ادبستان

امام بخش ناسخ: جن کا کلام چٹان کی طرح ٹھوس سہی، لیکن خشک اور بے فیض نہیں

قند مکرر؛ ناسخ کا نام آتے ہی کچھ ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ حکومت کرنا اور لیڈری کرنا ناسخ کا پیدائشی حق تھا۔ ناسخ مفکر نہ سہی،حقیقی معنوں میں زبردست شاعر بھی نہ سہی اس کی تمام توجہ تمام کوشش اور تمام زندگی نذر فروعات  سہی لیکن وہ کسی ماحول ،کسی ملک ،کسی طبقے اور کسی زمانے میں ہوتا تو بھی اس کی ہستی غیر معمولی ما نی جاتی اور اس کی شخصیت کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہو تا۔

امام بخش ناسخ، فوٹو بہ شکریہ، پبلک ڈومین، السٹریشن؛ دی وائر

امام بخش ناسخ، فوٹو بہ شکریہ، پبلک ڈومین، السٹریشن؛ دی وائر

کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعری ہو یا زندگی کا اور کوئی کام– کسی بات میں کچھ لوگ اور وں سے بہت آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس لیے وہ بڑے آدمی خیال کیے جاتے ہیں، مثلاً میر، آتش، انیس کے کلام کو دیکھیے— تومعلوم ہو گا کہ یہ لوگ محض بڑے شاعر نہیں تھے،  بلکہ غیرمعمولی آدمی بھی تھے۔یہ لوگ زبر دست مفکر تھے، قوم کے رہبر تھے اور شاعری نہ بھی کرتے یا کچھ بھی نہ کرتے تو بھی اپنے ہم عصروں میں ان کی ہستیاں  اور سے بلند مانی جاتیں۔

 کارلائل کا قول ہے کہ ایک ہیر و ہر طرح سے ہیرو ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شیکسپیئراگر زیر دست ڈرا مہ نویس نہ ہوتا تو ایک زبر دست سپاہی ہوتا ۔اُردو کے مشہور شاعروں میں میرا در سودا میں غالب اور ذوق میں انیس اور دبیر میں ناسخ اور آتش میں غور کیجیے کہ کون محض بڑا فنکار تھا اور کون واقعی بڑا آدمی تھا۔ میں یہ سوال کر کے خاموش ہو جاتا ہوں اور فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں ۔

 فیصلہ آپ جو کچھ کریں، لیکن ناسخ کا نام آتے ہی کچھ ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ حکومت کرنا اور لیڈری کرنا ناسخ کا پیدائشی حق تھا۔ ناسخ مفکر نہ سہی،حقیقی معنوں میں زبردست شاعر بھی نہ سہی اس کی تمام توجہ تمام کوشش اور تمام زندگی نذر فروعات  سہی لیکن وہ کسی ماحول ،کسی ملک ،کسی طبقے اور کسی زمانے میں ہوتا تو بھی اس کی ہستی غیر معمولی ما نی جاتی اور اس کی شخصیت کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہو تا۔بحیثیت شاعر کے آج آپ ناسخ کو جو چاہیں کہیں اس کے دودیوان (تین ہیں) دیکھ کر اُردو شاعری پر اس کے اثر کو دیکھ کر آپ اس کےتخلص کو تخریبی چیزسمجھیں یا تعمیری چیز، لیکن اس کی شخصیت میں وہ تیور ہے جو اُردو کے تمام مشاہیرمیں ہمیں صرف میر کی یا دولا تا ہے۔ بحیثیت شاعر کے نہیں بلکہ بحیثیت ایک انسان کے ناسخ کومیر کا مزاج ملا تھا ۔

اس کے علاوہ ناسخ کی شخصیت میں ایک ڈپٹ ہے، ایک تحکمانہ انداز ہے ایک کس بل ہے جوغا لباً کیا، یقیناً میر کی شخصیت میں بھی نہیں ہے۔

انگریزی ادب کی تاریخ میں ناسخ  کی شخصیت بن جانسن اور ڈاکٹر سمویل جانسن کی یاد دلاتی ہے ۔ یہ تین کے تینوں جسمانی حیثیت سے پہلوانان سخن تھے اور اقلیم سخن کے حکمراں تھے۔ تینوں ڈکٹیٹر تھے۔ تینوں کے کارناموں اور اثرات میں جیسے کوئی مادی طاقت یا مرعوب جسامت کام کر رہی ہو، تین کے تینوں جسم، دل ودماغ علمیت اور کلام کے لحاظ سے ٹھوس آدمی تھے اگر آپ ان تینوں سے بہت نا خوش ہیں تو بجائے ٹھوس کےٹھس کہہ لیجیے، لیکن ان کا ٹھوس ہونا یقینی ہے— مجھے معلوم ہے کہ ناسخ کی شاعری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کوہ کندن و کاہ بر آوردن ۔ کاہ؛ یعنی گھاس کتنی ہی بے حقیقت چیز ہو، لیکن کوہ کنی ذرا ٹھوس کام ہے ۔ بہر حال اگر میر کی نازک دماغی مسلم ہےاور آتش کا بانکپن ، توناسخ کا ٹھوس ہونا بھی تسلیم کرنا پڑے گا ۔

 ذرا غور کیجیے، شیخ  امام بخش ناسخ زندگی اور شاعری دونوں میں یتیم تھے ۔ باپ کا نام خدا بخش تھا ، وطن لا ہور تھا ۔ زمانے کی گردش نے با پ سے وطن چھوڑوا دیا اور عالم غربت میں فیض آباد کا منھ دکھا یا، جہاں ناسخ پیدا ہوئے ۔

کہا جاتا ہے کہ ناسخ خدا بخش کے بیٹے بھی نہیں تھے بلکہ متنبی تھے ۔ خدا بخش کےمرنے کے بعد بھائیوں نے دعویٰ کیا کہ امام بخش کوئی نہیں ہوتے اور خدا بخش کی کل دولت انھیں ملنی چاہیے ۔ مگر نا شیخ کی خوداعتماری دیکھیے کہ انھوں نے کہہ دیا مجھے مال و دولت سے کچھ غرض نہیں، جس طرح ان کو باپ سمجھتا تھا آپ کو سمجھتا ہوں، اتنا ہے کہ جس طرح وہ میری ضروریات کی خبر گیری کرتے تھے اسی طرح آپ فرمائیے۔ انھوں نے قبول کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ جائیدار کے جھگڑے میں بدنیت چچانےبیسنی روٹی اور گھی میں ناسخ کو زہر دیا۔ لیکن یہ زہر کارگر نہ ہوا ۔

 کچھ پیش نہیں جاتی قسمت کے دھنی سے

عمر بھر کسی کی نوکری نہیں کی۔ پہلی دفعہ جب الہ آبادآئے، را جہ چند ولال نے بارہ  ہزار روپے بھیج کر بلا بھیجا۔ انھوں نے لکھ بھیجا اب جاؤں گا تو لکھنؤ ہی جاؤں گا ۔ راجہ موصوف نے پھر خط لکھا بلکہ پندرہ ہزار روپے بھیج کر بڑے  اصرا رسے کہا کہ یہاں تشریف لائیے گا تو ملک الشعراء کا خطاب دلواؤں گا، حاضری در بارکی قید نہ ہوگی، ملاقات آپ کی خوشی پر رہے گی، انھوں نے منظور نہ کیا۔

پھر سنیے کہ غازی الدین حیدرکے عہد میں جب ان کی تعریفوں کا آوازہ بہت بلند ہوا تو انھوں نے کہلوایا کہ اگر شیخ ناسخ ہمارے دربار میں آئیں اور قصیدہ سنائیں تو ہم انہیں ملک الشعراء  خطاب دیں ۔ جب یہ پیغام ان کے شاگرد نواب معتمد الدولہ نے پہنچایا تو ناسخ نےبگڑ کر جواب دیا کہ مرزا سلیمان شکوہ بادشاہ ہو جائیں تو وہ خطاب دیں۔ ان کا خطاب لے کرمیں کیا کروں گا ۔

غازی الدین حیدرذرا خطر ناک آدمی تھے۔ ناسخ کو لکھنؤ چھوڑ کر غربت اختیار کرنی پڑی، لیکن غازی الدین حیدر کے دربار میں نہ گئے اور ان کے لیے یا کسی کے لیے عمر بھر کوئی قصیدہ نہ کہا — حالانکہ کچھ نقادوں کو اس کی حسرت رہ گئی کہ ناسخ قصیدہ کی طرف مائل ہوتے ۔

 اردو شعراءپر جو سہل پسندی سے یہ حکم لگا دیا جاتا ہے کہ وہ لالچی ، خوشامدی دربار پرست اور ثروت پرست ہوتے ہیں یا ہوتے تھے۔ وہ تصویر کا محض ایک رخ ہے اور وہ بھی سب سے زیادہ نظر فریب اور دلکش رخ نہیں ہے ۔ مجھے تو اُر دو شاعروں کی دنیا پرستی میں بھی ایک لطیف عنصر ملتا ہے ۔

ناسخ کا دل کتنا بڑا تھا، اس کی ایک جھلک تو ہم آپ نے دیکھ لی ۔ اب دیکھیے کہ شاعری میں بھی کس انداز سے بے یارومددگارشخص اپنی دھاک بٹھا کر رہا اور دہلی سے لکھنؤ تک بلکہ بر اعظم ہند کے اس تمام حصے پر چھا گیا جہاں ہندوستانی زبان بولی یا سمجھی جاتی ہے۔ ناسخ کی شاعری کس طرح شروع ہوئی اس کا حال مصنف آب حیات سے سنیے۔

شاعری میں کسی کے شاگرد نہ تھے ۔ روایت ہے کہ ایک بار ناسخ نے آغاز شاعری کا حال یوں بیان فرمایا کہ میر تقی میر مرحوم ابھی زندہ تھے، جو مجھے ذوق سخن نے بے اختیار کیا ۔ ایک دن نظر بچا کر کئی غزلیں خدمت میں لے گیا۔ انھوں نے اصلاح نہ دی میں دل شکستہ ہو کر چلا آیا اور کہا کہ میر صاحب بھی آخر آدمی ہیں فرشتہ تو نہیں ۔ اپنے کام کو آپ ہی اصلاح دوں گا ،چنانچہ عرصے کے بعد پھر فرصت میں نظر ثانی کرتا اور بناتا ۔غرض مشق کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ لیکن کسی کو سناتا نہ تھا۔ جب تک خوب اطمینان نہ ہو ا مشاعرے میں غزل نہ پڑھی نہ کسی کو سنائی ۔

 مرزا حاجی صاحب کے مکان پر مشاعرہ ہونا تھا۔ سید انشاء، مرزا قتیل جرأت ،مصحفی وغیرہ سب شعراء جمع ہوتے تھے۔ سب کو سنتا تھا مگر وہاں کچھ نہ کہتا تھا ان لوگوں میں جولون مرچ سید انشاءاور جرأت کے کلام میں ہوتا تھا وہ کسی کی زبان میں نہ تھا۔ غرض سید انشا ء اور مصحفی کے معر کے بھی ہو چکے ۔جرأت اور ظہور اللہ خاں نوا کے ہنگامے بھی طے ہوگئے ۔ جب زمانہ سارےورق الٹ چکا اور میدان صاف ہو گیا تو میں نے غزل پڑھنی شروع کی۔’

وہ روایت تو شاید آپ کو یادہوگی جس میں ایک شاعر شیخ سعدی کے پاس اگر بدہضمی کی شکایت کرتا ہے؛ سعدی نے کہا تو نے کوئی شعر کہا ہوگا سنا۔ اس نے سنایا اور وہ شعر سعدی نے اس سے تین بار پڑھوایا اور پھر کہا جاتیری بدہضمی دورہ گئی ۔

ناسخ نے نوجوانی میں دن رات شعر کہتے ہوئے بھی جس صبر و استقلال، خود اعتمادی،سیہ چشمی اور اعلی ظرفی کا ثبوت دیا ہے اسے آپ نے دیکھا۔

اگر یہ قوت ارادی، قوت انتظار کسی عاشق کو نصیب ہو تو شاید حسن نیاز کی تمکنت بھی ڈانواں ڈول ہو جائے۔

لیکن دل د دماغ کے ابھار کو اتنے دنوں تک دبائے رہنے کے لیے شعر کہہ کر اسے پی جانے کے لیے شاعری کے ہنگاموں میں لب پر مہر سکوت لگانے کے لیے بڑے ٹھوس کردار، سخت قوت ہاضمہ کی ضرورت ہے ۔

آپ آزاد کی زبان سے ناسخ کے کچھ اور حالات سنیے کہتےہیں—ابتدائے عمر سے ورزش کا شوق تھا …1297 ڈنڑ کا معمول تھا کہ یا غفور کے عدد ہیں یہ وظیفہ قضا نہ ہوتا تھا۔ البتہ موقعہ اور موسم پر زیادہ ہو جاتے تھے  جیسا ریاضت کا شوق تھا ویسا ہی ڈیل ڈول بھی لائے تھے بلند بالا۔ فراخ سینہ منڈا ہوا سر،کھا ردے کا لنگ باندھے بیٹھے رہتے تھے، جیسے شیربیٹھا ہے ۔ جاڑے میں تن زیب کا کرتا،  بہت ہو تو لکھنؤ کی چھینٹ کا دُہرا کرتا پہن لیا ۔ دن رات میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تھے۔ ظہر کے وقت دستر خوان پر بیٹھتے تھے اور کئی وقتوں کی کسر نکال لیتے تھے… دستر خوان اٹھتا تھا تو دو خوان فقط خالی برتنوں کے بھرے اٹھتے تھے، قوی ہیکل بلونت جوان تھے ۔ ان کی صورت دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ چار پانچ سیر کھانا ان کے آگے کیا مال ہے۔’

یہ بھی معمول تھا کہ پہر رات ر ہے سے ورزش شروع کرتے تھے صبح تک اس سے فارغ ہوتے تھے ۔ مکان مردانہ تھا۔ عیال کا جنجال رکھا ہی نہ تھا ۔ اول نہائے اور پھرصحن میں کہ صفائی سے آئینہ رہتا تھا، مونڈھے بچھے ہیں۔ اندر ہیں تو فرش اور سامان آرائش سے آراستہ ہے۔صبح سے احباب اور شاگرد آنا شروع ہوتے تھے ۔ دوپہر کو سب رخصت اور دروازہ بند۔ عصر سے پھر آمد شروع ہوئی ۔ مغرب کے وقت سب رخصت۔ خدمت گار کو بھی باہر کیا اور اندر سے قفل جڑ دیا۔ کو ٹھے پر ایک کمرہ خلوت کا تھا،  وہاں گئے،  کچھ سور ہے اور تھوڑی دیر بعد اٹھ کر فکرسخن میں مصروف ہوئے۔  عالم، خواب غفلت میں پڑا سوتا تھا اور وہ خواب راحت کے عوض کاغذ پر خون جگرٹپکاتے تھے ۔ ‘

‘آداب محفل کا بہت خیال تھا ۔ آپ تکیہ سے لگے بیٹھے رہتے تھے۔ شاگرد با ادب بچھونے کے حاشیے پر بیٹھتے جاتے تھے ۔ دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ شیخ صاحب کچھ سوچتے کچھ لکھتے جب کاغذ ہاتھ سےرکھتے تو کہتے ہوں ! ایک شخص غزل سنانی شروع کرتا اور اصلاح دیتے جاتے ۔’

یہ تو تھا ناسخ کا معمول زندگی ۔ میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ ناسخ کی شخصیت ہیں میر کی یا دو لاتی ہے ۔ دونوں بے انتہا نازک مزاج تھے یا ٹھیٹ زبان میں دونوں نہایت جھکی تھے ۔ مگر میر کی جھک اور نازک مزاجی اور ناسخ کی جھک اور نازک مزاجی میں بڑا فرق ہے۔ میر کے بارے میں جور و ایتیں مشہور ہیں وہ تلخ اور ناگوار ہوتے ہوئے بھی ایک لطیف اور تیز معنویت رکھتی ہیں اور میر کے مزاج کی شعریت میر کی شاعری اور میر کےمتعلق ان روایتوں میں ایک نازک مطلب اور ہم آہنگی ہے؛

 سہل ہے میر کا سمجھنا کیا

 اس کی ہر بات اک مقام سے ہے

 لیکن ناسخ کی جھک اور نازک مزاجی ذرا مزاحیہ یا کامک قسم کی ہے۔مثلاً دوران فکر میں ایک دیرینہ دوست کا ناسخ سے ملتے آنا اور ٹال مٹول کے بعد بھی جب وہ نہ اٹھے تو گھر میں آگ لگا دنیا ۔ کسی رئیس زادے کا ان کے یہاں آکر شیشے کے چمچوں سے کھیلنا اور جب ایک چمچ اتفاق سے ٹوٹ گیا تو دوسرا یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ اب اس سے شغل فرمائیے ۔ دوران فکر سخن میں ایک پاس بیٹھے ہوئے شخص کا ایک تنکا توڑتے رہنا اور ناسخ کا ملازم کو یہ حکم دینا کہ ایک ٹوکری خس وخاشاک ان کے پاس لا کر ڈال دے۔ ایک فارسی شعر کا مطلب دریافت کرنے پر یہ کہہ کر کہ میں فارسی کا شاعر نہیں دوسروں سے باتیں کرنے لگنا اور پوچھنے والے کا نا کام واپس آنا۔ شعر سنانے کی فرمائش کرنے پر بالکل مہمل اور بے معنی شعر سنا کر یہ دیکھنا کہ یہ شخص کچھ سمجھتا بھی ہے یا یوں ہی تعریف کرنے آیا ہے یا اپنے دیوان نقل پیش کر دینا کہ ملاحظہ کر لیجیے۔

یہ تمام لطائف و ظرائف نہ صرف ناسخ ومیر کے رنگ طبیعت کے فرق کو نماں کرتے  ہیں بلکہ دہلی کے مزاج شاعری میں جودا خلی پہلو ہے اور لکھنؤ کے مذاق میں جو خارجی پہلو ہے اس فرق کو بھی نمایاں کرتے ہیں میر اور ناسخ دونوں کو خبط سہی؛ ہرکس بہ خیال خویش خبطے دارد ۔

لیکن ناسخ کی شخصیت سے بڑھ کر جب ہم ناسخ کی شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو تاریخ ادب کی اس ستم ظریفی کی مثال ہمارے سامنے آتی ہے جس کی بدولت شاعری کی ریفارم کرنے والا حقیقی معنوں میں شاعر ہوہی نہ سکا۔ مثلاً میں یہ تو نہیں کہتا کہ اردو اوب میں سودا شاعر  نہیں، لیکن اصلاح زبان اور اصلاح ادب میر سے اس نے زیادہ کی پھر بھی غزل میں کہاں میر کہاں سودا ۔انگریزی ادب میں جانسن کی استادی مسلم پھر بھی بغیر کاٹ چھانٹ کے کلام شکسپیر وہ صحرا ے خود رو ہے جس کی قوت نمو کے سامنے بن جانسن کی باغبانی دھری رہ جاتی ہے یہی حال ناسخ اور آتش ، انیس اور دبیر،داغ اور امیر کا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ناسخ پیدائشی لیڈر اور ڈکٹیٹر تھا۔ اس نے سختی سےتکمیل کے ساتھ اور جز رسی کے ساتھ اردو زبان کو منضبط اور منظم کیا اور ہمیشہ کے لیے زبان اور بیان کی بد نظمیوں کو مٹا دیااور اس معنی میں کہ جتنا بڑا کلیسکس  دیوان ناسخ ہے آج  تک اردو کا کوئی اور دیوان نہیں ہو سکا، جس طرح آگسٹس نےروم کو اینٹ کا پایا اورا سے سنگ مرمر کا بناکر چھوڑا اسی طرح جہاں تک زبان و بیان اور شاعری  کے خارجی اصولوں اور میونسپل قانونوں کا تعلق ہے نا سخ نے اقلیم غزل کو ایک خودروجنگل پایا اور اسے کم از کم ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے ایک وسیع البسيط باغ بنا کر چھوڑا ، شاعرانہ حیثیت سے نہ سہی، لیکن تاریخی حیثیت سے یہ معمولی کارنامہ نہیں ۔

لوگ یہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ دیوان ناسخ سے پہلے جواردو دیوان مرتب ہوتے تھے۔ ان میں سب سے مشہور دیوان میر،دیوان سودا اور جرأت ومصحفی اور انشاء کے دیوان ہیں۔ ان وواوین کے مرتب ہونے کے پچاس برس کے اندراندردیوان ناسخ مرتب ہوا۔ لیکن مقابلہ کر کے دیکھیے تو دیوان  ناسخ کی زبان اور ان کے بزرگ ہم عصروں کی زبان میں ایک صدی  کیا شاید کئی صدیوں کا فرق نظر آئے گا۔

کہا جاتا ہے کہ جب پہلے پہل دیوان  ناسخ کی کچھ جلدیں دہلی پہنچیں تو غالب، مومن ذوق اور دوسرے استادوں نے کہا کہ اب تک جوانداز بیان رائج  تھا، اس کی آخری گھڑی آگئی ہم سب کو اب اسی نئے رنگ میں کہنا ہے۔شیفتہ ایسا اہل نظر ایسا مرعوب ہوا کہ بمقابلہ آتش کےناسخ کے یہاں اسے زیادہ نشتر نظر آئے ۔

 بحیثیت ادبی ڈکٹیٹر کے توناسخ کا ثانی کوئی ہوا ہی نہیں۔ اور اب سو برس پہلے کے مغرور ہندوستان سے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے لکھنؤ سے کمزور ہستیوں کی گت بنادینے والے لکھنؤسے اپنا لوہا منوا لینا،جیسا میں کہہ چکا ہوں بڑی ٹھوس شخصیت کا کام تھا اب بحیثیت شاعر کے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے— کہ  وہ نہایت ثقیل الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔

 صفائی کے کوچے میں آتے ہیں تو اکثر پھبتی پرا تر آتے ہیں۔ ناجائز تصرفات بھی کر جاتے ہیں۔ کبھی کبھی غلط محاورہ بھی استعمال کر جاتے ہیں۔عموماً خیال بندی کرتے ہیں اور ان کی اکثر نازک خیالیاں کوہ کندن اور کاہ برآوردن کی مصداق ہوتی ہیں اور مصنف کاشف الحقائق نے بالکل صحیح رائے دی ہے ۔

‘کہ وہ خیالات ناسخ کی بدولت بڑی کثرت سے احاطہ غزل گوئی میں داخل ہو گئے جو در حقیقت احاطہ غزل سرائی سے باہر ہیں۔ اس زورآ زمانی کا نتیجہ یہ ہواکہ واردات و جذبات قلبیہ اور دیگر امور ذہنیہ کے مضامین سے ناسخ کی غزلیں معرا ہو گئیں اور غزل سرائی کا مطلب فوت ہو کر ایک ایسی قسم کی شاعری ایجاد ہوگئی جس پر قصیدہ گوئی اور غزل سرائی دو میں سے کسی کی تعریف صادق نہیں آتی۔’

خیریہ تو صحیح ہے کہ ناسخ نے غزل کو نہ غزل رکھا نہ قصیدہ رکھا بلکہ ایک معجون مرکب بنا دیا۔ لیکن اس کے اشعار کی بلند آہنگی انداز بیان کی تکمیل، بندش کی چستی ، مصرعوں کا کس بل اور زور وہ چیزیں ہیں جو اس پہلوان سخن کے 1297 ڈنڑ کا اثر اس کی شاعری میں بھی نمایاں کر رہے ہیں ۔ اس کے معنی اورمفہوم کو آپ سراسر تصنع کہیں، لیکن جہاں تک منضبط اسلوب بیان کا تعلق ہے ناسخ کے احسان سے اور تو اور غالب ، ذوق ، مومن آتش اور ناسخ کے بعد کے اردو زبان کے تمام شعراء گراں بار ہیں ۔

یہ بات ہمیشہ صیغہ راز میں رہے گی کہ غالب نے جو ایک بہت بڑا حصہ اپنے اردو دیوان کا منسوخ کر دیا—اس نظم و نسخ میں دیوان ناسخ کا بھی فیصلہ کن اثر پڑا تھا یا نہیں؟ لیکن مصحفی ، انشاء جرأت کی زبان تو دوررہی، کیا زبان کا جواسلوب آج ہمارا جزو دماغ ہو چکا ہے وہ اسلوب، وہ اندا زبان غالب مومن اور ذوق کے مروجہ ووا دین سے مرتب ہو سکتا ہے ؟ غالباً نہیں ۔ یہ تو ہواز بان پر ناسخ کا عالمگیر اور مستقل اثر، اب رہی ناسخ کی شاعری سوا س کے محاسن و مصائب کچھ تو عرض کیے ہی جا چکے ۔

لگے ہاتھوں یہ بھی کہہ دوں کے باوجود تضع اور مبالغہ کے اور باوجود آج سے سو برس پہلے کا لکھنوی شاعر ہوتے ہوئے بھی ابتذال سے جتنا ناسخ کا کلام پاک ہے اُتنا آتش کا بھی نہیں ۔ تصنع اور خارجیت اس میں شک نہیں ناسخ کے یہاں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے میں، لیکن ناسخ کے انداز بیان میں جو صفات ہیں وہ کامیاب داخلی شاعری کے لیے کہاں تک کارآمد ہو سکتے ہیں یا وہ داخلی شاعری کی جھلک کہاں تک دکھا سکتے ہیں اس پر شاید بہت کم غور ہمارے نقادوں نے کیا ہے ۔

کیا آتش نے جہاں کھلی ہوئی تقلید ناسخ کی کی ہے اس کے علاوہ اپنے داخلی اور کامیاب  کلام میں وہ ناسخ سے متاثر نہیں ؟ امیرمینائی کا پہلا دیوان مراۃ الغیب ناسخ کے اسلوب سے پورا پورا فیضیاب ہوتا ہوا خارجی اور تمثیلی شاعری میں بھی ایک دلکش داخلی پہلو  لیے  ہوئے ہے اور ناسخ کے خاندان ہی میں حضرت آسی غازی پوری شاگر د رشک نے تو اپنے یہاں ناسخ کی آواز سے میروغالب کی آوا ز ملادی ۔ ناسخ کی زبان میں میر کے رنگ کا حضرت آسی کا صرف ایک شعر سنیے؛

 کو چہ زلف صنم میں اہل دل جاتے ہیں کیوں

 اور جاتے ہیں تو دل سی چیز کھو آتے ہیں کیوں

آخر مثنوی گلزار نسیم تو خاندان آتش کی چیز ہے، لیکن تصنع اور تکلف جس انداز سے یہاں دلوں میں چٹکیاں لے رہے ہیں اسے کیا کہا جائے، کیا اس مثنوی پر ناسخ کی تحریک کا اثر نہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ نا سخ پور سے ہندوستان پر  چھا گیا تھا۔ اور اس کے حریف بھی اس کا اثر لیے بغیر نہ رہے ۔ ناسخ کی شاعری اور شخصیت ایک شگون کا حکم رکھتی ہے۔

ناسخ کے شاگردان رشید اور براہ راست مقلدوزیر، رشک ، قلق وغیرہ کے کلام کو آپ جو کچھ کہیں، لیکن اسی خاندان میں تعشق لکھنوی اور جلال لکھنوی نے جو زبان ناسخ میں نشتریت بھر دی ہے اسے آپ کیا کہیں گے ۔

اس سلسلے میں ایک ایسا نام یادآیا کہ میں خود چونک گیا آج حسرت موہانی کو فارسی ترکیبوں میں مومن ، معاملہ بندی میں جرأت تشکیل بیان،رنگیلی اور البیلے پن میں مصحفی کی آواز بازگشت ہم سنتے ہیں لیکن ان کی چست و چاق بندشیں  اور اسلوب و زبان کی حیرت انگیز پختگی اگر ناسخ کی دین نہیں تو کس کی دین ہے۔

سب سے کامیاب پیروی ذرا کترا کے جاتی ہے، بہر حال ناسخ کا کلام چٹان کی طرح ٹھوس سہی، لیکن یہ چٹان اتنی خشک وبے فیض نہیں کہ ٹھو کر ماریں تو اس سے صاف شفات اور ٹھنڈے چشمے بھی نہ ابل پڑیں ۔

خود ناسخ اپنے رنگ کے فروعاتی عنصروں سے گزر کر دیکھیے کیسے شعر کہتا ہے؛

شب فرقت میں شمع کا کیا ذکر

 زندگی کا چراغ بھی گل ہے

عشق جب کامل ہوا ہے عین حسن

 آگ میں پڑ جائے جوشے آگ ہے

 رو ٹھے ہوئے تھے آپ کئی د ن سے من گئے

 بگڑے ہوئے تمام مرے کام بن گئے

دہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں

 ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں

 شب فراق گئی روز وصل آپہنچا

طلوع صبح ہے عالم تمام روشن ہے

 تیرے نظارے سے ہو جاتی ہے کیا خاطرجمع

 چھوڑ دیتا ہے پریشاں نظری آئینہ

جنوں پسند مجھے چھاؤں ہے ببولوں کی

عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی

ول کو خوش آتی ہیں صحرا کی ببولیں پرخار

اب کسی سرو گل اندام سے کچھ کام نہیں

 تمام عمر یوں ہی ہو گئی بسر اپنی

 شب فراق گئی روز انتظا رآیا

 زاہد وہ بادکش ہوں کہ مانگوں اگر دعا

اٹھیں ابھی شراب سے بادل بھرے ہوئے

 آتی جاتی ہے جابجا بدلی

 ساقیا جلد آہوا بدلی

 آب حیواں پیوں بجائے شراب

 ایسی اے خضر مجھ کو پیاس نہیں

چلا عدم سے میں جبراً تو بول اٹھی تقدیر

 بلا میں پڑنے کو کچھ اختیار لیتا جا

 تمام صفحہ عالم ہے ایک ہی صفحہ

سرکتاب کا یہ اک درق تمام نہیں

 عشق سے کسی کے دل کو لاگ نہیں

کون سا گھر ہے جس میں آگ نہیں

 ایسے اشعار کہنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، یہ وہ اشعار ہیں جنھیں میر غالب اور اقبال بھی اپنے مجموعے میں شامل کرنا فخر سمجھتے۔ ناسخ اگر چاہتاتو ایسے اشعار کی ایک بہت بڑی تعداد کہہ ڈالتا، لیکن وہ آیا تھا زبان کو سنوارنے صرف زبان کا ہو کر رہ گیا اور شاعری کو بھول گیا۔

(بہ شکریہ؛ اعجاز ناسخ، مرتبہ: ڈاکٹر احسن نشاط)