہینے، جب پولو ویو کا دورہ کرتے ہوئے سری نگر میں جی 20 کے ایک سفارت کار کا انٹرویو کیا گیا، تو انہوں نے کچھ شرارتی انداز میں کہا کہ سڑکوں کو بالکل ہی صاف کر دیا گیا تھا-حتیٰ تک کہ لوگوں سے بھی۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی طرح ہی ان معزز جج صاحبان نےانتظامیہ کو اپنی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی اجازت نہیں دی ہوگی۔دراصل یہ جج  صاحبان ان لاکھوں لوگوں کی حالت زار سےانجان بھی  نہیں  ہیں ،جو برسوں سے عدلیہ کے دروازے پر انصاف کے کے لیے کھڑے ہیں۔

آج جموں و کشمیر میں ایڈمنسٹریشن جوڈیشل پروسس کا احترام کرنے کا دکھاوا بھی نہیں کرتا۔ کہیں نظام انصاف  کا شائبہ تک  نہیں ہے – اس کو بھی سلامتی اور نام نہاد قومی مفاد کے نام پر کمزور کر دیا گیا ہے۔

جب جسٹس چندر چوڑ نے عوامی طور پر زیر سماعت قیدیوں کو ضمانت دینے کے لیے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی لامتناہی تعداد کاحوالہ دیا تو انھوں نے یہاں کے لوگوں کو متاثر کیا کیونکہ کشمیر میں ضمانت سے انکار عام بات ہے۔ یہاں تک کہ ایسے معاملات میں بھی جہاں مجرمانہ طور پر طولِ عمل کے بعد بالآخر ضمانت مل جاتی ہے، جانچ ایجنسیاں انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ناقص بنیادوں پر نئے معاملوں کے تحت ملزمین کے خلاف  کیس درج کرنے میں جلد بازی کرتی  ہیں۔ مثال کے طور پر صحافی فہد شاہ کو ہی لے لیجیے، جنہوں نے کشمیر کی زمینی حقیقت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔

میری اپنی پارٹی کے نوجوان صدر وحید پارہ، جنہیں کچھ سال پہلے  اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے یوتھ آئیکون اور جمہوریت کے مینارہ نور کے طور پر سراہا تھا،  کے خلاف قومی تفتیشی ایجنسی نے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔ عدالت کے سخت حکم پر ضمانت ملنے کے باوجودانہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

وحید نے ایک ایسے جرم میں 18 ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے جو ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ ییل یونیورسٹی نے حال ہی میں کشمیر میں جمہوری اقدار کو برقرار رکھنے میں ان کی خدمات کے لیے انہیں ایک باوقار فیلوشپ سے نوازا۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آج کینسر سے لڑ رہے ان کے والد اپنے علاج کے لیے ممبئی جانے کی کوشش میں بیٹے کو کشمیر سے باہر سفر کرنے کی اجازت لینےکے لیے در در بھٹکتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اس ذہین شخص کو ییل جانے کی اجازت دینا تو دور کی بات، ایک بیٹے کی حیثیت سے ان کو اپنے فرض کی ادائیگی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

یہ بس دو مثالیں ہیں۔ آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے اور سچائی کو جاگر کرنے میں اہل ہونے کے باوجود کشمیر میں صحافی اب سیلف سینسرشپ  کی پیروی کرتے  ہیں- وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا بھی وہی انجام ہو سکتا ہے جو ان کے ساتھیوں فہد شاہ اور سجاد گل کا ہواہے۔

کشمیر میں بنا کسی  بند، تشدد یا پتھراؤ کے –نارملسی بحال کرنے کےمرکزی حکومت کے کھوکھلے دعووں کے باوجود جموں و کشمیر کی جیلوں کے اندر اور باہر ہزاروں نوجوان  زیر سماعت قیدی  ہیں۔ ان قیدیوں میں سے زیادہ تر غریب گھرانوں سے ہیں،جن کے پاس لمبی اور مہنگی قانونی جنگ لڑنے کی بات  تو دور، ایک بار ان سے ملنے کے وسائل تک نہیں ہیں۔ میں ایسے بے شمار والدین کو جانتی ہوں جنہیں اپنے بیٹوں کو گھر لانے اور قانونی مدد حاصل کرنے کے لیے ان کی  تھوڑی بہت جو  زمین تھی ، وہ بیچنی پڑی۔ لیکن بدقسمتی سے کشمیریوں کے خلاف پھیلائی گئی نفرت اتنی گہری ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر زیادہ تر وکلاء ان کے کیس  لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ہندوپاک میچ میں پاکستان کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزام میں تین کشمیری طالبعم طویل عرصے تک جیل میں رہے کیونکہ آگرہ کی عدالتوں میں وکیلوں نے ان کی نمائندگی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

چونکہ2019 میں ہندوستانی آئین کو پامال کیا گیا، ہمارے حقوق کو برقرار رکھنے اور ان کے تحفظ کے لیےبنائے گئے  ہر ادارے کو کشمیر میں استثنیٰ کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔  خواہ  وہ پارلیامنٹ ہو، مین اسٹریم میڈیا ہو یا ایگزیکٹو- انہوں نے نہ صرف ہمیں مایوس کیا بلکہ انہوں نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کشمیریوں کوکمزور کرنے میں شیطانی کردار ادا کیا ہے۔

ماضی میں، جب بھی دفعہ 370 کے قانونی جواز اوراس کو بنائے رکھنے  کو چیلنج کیا گیا، سپریم کورٹ نے واضح لفظوں میں کہا کہ اس اہتمام  کوجوعارضی نوعیت کا ہے،تب تک نہیں ہٹایا جا سکتا جب تک کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی ہندوستان کے صدر سے اسے تحلیل کرنے کی سفارش نہیں کرتی۔ آج جموں و کشمیر کے لوگ نہ صرف سپریم کورٹ سے اس کے سابقہ فیصلوں کو برقرار رکھنے بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہزاروں قیدیوں کو دیر سے ہی صحیح ، لیکن  انصاف کے لیےبھی اس کی طرف  دیکھ رہے ہیں۔

جموں و کشمیر کے لوگوں نے جمہوریت اور سیکولرازم کی مشترکہ اقدار پر جس ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، اس نے ہمیں مایوس کر دیا ہے۔ اب صرف عدلیہ ہی ہمارے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔

(محبوبہ مفتی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔)

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)