سمپت پرکاش ان گنے چنے کشمیری پنڈتوں میں تھے، جو اکثریتی آبادی کا دکھ دردسمجھتے تھے،اگر ان سے کوئی کشمیری پنڈتوں کی ہلاکت پر سوال کرتا، تو وہ جواب دیتے تھے کہ اگر ایک کشمیری پنڈت مارا گیا تو اس کے مقابل 50کشمیری مسلمان بھی مارے گئے اور ان کے بارے میں کسی کو کوئی تشویش کیوں نہیں ہے؟
کشمیر کی ایک اور چلتی پھرتی تاریخ معمر ٹریڈ یونین لیڈر سمپت پرکاش کی صورت میں یکم جولائی کو دل کا دورہ پڑنے سے سرینگر میں خاموش ہوگئی۔ وہ 86 برس کے تھے۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی راکھ کو دریائے جہلم میں بہایا گیا، کیونکہ ا ن کو کشمیر کے ساتھ ایک عشق تھا۔ ورنہ عام طور پر آخری رسومات کے بعد ہندو راکھ کو اترا کھنڈ کے شہر ہری دوارلےجاکر دریائے گنگا میں بہاتے ہیں۔
سمپت پرکاش کا نام میں نے پہلی بار 1975میں سنا، جب میں اسکول کے ابتدائی دور میں ہی تھا۔ ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی تھی اور اس وقت کی وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کو خوش کرنے کے لیے چند ماہ قبل ہی کانگریس کی مدد سے اقتدار میں آئے شیخ محمد عبداللہ نے اس کا اطلاق جموں کشمیر میں بھی کردیا، جبکہ اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔
گرفتاریوں کا ایک سلسلہ سا شروع ہوگیا تھا۔ اسکول شاید بند تھے، اس لیے مجھے چاچا یونس گیلانی، جو ان دنوں یونیورسٹی میں طالبعلم تھے، رفیع آباد کے ایک گاؤں بھیجا گیا۔ چونکہ یونیورسٹی میں ان کا سیاست سے ساتھ کچھ رابطہ تھا ، اس لیے گھر والوں کو ان کی گرفتاری کا خدشہ تھا۔شاید ان کا مقصد تھا کہ وہ چند روز گھر سے باہر رہیں۔
چند روز بعد جب ہم واپس سوپورآگئے، تو بس اڈے پر ہی معلوم ہوا کہ ہمارے گھر پر رات کو پولیس کا چھاپہ پڑا ہے اور میرے والد مسعود گیلانی جو ایک سرکاری ملازم تھے، کو گرفتار کیا گیا ہے۔ میری سمجھ میں کچھ زیادہ تو آ نہیں رہا تھا، مگر اتنا محسوس ہو رہا تھا کہ لوگ حیران و پریشان تھے کہ آخر ایک ایسے شخص کو جس کا سیاست کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں، کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟
مجھے گھر پر چھوڑکر چاچا نے پولیس اسٹیشن جاکر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، تو بتایا گیا کہ رات کو کئی اور ملازمین کی بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں، جو لو پیڈ ایمپلائز یونین کے اراکین تھے اور ان کو بارہمولہ کی ضلع پولیس لائنز میں رکھا گیا ہے۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ان کو راتوں رات چار سو کلومیٹر دور جموں کے ہیرا نگر جیل پہنچایا گیا ہے۔
خیر معلوم ہوا کہ گرفتاری کی وجہ یہ تھی کہ چند ماہ قبل سوپور میں انہوں نے سمپت پرکاش کی میزبانی کی تھی۔ جب ایک ماہ بعد جولائی کی آگ برساتی گرمی میں چاچا کے ساتھ ہیرا نگر جیل میں والد سے ملاقات کے لیے پہنچا، تو مجھے یاد ہے کہ ملاقات کے کمرے میں سمپت پرکاش بھی ہم سے ملنے آئے اور مجھے گود میں اٹھاکر میرے چاچا کو تسلی دی اور مجھے اندر جیل کی سیر بھی کرائی۔
اس کے بعد ایک طویل عرصے تک ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ بس اخبارات میں ان کے بارے میں خبریں پڑھتا رہتا تھا۔غالباً2004 میں جب دہلی ہائی کورٹ میں ہندوستانی پارلیامان پر حملہ کے کیس کی شنوائی ہو رہی تھی، تو کورٹ کے احاطے میں ان سے ملاقات ہوئی۔
میں چونکہ کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو میں کام کرتا تھا، اس لیے عدالت کی کاروائی کور کرنے کے لیے جاتا تھا۔ ان کو وکیل دفاع نے چارچ شیٹ میں موجود کشمیری میں فون پر ہوئی بات چیت کے مترجم کی حیثیت سے ایک گواہ بنایا ہوا تھا۔ اس لیے وہ کارروائی کے روز سرینگر سے یا جموں سے دہلی آپہنچتے تھے۔ کیونکہ دہلی پولیس کی طرف سے اس بات چیت کے غلط ترجمہ کے باعث ٹرائل کورٹ نے پروفیسر عبدالرحمان گیلانی کو موت کی سزا سنائی تھی۔ سمپت پرکاش اور فلم ساز سنجے کاک کی معاونت سے ہائی کورٹ نے گفتگو کا صحیح ترجمہ کرواکے ان کو بری کردیا۔
دونوں زبان دانوں نے عدالت کو باور کرادیا کہ پولیس کی طرف سے دائر کشمیر ی زبان میں ہوئی بات چیت کا ترجمہ غلط ہی نہیں بلکہ بالکل برعکس ہے۔پولیس نے دہلی کی آزاد پور سبزی اور فروٹ منڈی میں ایک آٹھویں جماعت پاس فروٹ بیچنے والے شخص سے پروفیسر صاحب کی کشمیر میں ان کے برادر سے ہوئی بات چیت کا کشمیری سے ہندی میں ترجمہ کروایا تھا۔اور اس بات چیت کی بنیاد پر پولیس اور نچلی عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ13دسمبر2001کو ہوئے پارلیامنٹ پر حملہ کی ان کو پیشگی اطلاع تھی اور وہ اس کی پلاننگ کرنے والوں میں شامل تھے۔
ان کے برادر نے فون پر ان کو بتایا تھا کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟“ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا کہ ”دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟“ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ’کیا یہ ضروری تھا؟“پولیس نے اس کو لکھا ”یہ ضروری تھا“۔اگر سمپت پرکاش عدالت عالیہ میں آکر صحیح ترجمہ پیش نہ کرتے اور اس کے لیے مہینوں تک لگاتار سرینگر یا جموں سے دہلی کے چکر نہ لگاتے، تو افضل گورو کی طرح شاید عدالت پروفیسر صاحب کی بھی موت کی سزا برقرار رکھ کر اس پر عمل بھی کروا چکی ہوتی۔
وہ ایک کٹرکمیونسٹ اور ٹریڈ یونین لیڈر تھے۔مگر کمیونسٹ پارٹیوں سے خار کھاتے تھے اور ان کو اشرافیہ اور موقع پرستی کا طعنے دےکر کہتے تھے کہ وہ حکومت کے ساتھ کسی بھی وقت ساز باز کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر کشمیر کے حوالے سے وہ ہندوستان کی بائیں بازو کی جماعتوں کی خاصی نکتہ چینی کرکے کہتے تھے کہ حق کا ساتھ دینے کا ان کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔
وید بھسین اور کرشن دیو سیٹھی کی طرح وہ کشمیر کے حالات و واقعات کے چشم دید گواہ تھے اور تیز یادداشت کی وجہ سے وہ ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ اس لیے میڈیا کے لیے وہ خبروں اور ان کے پس پردہ محرکات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم ذریعہ تھے۔
وہ ان گنے چنے کشمیری پنڈتوں میں تھے، جو اکثریتی آباد ی کا دکھ درد سمجھتے تھے اور ان کا کہنا تھا چار سو سالہ غلامی نے اس قوم کی قوت ارادی اور خود داری پر کاری ضرب لگائی ہے۔ کبھی کبھی یہ انگڑائی لےکر حکمرانوں کو پریشان کرتی ہے، مگر وہ اس کو پھر سلا دیتے ہیں۔ 1992میں جب ایک اور ٹریڈ یونین کشمیری پنڈت لیڈر ہردئے ناتھ وانچو کو سرینگر میں ہلاک کیا گیا، تو احباب کے کہنے پر انہوں نے بھی جموں ہجرت کی۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ مصیبت صرف ان کی کمیونٹی پر ہی نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس کا زیادہ تر حصہ تو کشمیر مسلمانوں کے ہی حصے میں آیا ہے۔ اگر ان سے کوئی کشمیری پنڈتوں کی ہلاکت پر سوال کرتا، تو وہ جواب دیتے تھے کہ اگر ایک کشمیری پنڈت مارا گیا تو اس کے مقابل 50کشمیری مسلمان بھی مارے گئے اور ان کے بارے میں کسی کو کوئی تشویش کیوں نہیں ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ابتداء میں وہ شیخ عبداللہ سے خاصے متاثر تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کو اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا داخلہ سرینگر کے ٹینڈل بسکو اسکول میں ایک ہی دن کرایا گیا تھا اور وہ ایک طویل عرصہ تک ان کے کلاس فیلو رہے ۔ مگر سیاسی شعور حاصل کرتے ہی اور پھر خاص طور پر 1973 کے بعد جب شیخ عبداللہ نے رائے شماری کے نعرے کو دفن کرکے اپنے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنی شروع کی،تو وہ ان سے بدک گئے۔
کشمیر میں تاریخی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک مثال دےکر وہ کہتے تھے کہ جب مغل شہنشاہ جہانگیر کشمیر آئے تھے، تو پامپور کے مقام پر ان کی ملاقات ایک کشمیری پنڈت خاندان سے ہوئی، جن کے تین بیٹے تھے اور ان میں سے دو نے اسلام قبول کیا تھا، مگر وہ پھر بھی ساتھ ہی ایک ہی گھر میں ایک ہی چھت کے تلے اپنے طریقے سے عبادت کرتے تھے۔
کشمیر کے مسئلہ کو پیچیدہ بنانے اور 1953میں شیخ عبداللہ کو وزرات اعظمیٰ سے معزول اور پھر گرفتار کرنے کے لیے وہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو براہ راست ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر واقعات کے ساتھ ساتھ شیخ کی معزولی بھی کشمیر کے ساتھ پیش آنے والے المناک واقعات میں سے ایک تھا۔ چار صدیوں کے بعد شیخ کی صورت میں کشمیریوں کی تھوڑی بہت سیاسی قوت ملی تھی۔ اس کی گرفتاری نے اس کو راتوں رات دوبارہ وہیں پہنچا دیا۔
ان کاکہنا تھا کہ نہرو اپنے زمانے کا چانکیہ تھا۔ جب شیخ اقوام متحدہ میں ہندوستانی وفدکے ساتھ نئی دہلی کے موقف کی حمایت کر رہا تھا، تو خفیہ ادارے نہرو کو ورغلا رہے تھے کہ امریکہ میں شیخ کشمیر کی آزادی کے لیے ساز باز کر رہا ہے۔ شیخ نے نہرو سے درخواست کی تھی کہ بے روزگاری کو کم کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔ نہرو نے کشمیر میں ڈاک خانے کھولنے کا حکم دیا۔ مگر کیا ہو اکہ ڈاک خانوں میں 900 آسامیاں تھیں، جس میں اکثریت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کو بس 19نوکریاں دی گئیں تھیں۔ جب شیخ اس مسئلہ کو نئی دہلی میں اٹھاتے تھے تو ان کو فرقہ پرست کا خطاب ملتا تھا۔
سال 1968 میں انہیں نے سرکاری ملازموں کی یونین تشکیل دے کر بڑے پیمانے پر ایک تحریک شروع کی۔ یہ 1865کے بعدکشمیر کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین اسٹرائک تھی۔ان کو پہلی بار گرفتار کیا گیا۔ مگر اس ہڑتال سے انتظامیہ ٹھپ ہو گئی اور انہیں ملازموں کے مطالبات ماننے پڑے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی بار تقریباً کل ملا کر آٹھ سال تک زندان میں رہے۔
حال ہی میں کشمیری مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والی بالی ووڈ کی متنازعہ فلم کشمیر فائلز کے خلاف وہ ایک مؤثر آواز کے بطور ابھرے۔ پیرانہ سالی میں بھی وہ میڈیا میں آکر اس فلم کی پول کھول دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تصور کرنا کہ مسلمانوں نے پنڈتوں کو 90 کی دہائی میں وادی سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا، بالکل غلط ہے۔
وہ کہتے تھے کہ وہ اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ مسلمان روتے بلکتے رہے اور سیکورٹی فورسز کی گاڑیاں پنڈتوں کو جموں لے جا رہی تھیں۔ وہ اس ہجرت کو اس وقت کے گورنر جگموہن ملہوترہ کے دماغ کی اختراع قرار دیتے تھے، کیونکہ وہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر آپریشن کرکے خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتے تھے۔
Categories: فکر و نظر