ادبستان

’میلان کنڈیرا کی موت سے ناول کا عظیم الشان قلعہ مسمار ہوگیا‘

خالد جاوید لکھتے ہیں ؛ میلان کنڈیرا کو دائیں بازو یا بائیں بازو کے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کنڈ یرا دنیا کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ آمری حکومت کا وجود ہے۔خمینی، ماؤ، اسٹالن یہ سب کون ہیں؟ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کیا معنی رکھتا ہے ؟

Milan Kundera (1929-2023). Photo: Twitter/@Ian_Willoughby

Milan Kundera (1929-2023). Photo: Twitter/@Ian_Willoughby

عالمی شہرت یافتہ چیک ادیب میلان کنڈیرا کی موت پر جے سی بی پرائز سے سرفراز ممتاز فکشن نویس خالد جاوید نے اپنےتاثرات کا اظہار کرتے ہوئے  دی وائر کوبتایا کہ کنڈیرا کی موت سےناول کا عظیم الشان قلعہ مسمار ہوگیا ، گابرئیل گارشیا مارکیزکے بعد وہ ہمارے عہد کے ناول کے اکلوتے وارث تھے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ منگل 11 جولائی کو میلان کنڈیرا چورانوے برس کی عمر میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں انتقال کر گئے۔

ان کو یاد کرتے ہوئے خالد جاوید نے اپنی کتاب ‘میلان کنڈیرا’ سےاس چیک ادیب کےبعض سوانحی اشارے  اور افکار سے متعلق اپنی ایک مفصل تحریربھی دی وائرکے ساتھ شیئر کی ہے۔ہم اسے اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کر رہے ہیں–  ادارہ

§§§

میلان کنڈیرا کی پیدائش یکم اپریل 1929 میں چیکوسلوواکیہ کے ایک شہر برنو میں ہوئی۔ یہ ایک درمیانی طبقے کا خاندان تھا اور میلان کنڈیرا کے والدلڈوک کنڈیرا— ایک موسیقار تھے۔ پیانو بجانے میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی ، وہ مشہور چیک موسیقار ‘لیوجینک’ کے شاگرد رہے تھے۔ میلان کنڈیرا نےخود بھی اپنے والد سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔

میلان کنڈیرا کو موسیقی سے حددرجہ لگاؤ رہا ہے،یہاں تک کہ اُن کی تحریروں پر بھی موسیقی اور موسیقی کے اصول وضوابط کا اثر نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر اپنے ناولوں میں ابواب کی تکرار، پلاٹ میں تنوع اور تبدیلی  کا عمل اور تھیم یا موضوع کی وحدت وہ عوامل ہیں جن کو کنڈیرا نے باقاعدہ طور سے علم موسیقی کے ذریعے برتا ہے۔

اُس کے ناولوں میں جگہ جگہ موسیقی کے بارے میں بخشیں ملتی ہیں۔ خاص طورپر ناول ‘دی جوک’ میں تو ایک طویل باب ہی موسیقی کے انتہائی دقیق اورپیچیدہ مسائل پر مبنی ہے۔

میلان کنڈیرا کو بچپن سے ہی ادب سے شغف رہا تھا۔ اُس نے اپنی پہلی نظم اُن دنوں لکھی تھی جب وہ ہائی اسکول کا طالبعلم تھا۔ ابتدائی دنوں میں کنڈیرا نے نظمیں ہی لکھی ہیں۔ اُس زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل تھاکہ کچی پکی نظمیں لکھنے والے میلان کنڈیرا کے قالب میں ہمارے عہد کے اہم ترین ناول نگار کی رُوح پوشیدہ ہوگی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد کنڈیرا نے جاز موسیقار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اُس زمانے میں اُس کی تعلیم کا سلسلہ ملتوی ہو گیا تھا۔ کنڈیرا کا تعلق نوجوانوں کی اُس نسل سے ہے جسے جنگ عظیم سے پہلے کے چیکوسلوواکیہ کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔ چیکوسلوواکیہ کا ‘ری پبلک’ ہونا اُن کے لیے ایک خواب کے مانند رہا ہے۔

لہذا یہ عین فطری تھا کہ دوسری جنگ عظیم اور چیکوسلوواکیہ پرجرمنی کے قبضے کے بعد نوجوانوں کی یہ نسل ایک خاص آئیڈیالوجی کی حامی ہوگئی تھی۔ میلان کنڈیرا نے بھی اپنی کم عمری میں ہی چیکوسلوواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔

میلان کنڈیرا نے بعد میں پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کی اُس کے ساتھ ساتھ فلم، ادب اور جمالیات میں بھی ڈگریاں حاصل کیں۔

سن 1952 میں کنڈیرا کا تقرر پراگ اکادمی آف پرفارمنگ آرٹ میں بطور عالمی ادب کے پروفیسر ہو گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اُس نے اپنی نظمیں اور مضامین شائع کرانا شروع کیے۔اُس نےکئی اہم  ادبی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی۔

مگر اس سب سے پہلے کنڈیرا کی زندگی میں انتشار آمیز عناصر کی شمولیت ہوگئی تھی۔ وہ ایک بے چین زندگی گزار رہا تھا۔ 1948 میں وہ پراگ کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا تھا، مگر صرف دو سال بعد 1950 میں اسےپارٹی سے نکال دیا گیا۔ کنڈیرا پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ پارٹی کے اندررہتے ہوئے بھی وہ شخصی اور انفرادی رجحانات سے آزاد نہیں رہ سکا تھا۔

حالاں کہ کنڈیرا نے 1956 میں پھر پارٹی جوائن کر لی تھی اور 1970 تک کسی نہ کسی طرح اپنی ممبر شپ کو برقرار رکھا۔

پچاس کی تقریباً پوری دہائی میں کنڈیرا نے بہت سے ترجمے کیے،مضامین لکھے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ 1953 میں کنڈیرا کی نظموں کی پہلی کتاب ‘ مین اے وائیڈ گارڈن’  کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد 1961 میں دی لاسٹ مئی  اور 1965 میں ‘مونولاگز’ کے عنوان سے نظموں کے دو مجموعے اور شائع ہوئے۔

ان نظموں میں مارکسٹ آئیڈیالوجی کی چھاپ صاف نمایاں ہیں، مگر اس کے باجوود کنڈ یرا— اس کٹر قسم کی مارکسی فکر کے خلاف نظر آتا ہے جو اس زمانےمیں ادب اور شاعری کا ناگزیر عنصر بن گئی تھی۔ کنڈ یرا— اس کٹرین میں ایک انفرادی اور انسانی چہرے کا ہمیشہ حامی نظر آتا ہے۔ یعنی سب کچھ صرف پرولتاری تحریک، طبقاتی جدو جہد اور سوشلسٹ حقیقت نگاری ہی نہیں ہے۔

مگر 1955 میں اپنی طویل نظم ‘دی لاسٹ مئی‘ میں اس نے ‘جولیس فو یک’ کو خراج عقیدت پیش کیا جو دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں ایک طرح سے چیکو وسلواکیہ کا کمیونسٹ ہیرو بن گیا تھا کیوں کہ وہ چیکوسلوواکیہ کے نازی جرمنی کے قبضے کے خلاف ایک جنگ کا قائد تھا۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہ نظم کنڈیرا نے اپنی مرضی سے نہیں کہی تھی۔ اُسےبا قاعدہ کمیونسٹ پارٹی کے پرو پیگنڈے کے طور پر لکھوایا گیا تھا اور کنڈ یرا کوخود اس بات میں یقین نہ تھا جسے وہ زور شور کے ساتھ نظم کی ہیئت میں ڈھال رہا تھا۔

مگرمونولاگز کی بیشتر نظمیں محبت کی نظمیں ہیں۔ یہاں کسی قسم کا سیاسی پرو پیگنڈہ نہیں ہے۔ بجائے اس کے انسانی وجود کے مختلف جہات کی تفتیش کی گئی ہے۔

میلان کنڈیرا کی زیادہ تر نظموں میں دبے چھپے وہ موضوعات یاخیالات پائے جاتے ہیں جو بعد میں اس نے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں کھل کر اور تفصیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔خصوصاً د ی جوک میں تو اس کی  بہت  سی نظموں کا خلاصہ موجود ہے۔

کنڈیرا—اس زمانے میں صرف نظمیں ہی نہیں لکھ رہا تھا۔ وہ اسٹیج کےلیے ڈرامے بھی تیار کر رہا تھا۔  دی آنرس آف دی کیز اس نے 1962 میں لکھا تھا، جو اس سال پراگ کے نیشنل تھیٹر میں اسٹیج کیا گیا اوربے حد مقبول ہوا۔ اس ڈرامے میں بھی کنڈیرا— نے کمیونزم کی آمریت کو ایک نرم انسانی جہت دینے کی کوشش کی تھی۔

سچ تو یہ ہےکہ 1950 کے وسط سے ہی میلان کنڈیرا کمیونسٹ چکوسلوواکیہ کی ایک بے حد مشہور مقبول اور اہم ادبی شخصیت بن گیا تھا۔ اس کے مضامین کی شہرت دور دور پھیل چکی تھی۔ 1955 میں اس کا ایک بے حداہم مضمون شائع ہوا جس کا عنوان آرگوئنگ اباؤٹ آور ان ہیریٹنس تھا۔ اس مضمون میں چیک کی ادبی وراثت اور یورپ کی آواں گارد شاعری،دونوں کا دفاع کیا گیا تھا۔

یورپ کی آواں گارد شاعری کی، ادعائیت پرست کمیونسٹ ادیبوں کے ذریعے بھر پور مذمت کی جاتی تھی مگر کنڈیرا کا موقف یہ تھا کہ یورپ کےآواں گارد یا زوال پرست شاعروں کے ان رجحانات یا عناصر کو قبول نہ کرتےہوئے جن سے ایک سچے سوشلسٹ آرٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان عناصرکو قبول کرنے میں ایک سوشلسٹ شاعر کو عار نہ ہونا چاہیے جن سے اس کےمقاصد کو تقویت ملتی ہو یا جو اس کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ہوں۔

یہی بات موسیقی اور مصوری پر بھی صادق آتی ہے۔ میلان کنڈیرا نے اپنے موقف کی حمایت میں لینن کا بھی حوالہ دیا، جس نے کہا تھا کہ صرف کٹر مادہ پرستوں نے ہی فلسفیانہ عینیت کو رد کیا تھا۔

سن 1960 میں میلان کنڈیرا کا ایک دوسرا اور طویل مضمون ‘دی آرٹ آف ناول: ولادیسلاو وینکورا جرنی ٹو دی گریٹ ایپک’کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون کو کنڈ یرا کی تحریروں میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔مضمون میں کنڈیرا نے چیک ادیب اور کمیونسٹ پارٹی کے ممبر ‘وینکورا’ کی تحریروں کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ مضمون مکالمے کی شکل میں ہے۔

کنڈیرا نے فکشن کے بیانہ میں نئے تجربوں کے متعلق تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ وینکورا کے حوالے سے کنڈیرا نے ناول میں نغمیت، غیر ضروری نفسیاتی تشریح اور بیانیاتی اسلوب کی مخالفت کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اچھے فکشن کو ڈرامائی تناؤ یا ٹکراؤ پرمبنی ہونا چاہیے۔

مگر آج میلان کنڈیرا—اپنی اس تحریر کو رد کرتا ہے۔ دراصل 1986میں اس نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب دی آرٹ آف ناول لکھ کر اس مضمون کے نکات کو ایک بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ 1986 کےمیلان کنڈیرا میں زیادہ پختگی ہے اور اس کا ذہن اب ان تمام بندشوں یا تعصبات سے آزاد ہو چکا ہے، جو اس کے اس ابتدائی دنوں میں کسی نہ کسی طور موجود تھے۔ اس کی وجہ اس کا کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہونا بھی سمجھاجانا چاہیے۔

مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ میلان کنڈیرا کے اس مضمون کو بے حدپذیرائی حاصل ہوئی۔ اسے چیکوسلوواکیہ کے دو اہم ادبی ایورڈ تفویض کیے گیے ۔ مضمون کو چیکوسلوواکیہ کے مارکسی ادب کا بہترین کارنامہ ماناگیا تھا۔

اب میلان کنڈیرا نہ صرف اس مضمون کو بلکہ اپنی تمام ان تحریروں کورد کرتا ہے۔ جو اس کی کہانیوں کے مجموعے لاف ایبل لووز (مضحکہ خیز محبتیں) سے پہلےکی ہیں۔لاف ایبل لووز کی پہلی کہانی کو ہی میلان کنڈیرا—اب اپنی پہلی تحریر مانتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ بطور ایک ادیب اس کی زندگی کی شروعات اس کہانی سے ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی اس کی نصف زندگی ایک گمنام چیک دانشور سے زیادہ اور کچھ نہیں تھی۔ لاف ایبل لووز کی کہانیاں 1958 سے 1968 کے درمیان لکھی گئی تھیں ۔

سن 1967 میں میلان کنڈیرا کا شاہکار ناول دی جوک  شائع ہوا۔ 1950 میں جب کنڈیرا کو کمیونسٹ پارٹی سے نکالا گیا تھا تو اس کےساتھ ہی ایک دوسرے چیک ادیب ژان تریفلکا کو بھی پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں باہر کر  دیا گیا تھا۔ اپنے ناول دی جوک میں کنڈیرا نے اس واقعے کو بیان کیا ہے۔ (خود تریفلکا بھی اپنے ناول ہپینیس رینڈ آن دیم میں اسے لکھ چکا تھا جو 1962 میں شائع ہوا تھا)۔

اگر1967 سے قبل کی میلان کنڈیرا کی تحریروں کا موازنہ اس کی بعد کی تحریروں سے کیا جائے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

دی جوک سے پہلے کی تحریروں کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ تو نکال سکتا ہے کہ ان کا مصنف ایک بے حد ذہین شخص ہے، مگر شاید ہی اسے یہ گمان ہو کہ یہ مصنف آگے آنے والے وقت میں دنیا کے عظیم اور اہم ترین ناول نگاروں کی صف میں شامل ہونے والا ہے۔

دی جوک کا شائع ہونا دراصل ایک تاریخ کا بننا تھا۔ دی جوک کے شائع ہونے کے بعد ساری دنیا میں میلان کنڈیراکی شہرت پھیل گئی، اس کی کہانیوں کے مجموعےلاف ایبل لوز کوبھی جو تقریباً اسی زمانے میں شائع ہوا تھا، بے حد سراہا گیا۔

کنڈیرا نے اس دور میں کمیونسٹ پارٹی میں اپنی شمولیت برقرار رکھی،مگر ہمیشہ کی طرح وہ پارٹی کی آمریت سے غیر مطمئن تھا۔ وہ پارٹی کی سرگرمیوں میں کچھ اصلاح یا ترمیم چاہتا تھا۔

اس مقصد کے لیے میلان کنڈیراتنہا ہی کوشاں نہ تھا اس کے ساتھ بہت سے کمیونسٹ ادیب ایسے تھے جوریفارمز چاہتے تھے مثلا ‘پاول کو ہوت’ جو 1968 کے’پراگ اسپرنگ’ میں میلان کنڈیرا کے ساتھ تھا مگر سدھار لانے کی ان سرگرمیوں کایہ بہت مختصر سا وقفہ ہی رہا اور اگست 1968 میں چیکوسلوواکیہ پر سویت روس کے حملے اور قبضے کے بعد تو ایسے ادیبوں کی تمام کوششوں کو کچل کر ہی رکھ دیاگیا۔

میلان کنڈیرا پھر بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنا چاہتا تھا۔ وہ چیکوسلوواکیہ کے کمیونزم میں ضروری ترمیمیں کیے جانے کا حامی تھا۔ اس نےاپنے دوست ادیب ویکلا و ہاویل سے کہا تھا کہ اس کاحوصلہ پست نہیں ہوا ہے اور یہ کہ’ پراگ کے موسم خزاں کی اہمیت آخر میں پراگ کے موسم بہار سے بڑی ثابت ہوگی۔’

‘پراگ اسپرنگ’ اصل میں اس تحریک کا نام تھا جو چیک کےکمیونزم میں ریفارمز چاہتی تھی۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی تھی تو اس میں ایک انقلابی جوش و خروش شامل تھا مگر سوویت روس کے حملے کے بعد یہ تحریک مٹ گئی اس کے بعد میلان کنڈیرا کا حوصلہ جو یوں شاید نہ بھی پست ہوتا مگریونیوسٹی سے اس کو نکال دیے جانے کے بعد اور پھر 1970 میں پارٹی سے بھی باہر کر دیے جانے کے بعد بری طرح پست ہو گیا۔

سن 1972 میں اس کا دوسرا ناول فیئرویل والٹز شائع ہوا جسےزیادہ شہرت نہ مل سکی۔ کچھ عرصے تک کنڈیرا پراگ کے موسم خزاں میں اپنےخواب دیکھتا رہا اور اس کی کتابوں کے لیے چیک کی تمام لائبریریوں کےدروازےبند کردیے گئے، یہی نہیں کسی پبلشر کو بھی اس کی کتاب چھاپنے کی آزادی نہ تھی۔

یہ دن کنڈیرا کے لیے بے حد پریشانی اور صدمے کے دن تھے۔فیئرویل والٹز کے بعد اس کا تیسرا ناول مکمل ہو چکا تھا، لیکن وہ اسےشائع کرانے سے معذور تھا۔ بہر حال یہ ناول جس کا عنوان’لائف از السویئر‘ تھا، پیرس سے 1973 میں شائع ہو گیا۔ اگر چہ اسے شائع کرانےمیں میلان کنڈیرا کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اب وقت آ گیا تھا، جب کنڈیرا کو اپنے خوابوں سے دستبردارہونا تھا۔ آخر 1975 میں اس نے پراگ کو خیر آباد کہا اور فرانس آکر رہنےلگا۔ رینیس کی یونیورسٹی میں اسے مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مقرر کرلیاگیا تھا۔

سن 1979 میں اسے چیکوسلوواکیہ کی شہریت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا کیوں کہ اس چوتھے ناول دی بک آف لافٹر اینڈ فارگیٹنگ میں جو کچھ لکھا گیا تھا، اسے چیکو سلوواکیہ کی حکومت برداشت ہی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ ناول 1978 میں شائع ہوا تھا اور اسے میلان کنڈیرا کی شہرہ آفاق تحریر کا درجہ حاصل ہے۔

سن 1981 میں میلان کنڈیرا نے فرانسیسی شہریت اختیار کر لی تھی۔

Milan-Kundera photo

§§§

زمانہ وہ تھا جسے پراگ کے موسم بہار کا نام دیاجاتا ہے۔ میلان کنڈیا کا پہلا ناول دی جوک  اور کہانیوں کا مجموعہ لاف ایبل لوز شائع ہو گئے تھے۔ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں اس کی یہ تصانیف فروخت ہو چکی تھیں۔ کنڈیرا چیکو سلوواکیہ کے کمیونزم میں ریفارم کرنے کی کوششوں سے حوصلہ نہیں بار رہا تھا مگر آہستہ آہستہ حالات بد سے بدترہوتے چلے گئے، روسی افواج کے چیکو سلو وا کیہ پر قبضے کے بعد میلان کنڈیرا کواپنی ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اس کی تمام کتابوں کو علمی اداروں اورعوامی لائبریریوں سے ہٹا دیا گیا۔

آخر ایک دن میلان کنڈیرا اور اس کی بیوی نے تھوڑی سی کتابیں اورکپڑوں کے کچھ جوڑے کار کے ٹرنک میں ڈالے اور فرانس چلے آئے۔ یہ کنڈیرا کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہی ثابت ہوئی کہ اس کا ضبط شده پاسپورٹ کچھ عرصے پہلے اسے واپس کر دیا گیا تھا۔

کنڈیرا اور سولنیسٹن جدید فکشن کی دنیا میں ڈکٹیٹر شپ کے مظالم اورانسانی حقوق کی پامالی کے موضوعات پر لکھنے والے دو سب سے اہم ناول نگارتسلیم کیے جاتے ہیں۔ سولنیسٹن کو جلا وطنی کے زمانے میں سوویت روس میں بے حد احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا مگر یہی بات کنڈیرا کے لیے نہیں کہی جاسکتی۔ چیکو سلوواکیہ میں اسے اتنا احترام نہیں ملا جتنا باقی تمام دنیا میں اسےحاصل ہوا ۔

یہ حیرت انگیز ہے کہ بین الاقوامی شہرت کے مالک کنڈیرا کو اس کےاپنے ملک میں بہت زیادہ قدر اور عزت سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ایک ‘چیک’ نہیں محسوس کرتا ہے۔ وہ خود کو’یورپین’ محسوس کرتا ہے۔ مشہور امریکی ادیب فلپ راتھ نے  30 نومبر1980 کو میلان کنڈیرا سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو کی اہمیت اس بات سے ہے کہ دو بڑے ناول نگار دنیا کے اہم مسائل پر تبادلہ خیالات کرتےنظرآتے ہیں ۔ میلان کنڈیرا کے خیالات اس انٹرویو میں بہت کھل کر سامنےآتے ہیں۔ ذیل میں میلان کنڈیرا کے جن افکار پرگفتگو کی جارہی ہے وہ زیادہ تر اسی انٹرویو سے مستعار ہے۔

فلپ راتھ کا کہنا تھا کہ میلان کنڈیرا کےناولوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا جلد ہی تباہ ہونے والی ہے۔

میلان کنڈ یرا کا جواب تھا کہ یہ احساس بہت قدیم ہے اور اگرکوئی احساس یاخیال اتنے زمانے سے انسان کے ذہن میں رہا ہے تو اس کی کوئی حقیقت تو ضرور ہوگی۔

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ چیکوسلوواکیہ پر روسی فوج کےحملے اور قبضے نے میلان کنڈیرا کی شخصیت پر گہرے اثرات قائم کیے ہیں۔

میلان کنڈیرا بار بار یہ کہتا ہے کہ 1968 میں روسیوں کے حملے کے بعد ہرچیک شہری کے سامنے یہ اندیشہ موجود تھا کہ اُس کا ملک یا اس کی قوم یورپ کے نقشے سے اچانک اور غیر محسوس طریقے سے غائب نہ ہو جائے۔ آخر پچھلی نصف صدی میں 40 ملین یوکرینین لوگ اچانک دنیا سے غائب ہو گئے تھےاور دنیا نے اس کا نوٹس تک نہ لیا۔ یہی صورت حال لتھوینیا کی بھی رہی ہے جو ستر ہویں صدی میں ایک بے حد طاقتور یورپی قوم تھی اور آج روسی انھیں کسی وحشی اور معدوم ہوتے ہوئے قبیلے کے بطور رکھے ہوئے ہیں اور یہ کام روسیوں نے اپنے ریزرویشنز یعنی اپنی شرائط پر کیا ہے۔

کنڈیرا کاخیال ہے کہ اسے تو پورا یورپ ہی اب بہت کمزور اور مٹ جانے والا محسوس ہوتا ہے۔ فلپ راتھ نے پوچھا تھا کہ فرانس میں ایک مہاجر کی حیثیت سےکنڈیرا کو کیا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کنڈیرا نے ایک بہت پتےکی بات کہی ہے کہ پراگ میں پیش آنے والے واقعات کو مغربی یورپ کی آنکھ کے ذریعے دیکھا گیا ہے مگر اس کے الٹ فرانس میں جو ہو رہا ہے اسےپراگ کے زاویہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔یہ دو دنیاؤں کا ٹکراؤ ہے۔

ایک طرف میرا ملک ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس ملک نے جمہوریت فاشزم، انقلاب، اسٹالن کی دہشت گردی سب کچھ دیکھ لی ہے۔ یہی نہیں اس ملک نے بعد میں اسٹالنزم کا بکھراؤ، جرمنی کا قبضہ اور پھر روسی افواج کا قبضہ اوربڑے پیمانے پر جلاوطنی کے تماشے بھی دیکھے۔ مغرب کو اپنے ہی گہوارے میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اس لیے یہ ملک تاریخ کے بوجھ سے دب کر رہ گیا ہے۔یہ ڈوب رہا ہے اور دنیا کی طرف سوائے تشکیک کی نظر سے دیکھنے کے کچھ اورنہیں کر سکتا۔

مگر دوسری طرف فرانس ہے۔ صدیوں سے وہ دنیا کا مرکز رہا ہے، مگرآج بڑے تاریخی واقعات کے لیے ترس رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس آج انتہا پسندانہ غیر عملی تصورات اور غنائیت کا مارا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ کسی عظیم واقعے کی تمنا میں گرفتار ہے۔ اسی کا انتظار کر رہا ہے مگر وہ واقعہ ہو کر نہیں ہوتااور نہ شاید کبھی ہوگا۔

مگر کنڈ یرا یہ بھی قبول کرتا ہے کہ وہ فرانسیسی کلچر کا بے حد گرویدہ ہےاور اس کے ادبیوں کا احسان مند بھی۔ فرانس کے ادبیوں میں رےبیل اُسے سب زیادہ پسند ہے اور دید روبھی۔ کنڈ یرا دیدرو کی تصنیف جیکس دی فیٹلسٹ کا اتنا قائل ہے کہ اس ناول پر اس نے اپنا ڈرامہ جیکس اینڈ ہز ماسٹر لکھ ڈالا ۔ اس ناول کو ‘لارنس اسٹرن’ کے ناول ٹراسٹم شینڈی، کے ساتھ رکھتے ہوئے کنڈیرا تاریخ کے عظیم ترین تجربے کا نام دیتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ خود فرانس کے ادب نے ان عظیم تجربوں کو فراموش کردیا ہے۔ لارنس اسٹرن اور دید رو دونوں نے ناول کوایک بھر پور کھیل کی طرح برتا ہے۔ ناول کی فارم میں ان دونوں نے مزاح کے عنصر کو دریافت کیا ہے۔

کنڈیرا کا بیان ہے کہ اسٹالنی دہشت کے زمانے میں وہ پہلی بارمزاح کی اہمیت سے آگاہ ہوا۔ مسکراہٹ کے صرف ایک انداز سے وہ یہ سمجھ سکتا تھا کہ کون سا شخص اسٹالن کی آئیڈیالوجی کا پیروکار ہے اور کون نہیں، یعنی حس مزاح کسی آدمی کی شناخت کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بن گئی تھی کنڈیرا کواُس دنیا سے ہول آتا ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ اپنی حس مزاح کو کھوتی جارہی ہے۔

ڈکٹیٹر شپ جہنم ہی نہیں ہے بلکہ جنت کا خواب بھی ہے ایک قسم کایوٹو پیا، ایک خواب کہ ہر شخص مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اس دنیا میں رہے گا۔آندرے بریتون کی آرزو تھی کہ وہ شیشے کے گھر میں جاکر بس جائے۔ دراصل ڈکٹیٹر شپ انسان کے باطن میں پائے جانے والے آرکی ٹائپ سے تشکیل پاتی ہے اسی لیےانسانوں کی اتنی بڑی تعداد اس میں شامل ہو جاتی ہے۔

کنڈیرا نے فرانس کے بڑے شاعر پال الیار پر سخت گرفت کی ہے اور اسے ‘آمریت کا شاعر’قرار دیا ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کےبعدپال الیارسر ریئلزم سے تو بہ کر کے ایسی  شاعری کرنے لگ گیا جس میں اخوت، انصاف، مستقبل اور امن کی باتیں ہوتی تھیں۔ وہ کامریڈ شپ کے بھی حق میں تھا۔ کلبیت کے خلاف تھا اور معصومیت کے حق میں تھا، مگر1950 میں جب آمر حکمرانوں نے اُس کے پراگ کے ہمزاد زاویس کلاند را( جو ایک سریلسٹ شاعر تھا ) کے خلاف پھانسی کی سزا کا حکم سنایاتو الیار نے اپنے ہم مشرب کے جذبات کو آدرشوں کی خاطر قابل اعتنا نہ سمجھ کر پھانسی کے اس حکم نامے پر اپنی پسندیدگی کےدستخط کیے۔ جلاد نےپھانسی دی اور ہمارا شاعر نغمے سناتا رہا۔

میلان کنڈیرا عمیق غور و فکر اور باریک بینی کے ساتھ کیے گئےمشاہدے کے ساتھ اس چونکا دینے والے نتیجے تک پہنچا ہے کہ اسٹالنی دہشت گردی کا مکمل دور در اصل ایک اجتماعی اور غنائیت سے بھرا ہوا ہذیان تھا۔ لوگ برابر کہتے رہتے ہیں کہ انقلاب بڑی خوبصورت چیز ہے۔ جو دہشت اس سے پیدا ہوتی ہے وہ ضرور برائی ہے۔ مگر یہ ایک رومانوی اور غنائی رویہ ہے۔ ہر حسن میں برائی پہلے سے موجود ہے۔ جنت کے خواب میں جہنم ابتداسے موجود ہے۔ آمریت کا عہد جنت سے گزرتا ہوا ‘گولاگ’تک آپہنچتا ہے۔

مگر آمریت کے عہد کی اس شاعری کو رد کرنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے،جتنا پہلے تھا۔ اگر چہ اب ساری دنیا ‘گولاگ’ کے تصور کو رد کرتی ہے، مگراُس شاعری سے لطف اندوز اور اثر پذیر ہوتی رہتی ہے جسے میں ‘آمریت کی شاعری’ کا نام دیتا ہوں۔ میلان کنڈیرا کی فکر کی یہ نہج جتنی بصیرت آمیز ہےاتنی  ہی بے رحم بھی۔

فلپ راتھ کا خیال تھا کہ میلان کنڈیرا کی نثر سیاست کی تحلیل نفسی کے فرائض بھی انجام دیتی ہے اور یہ حقیقت ہے کیوں کہ کنڈیراکے مطابق سیاسی واقعات بھی انھیں قوانین کے پابند ہیں جن کے انسان کےنجی واقعات یہی  نہیں بلکہ انسان کی مابعد الطبیعیاتی زندگی میں وہی سب پایا جاتاہے جو اُس کی عوامی زندگی میں۔ انسان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ موت ہے کیوں کہ موت ‘ذات ‘کا انہدام کردیتی ہے مگر آخر یہ ‘ذات’ ہے کیا؟

اصل میں موت سے ہم اس لیے خوف کھاتے ہیں کہ ہمارا ماضی ختم ہو جائے گایعنی ہمیں مستقبل کے تلف ہو جانے کا ڈر نہیں ہے۔ ‘فراموشی’موت کی ایک شکل ہی ہے۔ یہی کام ایک بڑی طاقت بھی کرتی ہے۔ وہ اپنی طاقت کے بل پر ایک چھوٹے سے ملک کو اس کے قومی شعور سے محروم کر دینا چاہتی ہے۔ یعنی فراموشی سیاست کا بھی ایک مسئلہ ہے۔

معاصر چیک ادب کو ابھی تک شائع نہیں کیا جارہا ہے۔ دوسو چیک ادیب ایسے ہیں جن کی تحریروں کی اشاعت پرپابندی ہے۔’ کا فکا’جیسا عظیم ادیب بھی ان میں شامل ہے۔ 145 چیک مؤرخوں سے اُن کے عہدے چھین لیے گئے  ہیں۔ تاریخ کو دوبارہ لکھا جارہاہے۔ تاریخی یادگاروں کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔ نتیجہ صاف ہے۔ ایک قوم جب اپنے ماضی کا ہی شعور کھو دے گی تو آہستہ آہستہ اپنی ذات کے عرفان سے بھی بیگانہ ہو جائے گی۔

فلسفہ وجودیت والے کچھ بھی کہتے رہیں۔ سیاست ذاتی زندگی کی میٹافزکس کے اوپر سے پردہ ہٹاتی ہے اور ذاتی زندگی سیاست کی۔

اس لیے آمریت کی دنیا،(خواہ وہ مارکس کے نظریے پر مبنی ہو یااسلام کے ) میں جواب ہی جواب ہیں۔ سوال کوئی نہیں جوابوں سے بھری آمریت کی ایسی دنیا میں ناول کے لیے بھلا کوئی گنجائش کیسے پیدا ہوسکتی ہے۔ ناول کی آواز کو انسانی ایقانات کی بلند آہنگ حماقت کے اوپر سننا شایدممکن نہیں ۔

سن 1985 میں میلان کنڈیرا نے اولگا کارلیسیل کو ایک انٹرویو دیا تھا۔ اس انٹریو میں بھی میلان کنڈیرا نے چند اہم مسائل اور واقعات کےحوالے سے بڑے اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ حالاں کہ جگہ جگہ اس کےیہاں ایک ہی بات کی تکرار بھی ملتی ہے۔ اس انٹرویو میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میلان کنڈیرا پہلے بھی تفصیل کے ساتھ گفتگو کرچکا ہے۔

اولگا کارلیسیل کا بیان ہے کہ کنڈیرا شروع شروع میں اُس سےبات چیت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ میلان کنڈیرا اپنی ذاتی اور نجی زندگی کےبارے میں بات کرنا بالکل پسند نہیں کرتا ہے۔ فلپ راتھ سے میلان کنڈیرانے ایک بار کہا تھا کہ؛

‘جب میں نیکر پہنے ہوئے ایک چھوٹا بچہ ہوا کرتا تھا، تب ہی سے میں کسی ایسے لیپ کا خواب دیکھا کرتا تھا جسےجسم پر لگا کر میں ناقابل دید بن جاؤں۔ پھر میں بالغ ہوا، لکھنے لگا اور کامیاب ہونا چاہا، اب میں کامیاب ہوں اور وہ لیپ حاصل کرنا چاہتا ہوں جو مجھے دنیاکی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکے ۔’

وہ اولگا  سے بادل نخواستہ گفتگو کرنے کے لیے تیار ہوا۔وہ بھی شاید اس سے کہ وہ ‘اولگا’ کے دادا کی حیثیت سے واقف ہو گیا تھا۔’اولگا’ کے دادا ‘لیوند ایندریف’ روس کے مشہور ڈرامہ نگار تھے۔ کنڈیرا نےاپنے جوانی کے دنوں میں انھیں پڑھا تھا اور پسند بھی کیا تھا۔ پھر بھی اُسےہمیشہ سے ہی ‘روس’سے بدگمانی رہی تھی۔اس لیے کنڈیرا نے اولگا کو پہلے ہی سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ صرف ادب کے موضوع پرگفتگو کر سکتا ہے۔ اپنے بارے میں یا اپنی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا اس کے مزاج کے خلاف ہے۔

کنڈیرا نے بتایا کہ اب وہ فرانس کو ہی اپنا وطن مانتا ہے۔ ‘میں اب یہاں خود کو مہاجر محسوس نہیں کرتا ۔’ کنڈیرا نے ناول کے فن پر اپنی تینوں کتابیں فرانسیسی زبان میں ہی لکھی ہیں۔ شروع شروع میں وہ یہ چاہتا تھا کہ ناول’چیک’ زبان میں ہی لکھے کیوں کہ اس کی زندگی کے تجربات، یادیں اور تخیل سب کچھ پراگ سےوابستہ تھا مگر اپنے ناول امورٹیلیٹی(بقائے دوام) کے بعد اس نے جو تین ناول لکھےہیں وہ بھی فرانسیسی زبان میں ہی ہیں۔

روسی ادب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کنڈ یرا نے کہا کہ اسےٹالسٹائی بہت زیادہ پسند ہے۔ ٹالسٹائی دستوفسکی سے کئی گنا زیادہ ماڈرن ہے۔ ٹالسٹائی وہ پہلا ادیب ہے جس نے انسانی سرشت میں ارریشنل کے عنصر کو گرفت میں لیا ہے۔

‘اننا کرنیا’ کے تعلق سے کنڈیرا کا کہنا ہے کہ اُس کی خود کشی اور خودکشی سے پہلے اس کے ذہن میں گونجتی ہوئی آواز یں دراصل شعور کی رو اور داخلی خودکلامیوں کے سلسلے سے تعبیر کی جاسکتی ہیں اور اسی طرح یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگاکہ’داخلی خود کلامیوں’ کو جو ائس سے پہلے ٹالسٹائی نے بھر پور تخلیقیت کے ساتھ اپنے ناول میں استعمال کیا تھا۔

اپنے ناول د ی بک آف لافٹر اینڈ فار گیٹنگ میں میلان کنڈیرا نے اپنے والد کا گہری انسیت کےساتھ ذکر کیا ہے۔ کنڈیرا کے والد’ لڈوک کنڈ یرا’ جدید موسیقار تھے۔وہ کنسرٹ ہال میں جب بھی اپنی مشکل موسیقی پیش کرتے تھے تو کنسرٹ ہال تقریباً  خالی رہا کرتے تھے۔میلان کنڈیرا کے لیےیہ بہت تکلیف دہ یادوں میں سے ایک ہے۔ اسے اُس عوام سے نفرت ہوگئی جو ایگور سٹراونسکی کو سننے سے انکار کرتی تھی اور پیوٹر ایلیچ چائکوفسکی یاوولف گینگ موزارٹ پر اپنا سر دھنتی تھی۔

جدید آرٹ کے تئیں میلان کنڈیرا کا رجحان اس لیے اور بھی زیادہ قوی تر ہوتا چلا گیا۔ مگر اُس نے موسیقار بننے سے انکارکر دیا۔ کنڈیرا کو موسیقی سے بہت لگاؤ رہا ہے مگر شاید چند نفسیاتی وجوہات کی بناپر وہ موسیقاروں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اپنے والد کی اعلیٰ اور ماڈرن موسیقی کوجس طرح نظر انداز کیا گیا۔ اسے وہ کبھی نہیں بھول سکا۔

کنڈیرا کا بیان ہے کہ جب وہ اور اُس کی بیوی چیکوسلووا کیہ چھوڑ کرجارہے تھے تو وہ اپنے ساتھ صرف چند ہی کتابیں لے جاسکتے تھے۔ ان کتابوں میں سے ایک جان اپڈائيک کی کتاب دی سینٹور بھی تھی جس نے میلان کنڈیرا پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے کیوں کہ اس کتاب میں ایک شکست خوردہ اور ‘بے عزت’ کیے گئے باپ کے تئیں ایک کرب انگیز محبت کا بیان تھا۔

اولگا نے کنڈیرا سے ایک اہم سوال پوچھا تھا کہ بچوں کے حوالے سے اس کے نالوں میں عجیب و غریب بیانات پائے جاتے ہیں۔کیا بچوں سے اسے کسی قسم کی شکایت ہے جبکہ جانوروں کے تئیں (بچوں سے زیادہ) وہ زیادہ نرم نظر آتا ہے؟

کنڈیرا نے اس کا جو جواب دیا تھا وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے غیر متوقع اور انوکھا ہے۔ بقول کنڈیرا’یہاں فرانس میں (اوردوسرے ممالک میں بھی ) الیکشن سے پہلے ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے پوسٹر نکالتی ہے اور ہر پوسٹر میں ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔’ مستقبل ایک بہتر مستقبل کا نعرہ۔’اور ہر جگہ پوسٹروں میں مسکراتے ہوئے ، دوڑتے ہوئے اور کھیلتے ہوئے بچوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔

مگر افسوس ہم انسانوں کا مستقبل بچپن نہیں ہے بلکہ بڑھایا ہے۔معاشرے کی حقیقی انسانیت ضعیفی کے تئیں اس کے رویے سے آشکار ہوتی ہےمگر یہ بڑھا پا، وہ یقینی مستقبل جس کا ہم میں سے ہر ایک کو سامنا کرنا پڑےگا، کسی بھی پرو پیگنڈے کے پوسٹر میں( بائیں بازو یا دائیں بازو والے) نہیں دکھایا جاتا ۔

یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ میلان کنڈیرا کو دائیں بازو یا بائیں بازو کے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کنڈ یرا دنیا کے لیے جو سب سےبڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ آمری حکومت کا وجود ہے۔خمینی، ماؤ، اسٹالن یہ سب کون ہیں؟ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کیا معنی رکھتا ہے ؟

آمریت نہ دائیں ہے نہ بائیں اور اس کی حکومت میں دونوں نظریات پھل پھول سکتے ہیں۔

میلان کنڈ یرا کہتا ہے کہ وہ مذہبی آدمی کبھی نہیں رہا مگر اسٹالنی دہشت گردی کے دور میں چیکوسلواکیہ کے کیتھو لکوں پر جس بے رحمی کے ساتھ مقد مے دائر کیے گئے، ان کی بنا پر وہ ان سے ایک ہم آہنگی محسوس کرنے لگا۔پراگ میں انھوں نے سوشلسٹوں اور پادریوں کو پھانسی پر چڑھایا اور اس طرح ان پھانسی چڑھنے والوں میں ایک بھائی چارہ پیدا ہوا۔

میلان کنڈ یرا اس بات کو قبول نہیں کرتا ہے کہ ظلم اور جبر و استحصال آرٹ اور ادب میں ایک نئی زندگی پھونکتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ محض ایک رومانی رویہ ہے، جبر و استحصال کسی بھی کلچر کو مکمل طور پر تباہ کردیتا ہے۔کلچر کوہمیشہ ایک عوامی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور آزاد تبادلۂ خیالات کی۔ کلچر کو اشاعتی ادارے چاہیے۔ بحث و مباحثے چاہیے اور کھلا پن چاہیے۔ کچھ عر صےتک آمری دور حکومت میں کلچر زندہ رہ سکتا ہے مگر طویل عرصے تک نہیں۔

سن 1968 میں روس کے حملے کے بعد تقریباً تمام چیک ادب کو ممنوع قرار دے دیاگیا۔ تہذیبی زندگی کی آزاد فضا کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ مگر پھر بھی 1970 تک چیک ادب شاندار بنا رہا۔گروسا، ہربل اسی زمانے

کے نثر نگار ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا مگر اس کے بعد ؟ آخر کب تک ادب انڈر گراؤنڈ میں زندہ رہ سکتا ہے یورپ کے سامنے ایسےحالات پہلے کبھی نہیں آئے۔ کنڈ یرا اپنے ملک کے حوالے سے مطلق مایوسی کااظہار کرتا ہے۔

اس نے یہ بھی کہا کہ سیاسی جبر ناول کے لیے بھی بہت خطر ناک ہے۔ یہ سنسرشپ اور پولیس سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ سیاسی جبر اخلاقیات کا بیڑہ اٹھانے کی بھی اداکاری کرتا ہے۔ وہ خیر و شر کو دوالگ الگ خانوں میں بانٹ دیتا ہے۔ دونوں کی سرحد یہ یہاں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ اس لیے ناول نگار اپنا منصب بھول کر خیر و صداقت کی تبلیغ کرنےلگتا ہے۔ وہ لالچ میں پڑ جاتا ہے جبکہ ناول نگار کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ‘سچ’ کی تبلیغ کرے اس کا کام ‘سچ’ کو دریافت کرنا ہے۔

وسطی یورپ کے حوالے سے تو یہ اور بھی زیادہ سچ ہے کیوں کہ چنداقدارایسی ہیں جو کم از کم اس خطے میں تنقید کا نشانہ کبھی نہیں بنائی جاسکتیں۔مثال کے طور پر نوجوانی کو عمر کا ایک پڑاؤ نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک قدر کا درجہ حاصل ہے۔ سیاست داں جب بھی اس لفظ (یوتھ ) کوادا کرتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک احمقانہ مسکراہٹ رقص کرنے لگتی ۔

مگر کنڈیرا کا کہنا ہے کہ جب وہ جوان تھا اور خوف و دہشت کے عہد میں رہتا تھا تب وہ نوجوان ہی تھے جو کہ دہشت گردی کا دفاع کرتے تھے اور اسےپھیلانے میں مدد کرتے تھے۔ اس کا سبب نوجوانوں کی ناتجربہ کاری، ناپختہ ذہنی اور اخلاقیات کے ایک کچے پکے تصور کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ ساتھ ان نوجوانوں کی غنائی شاعری (لیریکل پوئٹری) تھی۔

میلان کنڈیرا نے اس موضوع پر اپنا ناول لائف از السویئرکے نام سے تحریر کیا ہے۔ اسٹالینی دہشت گردی کے زمانے میں شاعری کا ایڈونچر شاعری کی مسکراہٹ، معصومیت کی خونی مسکراہٹ۔

بقول کنڈ یرا شاعری بھی ہمارے معاشرے میں ایک ایسی قدرہے جس پر آپ انگلی نہیں اٹھا سکتے۔

فرانس کے کمیونسٹ شاعرپال الیار کی مثال سامنے ہے جس نے پراگ کے ادیب اور اپنے دوست کلاندرا کی پھانسی کی سزاپر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

کنڈیرا کے ان خیالات کا علم ہونے کے بعد ہمیں اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اسے ذاتی زندگی میں کسی کی بھی مداخلت پسند نہیں ہے۔ جو شخص کسی کی نجی زندگی میں تاک جھانک کرتا ہے۔ اس سے زیادہ بھیا نک گنہگاراور کوئی نہیں ہو سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ میلان کنڈ یرا کے ناولوں اور کہانیوں کےکرداروں میں اس کی اپنی سوانح کا کوئی سراغ یا کوئی عنصر سرے سے ناپیدہے، کنڈیرا کو فکشن میں سوانحی مواد شامل کرنے سے سخت نفرت ہے مگر شاید اس کا ازالہ وہ اس طرح کرتا رہتا ہے کہ اپنے ناولوں میں بحیثیت مصنف، اپنےتخلیق کردہ کرداروں کے اعمال اور حرکات وسکنات کا تجزیہ کرنے کے مقصدسے وہ وہاں ہمیشہ موجود ہے۔

بہر نوع، کنڈ یرا کے خیال کے مطابق اس شخص کی زندگی جہنم ہے جوہمہ وقت دوسروں کی نظروں کا مرکز بنا رہے اور ایک آمری حکومت میں یہی سب ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ نہ محبت اور نہ دوستی اور’ ناول’؟

ناول مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ اس کے لکھنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہ  جاتا۔

جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ کنڈ یرا کو انٹرویو دنیا پسند نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انٹرویو لینے والے اکثر اس کی نجی زندگی کے بارےمیں سوال پوچھنا چاہتے ہیں اور کنڈ یرا اپنی نجی زندگی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

دوسری وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اکثر صحافیوں نے اس کے الفاظ کو توڑمروڑ کر پیش کیا ہے جس کی وجہ سے کنڈیرا کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑاہے۔ اس لیے کنڈیرا نے کسی کو انٹرویو دینے کے لیے، اپنے انٹرویو پر کاپی رائٹ کی شرط عائد کر دی ہے۔

سن 1989 میں لوئس اوپن ہئیم کو اپنا انٹرویو دیتے وقت میلان کنڈیرا نے بعض جرنلسٹوں کی اس غیر مناسب حرکت کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

اس گفتگو کے دوران ایک دلچسپ امر یہ بھی سامنے آیا کہ کنڈ یرا جتنے ناول نگاروں کا ذکر کرتا ہے وہ سب مرد ہیں۔ وہ کسی بھی خاتون ناول نگار کا ذکرنہیں کرتا۔

کنڈیرا کا جواب تھا (جو کم دلچسپ نہ تھا) کہ اسے ناول کے اپنےسیکس (جینڈر) میں دلچسپی ہے ناول نگار کے سیکس میں نہیں۔ بقول کنڈ یراہر بڑا ناول بائی سیکچوئل ( دوہری جنس) ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ناول،عورت اور مرد دونوں کی کائنات اور دونوں کے وژن کا اظہار کرتا ہے۔ ناول کا مصنف مرد ہے یا عورت، یہ اس کا نجی معاملہ ہے۔

میلان کنڈیرا—اپنی غیر افسانوی تحریروں میں دی آرٹ آف ناول  کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ ناول کےبارے اس کتاب میں اُس کے قطعی ذاتی اور خالص خیالات پائے جاتےہیں ۔ میلان کنڈیرا کے انگریزی متر جم نے اس کتاب کانام بدل کر اس کے آخری باب کا نام— مین تھنکس گاڈ لافز رکھنے کی صلاح دی تھی مگر میلان کنڈیرا نے ذاتی اورجذباتی وجوہ کی بنا پر اس صلاح پر عمل نہیں کیا۔ اسی طرح کنڈیرا اپنی کہانیوں کے مجموعےلاف ایبل لوز کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ذاتی طور پریہ کتاب اُس کی سب سے زیادہ پسندیدہ کتاب ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں شامل کہانیوں کے ذریعے اُس نے پہلی بار اپنے آپ کو ایک ادیب اور تخلیق کار کی حیثیت سے دیکھا اور اپنی تخلیق کی مسرت سے سرشارہوا۔ اس سے پہلے اُس نے موسیقار اور شاعر کی حیثیت سے بھی خود کوپہچاننے کی کوشش کی تھی مگر لاف ایبل لوز لکھنے کے بعد اُس نے’پنے آپ کو پالیا’ ۔ اُسے اپنے نثر نگار اور فلشن نگار ہونے کا انکشاف ہوا۔ آج کنڈیرا خود کو سوائے ایک نثر نگار، ایک فکشن نگار یا ایک ناول نگارہونے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا۔ لاف ایبل لوز سے پہلے کی اپنی تخلیقی زندگی سے اُس نے خود کو پوری طرح دستبردار کر لیا ہے۔

تمام بین الاقوامی شہرت اور پذیرائی کے باوجود ‘چیک ری پبلک’ میں کنڈیرا کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہے جو چیکوسلوواکیہ سے باہر ہے۔

ان کے ایک ناقدتومس کے خیال میں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جلاوطنی کےزمانے میں میلان کنڈیرا نے اپنی تحریروں کو خفیہ طور پر کمیونسٹ چیک میں پہنچانے سے انکار کر دیا تھا۔تومس کا کہنا ہے کہ مگر یہ اقدام اُس نے خالص فنکارانہ اصولوں کے تحت اٹھایا تھا کیونکہ ہمیشہ سے ہی میلان کنڈیرااپنی تحریروں کو اشاعت میں جانے سے پہلے اپنی نگرانی میں اُن کا ایک ایک لفظ پڑھنے کا عادی رہا ہے۔ زبان کو جس تخلیقی جہت کے ساتھ وہ استعمال کرنے کاعادی رہا ہے۔ اُسے دیکھتے ہوئے کنڈیرا کا یہ اقدام فطری نظر آتا ہے۔

آہستہ آہستہ کنڈیرا نے بعض وجوہات کی بنا پر اپنے چیک مترجموں سے بالکل ہی رشتہ توڑ لیا۔ فرانسیسی زبان میں لکھے گئے اُس کے ناول مثلاًآئیڈنٹٹی، اگنورینس اور سلونیس کے چیک ترجموں کو اُس نے رکوا دیا ۔تومس  کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیک کی ریڈر شپ دُنیا کی وہ اکیلی ریڈرشپ ہے جسے جدید ترین ناول اور مضامین پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے۔ میلان کنڈیرا نے جب چیک میں لکھناہی بند کر دیا اور صرف فرانسیسی زبان میں ہی لکھنے لگا تو اس قسم کی صورت حال کو اور بڑھاوا ملا یعنی چیک میں میلان کنڈیرا کی مقبولیت میں لگاتار کمی واقع ہوتی گئی۔ میلان کنڈیرا نے ایک بار یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اُس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اُس کے ناولوں یا دیگر تحریروں کا چیک زبان میں ترجمہ کرے۔

غور کیا جائے تو میلان کنڈیرا کے اندر کے ناول نگار کے ساتھ یہ سب بڑا ڈرامائی سا محسوس ہوتا ہے۔ چیک زبان کا ادیب ایسے حالات سےگزرتا ہے کہ اُسے اپنی مادری زبان میں ہی لکھنا بند کرنا پڑتا ہے اور وہ ایک یووپین زبان میں خوشی خوشی (یا مجبوری کے تحت، غصے اور انتظام کے تحت؟)لکھنا شروع کردیتا ہے۔ جلاوطنی کے زمانے میں اُسے اپنے ملک سے کوئی رومانی اور لجلجے قسم کا لگاؤ نہیں پیدا ہوتا۔ وہ خود کو یورپین محسوس کرنے لگتاہے۔ کلائمکس یہ ہے کہ وہ اپنی مادری زبان ‘چیک’ میں اپنے ناولوں اورمضامین کے ترجمے بھی رکوا دیتا ہے۔

یہ سب انسانی زندگی کے ساتھ پیش آنے والا ایک ڈرامہ نہیں ہے توکیا ہے۔ کنڈیرا اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی سراغ دے یا نہیں مگر راقم الحروف کے خیال میں ‘میلان کنڈیرا’کے نام سے صرف اسی صورت حال کے حوالے سے ایک ڈرامہ تو اسٹیج کیا ہی جا سکتا ہے۔ میلان کنڈیرا کے ساتھ ایک اور ستم ظریفی بھی ہوئی ہے جس کا یہاں ذکر کرنا نا مناسب نہ ہوگا۔

تیرہ  اکتوبر 2008 کوریسپیکٹ نام کے چیک ہفتہ وار اخبار نےچیک کےانسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف ٹولیٹرین ریجیمزکے ذریعےجاری کی گئی ایک تفتیشی رپورٹ اہتمام کے ساتھ شائع کی، جس میں میلان کنڈیرا پر پولیس کی مخبری کا الزام لگایا گیا تھا۔ بات 1950 کی تھی۔ ایک چیک پائلٹ چیکوسلوواکیہ سے فرار ہو گیا تھا اورکچھ عرصے بعد مغربی دنیا کا جاسوس بن کر واپس ‘خفیہ طور پر’ چیک آگیا تھا۔

وہ اپنے ایک دوست کی سابقہ محبوبہ (جو طالبعلموں کی ایک’ ڈور میٹری’ کی مالک تھی) کے ہاسٹل میں آکر ٹھہرا تھا۔ اس زمانے میں اس  کا اپنے ایک ہم جماعت سے معاشقہ چل رہا تھا۔( بعد میں دونوں نے شادی بھی کر لی تھی)۔ اس نے اپنے ہم جماعت کواس چیک پائلٹ کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی میلان کنڈیرا سے دوستی تھی اور اُس نے یہ بات کنڈیرا کو بتا دی تھی۔ پولیس کی رپورٹ کے مطابق میلان کنڈیرا (اُس وقت ایک طالبعلم) نے چیک پائلٹ کے بارے میں تمام معلومات پولیس کو بہم پہنچائیں اور بالآخراس کو گرفتار کر لیا گیا۔کمیونسٹ آمری عدالت نے اُسے موت کی سزا سنائی مگر بعد میں اُسے بائیس سال کی عمرقید میں بدل دیا گیا تھا۔ جس میں سے چودہ سال اسے کمیونسٹ لیبر کیمپ میں گزارنا پڑے۔

اخبار میں اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔14 اکتوبر 2008 کو میلان کنڈیرا نے ریڈیو پر انٹرویو دیتے ہوئےاس الزام کی تردید کی۔ اس نے کہا کہ وہ نہ تواس کو جانتا تھا اور نہ اُس کے حافظے میں کسی  ایسی لڑکی کا نام موجود ہے۔ کنڈیرا نے اس رپورٹ کی تحقیق کرنے والے ایڈم ہراڈیلیک (جس نے اسے ہفتہ وارریسپیکٹ میں شائع کرایا تھا) کی مذمت کرتے ہوئے اُس کے اس اقدام کو ‘میلان کنڈیرا’  کی کردار کشی بتایا۔ کیوں کہ یہ رپورٹ ٹھیک اُس وقت شائع ہوئی جب جرمنی میں مشہور ادبی میلےیعنی فرینک فرٹ کا پہلا دن تھا اور دنیا کے تمام ادیب ہمیشہ کی طرح وہاں اکٹھا ہو رہے تھے۔ واضح ہو کہ ساری دُنیا میں فرینک فرٹ سے بڑا کوئی ادبی میلہ نہیں ہوتا۔

بہر حال یہ تنازعہ چلتا رہا اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا بعد میں معلوم ہوا کہ اصل مخبرکوئی اور  تھا۔

بہر حال پولیس ریکارڈ میں میلان کنڈیرا کا نام بطور ایک انفارمرموجود ہے۔

غور کرنے کی بات واقعی یہ ہے کہ چیک ہفتہ وار میں یہ رپورٹ اُس وقت کیوں شائع ہوئی جب فرینک فرٹ ادبی میلے کا انعقاد ہونے جا رہا تھا۔

کیا اس کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ میلان کنڈ یرا کو ایک ادیب کی حیثیت سےمنافق ثابت کیا جائے اور اُس کی امیج کو بگاڑ کر رکھ دیا جائے کیوں کہ اپنےناولوں اور مضامین میں وہ ہمیشہ آمریت کے خلاف لکھتا آیا ہے اور بطور ایک ناول نگار اُس کی سب سے بڑی پہچان اس موضوع پر تواتر سے لکھتے رہنےکے باعث ہی قائم ہوئی ہے۔ لہذا اگر یہ مشہور کیا جا سکے کہ کنڈیرا نے کبھی آمری حکومت میں پولیس مخبری کا کام بھی انجام دیا تھا تو تمام دنیا میں اُس کے خلاف ایک منفی رائے عامہ قائم کی جاسکتی ہے۔

یہ نکتہ بھی قابل غور ہےکہ گزشتہ سالوں میں سے اُسے نوبیل انعام کا سب سے بڑا حقدار تسلیم کیا جارہا تھا۔ دُنیا کے کونے کونے میں پھیلی اُسے پڑھنے والوں کی ایک بڑی جماعت اور اُس کے ناولوں کے مداحوں کی ایک فوج یہی توقع رکھتی تھی۔ آج کے جمہوریت پرست دور میں (چاہے وہ ایک جھوٹی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو ) کسی ادیب کے اس قسم کے تنازعے میں پھنس جانا انعام و اعزاز دینےوالوں کی رائے کو متاثر تو کر ہی سکتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ادیبوں نے اسی پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ جرمنی کے اخبار نے کنڈیرا کا’گنٹر گراس’ سے موازنہ کیا جس کےبارے میں کچھ سال پہلے یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ اُس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران وافن ایس ایس  میں کام کیا تھا۔ چیک ادیب ایوان کلیما نے کنڈیرا کے تئیں اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔

تین  نومبر 2008 کو گیارہ بین الاقوامی شہرت کے مالک ادیب کنڈیرا کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے اور انھوں نے پوری طرح کنڈیرا کا دفاع کیا۔ ان ادیبوں میں گابرئیل گارشیا مارکیز، کارلوس فیونتیس، فلپ راتھ ، اور حان پامک، جے ایم کنٹرے، اور نادین گار دیمرکے نام بھی شامل تھے۔

دوسری طرف میلان کنڈیرا نے نیوز ایجنسی کو بیان دیتے ہوئے یہ تو کہا کہ وہ اس پورے واقعے کو اس روشنی میں دیکھتا ہے کہ یہ پوری طرح اس کی کردار کشی کی ایک کوشش تھی اور یہ بھی کہ اس صدمے کے باوجود اس کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ وہ اسے برداشت کر سکتا ہے مگر اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ وہ چیک ہفتہ وار پر ہتک عزت کا کوئی مقدمہ دائر کرنے کا بھی کوئی ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔

اس نے یہ شکایت ضرور کی فرینک فرٹ بک فیئر کے موقع پراخبارات کے پاس میری آواز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ انہیں ایسے موقع پر مجھےصرف ایک سینٹی میٹر نہیں بلکہ ایک بڑی جگہ دینی چاہیے تھی تاکہ میں اپنی آوازوہاں رجسٹر کرسکوں، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ میرےاو پر لگائے گئے یہ الزامات بے حد سنگین ہیں۔ اور میں ان سے کتنا دل شکستہ ہواہوں، اخبارات نے مجھے اپنی پوری بات کہنے کے لیے موقع ہی نہیں دیا۔

آج اس واقعے کو گزرے کئی  سال ہو چکے ہیں۔ میلان کنڈیرا کی شہرت جوں کی توں قائم ہے۔ اس کے قاری اس کی ایک ایک سطر پر جان دیتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے اسلوب کی تمام دنیا میں نقل کی جانے لگی ہے۔ یہاں تک کہ اس سے حسد رکھنے والوں یا ممکن ہے اس سے بے حد متاثر ہونے والے لوگوں نے اس کے اسٹائل کی پیروڈی بھی لکھی ہے۔ ‘اے بک آف ناتھنگ’کے نام سے لکھی گئی پیروڈی بہت مشہور ہوئی ہے۔