خبریں

پی ایم جن آروگیہ یوجنا کے تحت ’مردہ‘ بتائے گئے مریضوں کے علاج کے لیے 6.9 کروڑ روپے ادا کیے گئے: سی اے جی

ہندوستان کے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی)  نے آیوشمان بھارت- پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی) کے آڈٹ میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس کے تحت 3446 مریضوں کے علاج کے لیے 6.97 کروڑ  روپے ادا کیے گئے، جنہیں ڈیٹا بیس میں پہلے ہی مردہ قرار دیا جا چکا تھا۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: آیوشمان بھارت- پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی ) کے آڈٹ میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ہندوستان کے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اےجی) نے کہا ہے کہ اس کے تحت  3446 مریضوں کے علاج کے لیے 6.97 کروڑ روپے ادا کیے گئے، جنہیں  ڈیٹا بیس میں پہلے ہی مردہ قرار دیا جا چکا تھا۔

سال 2018 میں یہ اسکیم صحت کی دیکھ بھال کے لیے غریب اور کمزور آبادی کے لیےاپنی  جیب سےہونے والے اخراجات کو کم کرنے کے مقصدسے شروع کی گئی تھی۔یہ ہیلتھ انشورنس اسکیم دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں شروع کی گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، پرفارمنس آڈٹ میں ‘ٹریٹمنٹ آف اےبینیفشیری ایز ڈائیڈ ڈیورنگ ارلیر کلیم/ٹریٹمنٹ’ کے عنوان سے سی اے جی نے کہا ہے کہ ‘جن مریضوں کو پہلے ٹی ایم ایس (اسکیم کے ٹرانزیکشن مینجمنٹ سسٹم) میں مردہ دکھایا گیاتھا،  وہ اسکیم کے تحت فائدہ اٹھاتے رہے۔

آڈٹ میں پایا گیا کہ 3446 مریضوں سے متعلق ایسے 3903 دعوے تھے اور ملک بھر کے اسپتالوں کو 6.97 کروڑ روپے ادا کیے گئے تھے۔

کیرالہ میں ایسے ‘مردہ’ مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ 966تھی، جن کے کلیم کی  ادا ئیگی کی گئی تھی۔ ان کے ‘علاج’ کے لیے کل 26009723 روپے ادا کیے گئے۔

مدھیہ پردیش میں ایسے 403 مریض تھے، جن کے لیے 11269664 روپے ادا کیے گئے۔ چھتیس گڑھ 365 مریضوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا، جن کے علاج کے لیے 3370985 روپے ادا کیے گئے۔

موجودہ رہنما خطوط کے مطابق، اگر کوئی مریض ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد اور ڈسچارج ہونے سے پہلے مر جاتا ہے، تو آڈٹ کے بعد ہسپتال کو ادائیگی کی جاتی ہے۔

سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، (جولائی 2020 میں) ڈیسک آڈٹ کے دوران آڈٹ نے پہلے نیشنل ہیلتھ اتھارٹی (این ایچ اے) کو رپورٹ کیا تھا کہ آئی ٹی سسٹم (ٹی ایم ایس) اسی مریض کےپری اتھارائزیشن ریکوسٹ کی اجازت دے رہا تھا،جسے پہلے اسکیم کے تحت ملےاس کے پہلے علاج کے دوران ‘مردہ’ دکھایا گیا تھا۔ این ایچ اے نے آڈٹ کےمشاہدے کو قبول کرتے ہوئے جولائی 2020 میں کہا تھاکہ 22 اپریل 2020 کو ضروری تصدیق کی گئی ہے،تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کسی بھی مریض کی پی ایم اے جے وائی آئی ڈی جسے ٹیم ایم ایس  میں مردہ دکھایا گیا ہے،ا سکیم کے تحت مزید فوائد حاصل کرنے کااہل نہ ہو۔

رپورٹ کے مطابق، جب سی اے جی نے نشاندہی کی کہ ضروری جانچ پر عمل نہیں کیا گیا تو نیشنل ہیلتھ اتھارٹی نے اگست 2022 میں کہا تھا کہ ‘مختلف آپریشنل وجوہات کی بنا پر سسٹم میں بیک ڈیٹ انٹری کی اجازت ہے’۔

سی اے جی نے کہا کہ ‘جواب منطقی نہیں ہے، کیونکہ اسٹیٹ ہیلتھ اتھارٹی کی طرف سے پری اتھارائزیشن انیشی ایشن ، دعویٰ پیش  کرنے اور حتمی دعوے کی منظوری’ کے لیے استفادہ کنندگان کو پہلے ہی علاج کے دوران مردہ دکھایا گیا ہے’جو درخواست میں خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے اورصارف کی سطح پر غلط استعمال  کے لیےاسے انتہائی حساس بناتا ہے۔’

سی اے جی کی رپورٹ میں نیشنل ہیلتھ اتھارٹی اور اسٹیٹ ہیلتھ اتھارٹی سے ‘ ادائیگیوں اورخامیوں کے خطرے کو دور کرنے کے لیے تمام معاملوں کی وسیع پیمانے پر جانچ کویقینی ‘ بنانے کے لیے کہا گیا ہے۔

یہ ہیلتھ انشورنس پلان ہندوستان کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ثانوی اور ترتیری نگہداشت کے اسپتال میں داخل ہونے کے لیے ہر سال فی خاندان 5 لاکھ روپے کا کور فراہم کرتا ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2231 ہسپتالوں میں ایک ہی مریض کے بیک وقت متعدد طبی اداروں میں داخل کیے جانے کا معاملے سامنے آئے ہیں۔ آڈٹ میں کل 78396 ایسے معاملےپائے گئے۔

گجرات میں سب سے زیادہ 21514 کیس درج کیے گئے۔ اس کے بعد چھتیس گڑھ (9640) اور کیرالہ (9632) ہیں۔

سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2020 میں،’ڈیسک آڈٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ آئی ٹی سسٹم (ٹی ایم ایس) نے کسی بھی مریض کو اسپتال میں داخل ہونے کی ایک ہی مدت کے دوران متعدد اسپتالوں میں داخلہ لینے سے نہیں روکا۔’

نیشنل ہیلتھ اتھارٹی (جولائی 2020 میں) نے غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسز بنیادی طور پر اس تناظر میں سامنے آتے ہیں، جہاں بچہ ایک اسپتال میں پیدا ہوتا ہے اور ماں کی پی ایم جے وائی آئی ڈی کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے اسپتال کے نوزائیدہ نگہداشت میں منتقل کیا جاتا ہے۔’

تاہم، سی اے جی نے نشاندہی کی کہ اتھارٹی کے دعوے کے برعکس اسپتال میں داخل ہونے کی اسی مدت کے دوران کل 23670 مرد مریضوں کو متعدد اسپتالوں میں داخل کیا گیا تھا۔

رہنما خطوط کے مطابق، ریاستوں میں وقف اینٹی فراڈ سیل سرپرائز چیک کرنے، جرمانے عائد کرنے،پینل سے ہٹانے، پراسیکیوشن اور دیگر حفاظتی اقدامات کے لیے ذمہ دار ہیں۔

تیرہ ریاستوں میں دھوکہ دہی والے اسپتالوں سے جرمانے کی وصولی کے اعداد و شمار کے مطابق (نیشنل ہیلتھ اتھارٹی کے پاس باقی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کا ڈیٹا نہیں تھا)، چھتیس گڑھ اور میگھالیہ نے ایک بھی جرمانہ وصول نہیں کیا، ان کی 100 فیصد وصولی باقی ہے۔ مدھیہ پردیش میں 96.08 فیصد معاملات میں کوئی جرمانہ وصول نہیں کیا گیا۔

آڈٹ میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ہیلتھ اتھارٹی میں،ان 13 ریاستوں کے 184 ڈیفالٹ اسپتالوں پر لگائے گئے 17.28 کروڑ روپے کے جرمانے میں سے صرف 4.96 کروڑ روپے کی وصولی ہوئی تھی۔’