خبریں

مرکز ی حکومت اپوزیشن مقتدرہ ریاستوں کے خلاف سخت قدم اٹھاتی ہے، اپنی ریاستوں کے خلاف نہیں: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے ناگالینڈ میں بلدیاتی انتخابات میں خواتین کے لیے 33 فیصد ریزرویشن کی آئینی شق کی عدم تعمیل پر مرکزی حکومت کی سرزنش کی  اور کہا کہ وہ اس معاملے سے پلا نہیں جھاڑ سکتی۔ اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے اسے فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔

(فوٹو: دی وائر)

(فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی: آئینی اہتماموں کو یقینی بنانے میں ناکامی پر مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ مرکزی حکومت نے’ان ریاستوں کے خلاف سخت اقدامات کیے ہیں جو اسے جوابدہ نہیں ہیں’ لیکن اپنی ریاستوں میں کارروائی  کرنےسے پرہیز کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے زبانی طور پر یہ تبصرہ ناگالینڈ حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے بلدیاتی اداروں میں 33 فیصد نشستیں ریزرو کرکے انتخابات کرانے کی ہدایات کی عدم تعمیل کے تناظر میں کیا۔

یہ معاملہ ناگالینڈ میں متنازعہ ہے، جہاں خواتین کی سیاسی نمائندگی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، ریاست میں 1992 میں لائی گئی آئینی ترمیم پر عملدرآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ ،’مرکز اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا۔’ بنچ نے مزید کہا کہ مرکز اپوزیشن مقتدرہ ریاستوں  خلاف کارروائی کرنے میں بہت آگے ہے، لیکن ان ریاستی حکومتوں کے معاملے میں نہیں،  جو ان کے ساتھ ہیں۔

بنچ نے کہا، ‘آپ کیا کر رہے ہیں؟وہاں بھی  آپ کا سیاسی نظام  ہے، اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیاسی طور پر آپ ایک جیسی  بات پر متفق نہیں ہیں۔ ہمیں یہ مت بتائیے کہ مرکز آئین کو نافذ نہیں کر رہا ہے۔ اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے آپ کو فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔

واضح ہو کہ بی جے پی ناگالینڈ میں این ڈی پی پی حکومت میں اتحادی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلےاپریل میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے یہ وضاحت کرنے کو کہا تھا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 243ڈی کے تحت یقینی بنائےگئے بلدیاتی اداروں میں خواتین کے لیے  ریزرویشن کا آئینی منصوبہ ناگالینڈ پر لاگو ہوتا ہے یا اس کو کوئی چھوٹ حاصل ہے۔

حکومت نے ابھی تک اس بابت  حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے، لیکن ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج نے زبانی طور پر کہا کہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ناگالینڈ ریزرویشن کے آئینی منصوبے کے دائرے میں ہے۔

نیفیو ریو کی قیادت والی  ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 371اے- جو ریاست کے لیے کچھ خصوصی اہتمام کرتا ہے —  اسے خواتین کے لیے ریزرویشن کے بغیر بلدیاتی انتخابات کرانے کی اجازت دیتا ہے۔

عدالت نے 26 ستمبر کی تاریخ مقرر کی

مرکز کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج نےاس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ بالواسطہ طور پر منی پور تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شمال–مشرق میں حالات سازگار نہیں ہیں اور تین ماہ کا وقت مانگا ۔

بنچ نےآئینی اہتمام کو نافذ کرنے کے لیے مرکز اور ریاست کو 26 ستمبر کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ ناگا گروپوں  کی طرف سے اس پروویژن کی مخالفت کی جا رہی ہے، جن کا ماننا ہے کہ یہ ناگا روایت اور روایتی قوانین میں مداخلت  ہے۔

عدالت نے کہا کہ ناگالینڈ ایک ایسی ریاست ہے جہاں خواتین کی تعلیمی صورتحال،  ان کی حالت  اور شراکت ملک میں سب سے بہتر ہے اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ انہیں میونسپل انتظامیہ میں ریزرویشن دینے سے انکار کیا جائے۔ بنچ نے مزید کہا کہ مرکز آسانی سے اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کیونکہ مرکز اور ریاست کے درمیان ایک مشترکہ سیاسی نظام ہے۔

بلدیاتی انتخابات اور ریزرویشن کو لے کر کیا ہے تنازعہ

ناگالینڈ میں 2004 میں صرف ایک بار بلدیاتی انتخابات ہوئے، جن میں خواتین کو ملنے والے ریزرویشن کے اصول پر عمل نہیں کیا گیا۔

سال 2017 میں جب حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تو ریاست کی قبائلی اکائیوں نے اپنی اعلیٰ ناگا قبائلی تنظیم ناگا ہوہو کے زیر اہتمام  سخت احتجاج کیا تھا۔ اس حوالے سے ریاست میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے،  جس میں دو لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آرٹیکل 371(اے) میں شامل ناگا روایتی قوانین کے خلاف ہے۔ یہ آرٹیکل ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا ہے اور روایتی طرز زندگی کو تحفظ فراہم  کرتا ہے۔ یہ احتجاج اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس وقت کے چیف منسٹر ٹی آر زیلیانگ کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

اپریل 2022 میں ریاستی حکومت نے پھر کہا تھا کہ وہ 33 فیصد ریزرویشن نافذ کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔

ریو حکومت اس سال مئی میں خواتین کے لیے ریزرویشن کے بغیر انتخابات کروانا چاہتی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا دی ۔ اس کے بعد حکومت نے کہا کہ وہ آئینی طور پر لازمی ریزرویشن کے ساتھ انتخابات کرائے گی، لیکن پھر ریاستی الیکشن کمیشن سے انہیں رد کرنے کو کہا۔ ریو کو سپریم کورٹ کا فیصلہ  نہ ماننے پر کورٹ سے عدالت کی توہین کا نوٹس ملا تھا۔