خبریں

ضمانت دیتے ہوئے عدالتوں کو قیدیوں کی مالی حالت کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے: سپریم کورٹ

ضمانت پالیسی میں اصلاحات کے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ عدالتوں کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کہ جب وہ ضمانت دیں تو اس کا کوئی نہ کوئی مطلب ہوکیونکہ ضمانت کی ایسی شرطیں  عائد کرنا جو قیدی کی مالی حالت سے باہر ہوں ،اس سے کسی مقصد کی تکمیل نہیں ہوتی۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے قیدیوں کی معاشی حالت کے باعث ضمانت نہ دے پانے کی صورت میں قید کی مدت میں اضافے کی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئےمنگل کو ٹرائل عدالتوں  سے کہا کہ وہ ضمانت کی شرائط طے کرتے وقت قیدیوں کی معاشی حالت پر بھی غور کریں۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جس میں سپریم کورٹ ضمانت پالیسی میں اصلاحات کے اقدامات پر غور کر رہی ہے، کہا، ‘ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ جب وہ ضمانت دیں تو اس کا کوئی نہ کوئی مطلب ہونا چاہیے کیونکہ قیدی کی معاشی حالت سے باہر ضمانت کی شرائط عائد کرنے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس سے ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ قیدی کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جا سکتا۔

منگل کے روز عدالت امیکس کیوری گورو اگروال کی تیار کردہ رپورٹ پر غور کر رہی تھی، جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اس سال جنوری تک 5380 قیدیوں کو ضمانت دی گئی تھی، لیکن وہ اب بھی جیل میں تھے۔ ان کے مقدمات کو اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی (ایس ایل ایس اے) نے اٹھایا تھا، جس نے ان کی مسلسل قید کو عدالتوں کی طرف سے تجویز کردہ ضمانتی بانڈز پیش کرنے میں ان کی نااہلی سے جوڑا تھا۔

ایس ایل ایس اے نے نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی (این اے ایل ایس اے) کو مطلع کیا کہ ضمانت کی شرائط میں ترمیم کی درخواست بعد میں  متعلقہ عدالتوں میں جمع کرائی گئیں اور 21 جولائی تک 4215 قیدیوں کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ بقیہ 1165 قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاسکا کیونکہ انہیں کئی مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی جہاں انہوں نے ضمانت کی درخواست نہیں دی تھی۔

اگروال نےاین اے ایل ایس اے کے ممبر سکریٹری سنتوش سنیہی مان کے ساتھ مشورہ کیا اور تین تجاویز پیش کیں، جن میں سے ایک یہ تھا کہ ٹرائل عدالتوں میں جوڈیشل افسروں کو ایسے بڑے اور بھاری ضمانتی بانڈز نہ لگانے پرغور کرنا تھا،  جو قیدیوں کی صلاحیت سے باہر ہوں۔ اس سلسلے میں، اس نے ججوں کو حساس بنانے کے لیے ریاستی عدالتی اکیڈمیوں کے ساتھ مل کر اورینٹیشن پروگرام کے لیے ایک ماڈیول تیار کرنے کی بھی سفارش کی۔

امیکس کیوری کی رپورٹ میں ضمانت پر رہا ہونے والے ملزمین کی رہائی پر نظر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بنچ نے اس تجویز کو مفید پایا اور عدالتی افسران کے لیے تعلیمی ماڈیول تیار کرنے کی تجویز دی۔ تاہم، ججوں نے اپنے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ صرف تربیت ہی کافی نہیں ہے۔

اگروال نے عدالت کو مطلع کیا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے اور نیشنل انفارمیٹکس سینٹر (این آئی سی) کے ذریعے چلائے جانے والے ای–پریزن سافٹ ویئر کے تحت، اگر کوئی ملزم ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ایک ہفتہ سے زیادہ جیل میں رہتا ہے، تو ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹی (ڈی ایل ایس اے) کے سکریٹری کو ایک آٹومیٹک ای میل الرٹ بھیجا جاتا ہے۔

عدالت نے این اے ایل ایس اےکو اگلے 3-4 ماہ کے لیے ای میل الرٹ کے لیےای پریزن سافٹ ویئر کی نگرانی کرنے اور اگر کوئی مشکلات در پیش ہو تو رپورٹ کرنے اور بہتری کی تجویز دینے کی اجازت دی۔

قابل ذکر ہے کہ نومبر 2022 میں صدر دروپدی مرمو نے یوم یوم آئین  پر اپنی تقریر میں غریب قبائلیوں کوضمانت کی  رقم ادا نہ  کرنے کی وجہ سے جیلوں میں بند ہونے کا ذکر کیا تھا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے ایسے قیدیوں کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی، جس کے جواب میں این اے ایل ایس اے نے اس سال جنوری میں بتایا تھا کہ اس ماہ تک ضمانت ملنے کے باوجود 5000 زیر سماعت  قیدی  جیلوں میں تھے۔