ادبستان

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ کچھ روز پہلے میرے ہاتھ مسو لینی کی آپ بیتی لگی تو اسے پڑھنے بیٹھ گیا۔ اُس نے بالکل آغاز کے صفحات میں لکھا تھا کہ اُس کے حافظے میں بچپن کی کوئی ایسی یاد باقی نہ تھی جس سے اُس کی کوئی ایسی خصوصیت واضح ہوتی جو اُس کے والدین کے لیے خوشی اور آسودگی کا باعث ہوئی ہو۔ میں یہ پڑھ کر بہت دیر اپنے بچپن کی گلیوں میں بھٹکتا رہا تھا۔ میرے پاس بھی کوئی ایسی یاد نہیں تھی۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

بس یوں ہی

وقت بدل گیا ہے؛ بہت بدل گیا ہے اور میں اب اپنے بچپن سے اتنا دور اور اتنے زیادہ فاصلے پر ہوں کہ ماضی کی ساری بدصورتیاں نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں۔مگراس کے باوجود مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ میرا بچپن کوئی خاص تعریف یا توصیف کا مستحق نہیں ہے ۔

میں بھی ان ہی بچوں جیسا تھا جو ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی طرف مائل رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہےیہ کچھ نہ کچھ کرنا،میرے بچپن میں ہمیشہ بگاڑ اور ایذا رساں شرارتوں کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا۔ یہ تو میرے نیک طینت والدین ہی تھے جو مجھ کھردرے، اکھڑ مزاج اور شرارتی بچے کو برداشت کر رہے تھے اور میری شخصیت کی یوں کاٹ چھانٹ کر رہے تھے جیسے بے ہنگم بڑھنے والے پودوں کی کیا کرتے ہیں۔

کچھ روز پہلے میرے ہاتھ مسو لینی کی آپ بیتی لگی تو اسے پڑھنے بیٹھ گیا۔ اُس نے بالکل آغاز کے صفحات میں لکھا تھا کہ اُس کے حافظے میں بچپن کی کوئی ایسی یاد باقی نہ تھی جس سے اُس کی کوئی ایسی خصوصیت واضح ہوتی جو اُس کے والدین کے لیے خوشی اور آسودگی کا باعث ہوئی ہو۔ میں یہ پڑھ کر بہت دیر اپنے بچپن کی گلیوں میں بھٹکتا رہا تھا۔ میرے پاس بھی کوئی ایسی یاد نہیں تھی۔

والدین کے کہنے پر چھوٹے موٹے کام کر دینا، اُن کے سامنے مؤدب رہنا،ابا جان یادادی جان کی چلمیں تازہ کر دینا یا بڑے چارپائی پر بیٹھے ہوں تو ان کے سرہانے نہ بیٹھنا ،وہ بات کر رہے ہوں تو بظاہر اُن کی طرف متوجہ رہنا یہ سب ہم بچوں کےمعمولات کا حصہ تھامگر میں انہی معمولات کے اندر سےکوئی آڑی ترچھی راہ لے لیا کرتا تھا۔

اب اس واقعے کو ہی لیجیے جو اُس زمانے کا ہے جب باجی کااپنا شوق سلائی کڑھائی نہیں ہوا تھا۔ مجھے یہ معلوم کرنے لیے اپنے ایک ہمسائے کے گھر بھیجا تھا کہ وہاں باجی کے کپڑے سل چکے ہوں گے وہ لیتا آؤں ۔

میں کسی سعادت مند بچے  کی طرح فوراً کاکا جی کے گھر کی جانب ہو لیا تھا۔ ہمارے اس ہمسائے کا نام تو گل محمد تھا مگر سب انہیں کاکا،کاکا ہی کہتے تھے۔ دونوں میاں بیوی درزیوں کے پیشے کو اپنائے ہوئے تھے۔ میاں مردوں کے کپڑے سیتے اور بیوی جس کا نام بختاں تھا، عورتوں کے۔ایسا بھلے مانس گھرانہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھا۔

دونوں میاں بیوی حقوق العباد کے معاملے میں اتنے مستعدتھے کہ کسی نے کوئی سوال ڈال دیا اور بھول گیا مگر جب تک وہ کام ہو نہ چکتا تھا وہ یاد رکھتے اور بے چین رہتے تھے ۔ہر غمی خوشی میں وہ سب سے پہلے مدد کو موجود ہوتے ۔  میں اُن کے یہاں پہنچا تو کپڑے تیار نہ تھے۔  یقیناً کسی سبب تاخیر ہوئی ہو گی۔ تاہم وہ چاہتے تھے کہ تھوڑا اِنتظار کروں اور کپڑے لے کر جاؤں ۔ میں نے تھوڑا انتظار کیا مگر اکتاہٹ ہونے لگی تو کبھی ان کا فیتہ اٹھا کر اس سے اپنا بازو ماپتا اور کبھی نشان لگانے والے چاک سے لکیریں ڈالنے لگتا ۔

وہ ایک چیز مجھے رکھ دینے کو کہتے تو اسے رکھ کر میں دوسری اٹھا لیتا۔ جب میں قینچی دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر کرچ کرچ خالی چلانے لگا تو کاکاجی اُسے لینے اپنی نشست سے اُٹھ کر میری جانب لپکے۔ مجھے نہ جانے کیا سوجھی کہ قینچی لے  کر دروازے سے باہر بھاگ نکلاتھا۔ اب کاکا گل محمد میرے پیچھے پیچھے تھے اور میں آگے آگے۔گھر والی گلی سے چوک ملکاں، وہاں سے پیپل والے چوک سے سخی بھور اور موچیوں والے محلے کی طرف۔ وہ پیچھے رہ جاتے تو میں کہیں دَم لینے کو بیٹھ جاتا،قریب پہنچتے تو پھر بھاگ کھڑا ہوتا۔

اُنہیں یوں بھگانے میں مجھے مزا آنے لگا تھا۔ وہ بزرگ آدمی تھے تھک ہار کر واپس گھر چلے گئے۔ اب میرے بھاگنے کا کوئی جواز نہ رہا۔ جب میں بھاگ رہا تھا تو میرے اندر نامعلوم اُمنڈتا ہوا جوش مجھے کاکاگل محمد کے آگے آگے بھاگنے پر اُکسا رہا تھا ایسے میں قینچی میرے ہاتھ ہی میں رہی مگر کسی چڑیا کے ہوا میں تیرتے پَر جیسی بے وزن۔ کاکاجی عقب میں نظر نہ آرہے تو اس کا وزن بڑھتاچلاگیا تھا۔

ایک معمولی وزن والی چیز بھی اتنی زیادہ وزنی ہو سکتی تھی، اِس کا اِحساس مجھے پہلی بار ہوا تھا۔کاکاگل محمد کی ایک چیز میرے پاس تھی۔ جب تک میری پاس تھی اُن کی امانت اور میری ذمہ داری تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ذمہ داری کا بوجھ بڑھتاگیاتھا؛ یوں جیسے کوئی ایک پَر ہتھیلی پر رَکھ کر کھڑاہو جائے اوراُسے مسلسل ہاتھ پھیلائے رکھنا پڑے یہاں تک کہ اُس کا بازو اس بوجھ سے ٹوٹنے لگے۔

میرا بازو بھی ٹوٹنے کو تھا۔

میں کچھ دیراپنے گھر کی عقبی گلی میں ایک طرف دیوار سے پشت ٹیک کرقینچی کو بٹر بٹر تکتا رہا اور سوچتا رہا کہ میں اِسے لے کر کیوں بھاگا تھا؟ میرے پاس اس کا جواز نہیں تھا۔

بس یوں ہی۔

بہت سے کام ہم بس یوں ہی کر جاتے ہیں ۔ میں بھی یوں ہی کتنی دیر بھاگتا اوربلاسبب کاکاگل محمد کو بھگاتارہاتھا۔ ندامت کے بوجھ کی ایک اور تہہ میرے وجود پر بچھتی چلی گئی تھی۔

میں نےقینچی کاکاجی کے گھر کے بیرونی دروازے کے نیچے سے اندر کھسکا دِی اور اپنے گھر کی طرف چل دِیا۔ مجھ میں حوصلہ نہ تھا کہ اُن کا سامنا کرتا۔ گھر میں داخل ہوا تو کاکاگل محمد اپنی بیوی کے ساتھ سامنے برآمدے میں امی جان کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ اِس سے پہلے کہ واپس گھر سے باہر نکلتامیں نے امی جان کو غصے سے اپنا نام پکارتے سناتھا۔

اپنی ماں کی اماں…

وہ جتنا زیادہ غصہ کرتیں اُن کی بیٹی اتنا ہی اُن سے لاڈ کرتی تھی ۔ وہ اُنہیں اپنی بانہوں میں یوں سمیٹ لیتی جیسے وہ اُس کی ماں نہ تھی بیٹی تھی۔ کاکا گل محمد کے اس بدنصیب گھرانے پر ایسے ایسے کوہ الم ٹوٹے تھے کہ اُن کی بابت سوچ کر ہی جسم میں تھرتھری تیر جاتی ہے۔ ان صدمات کو سہتے سہتے ہی شایدچاچی بختاں کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ اپنا ہوش کھو بیٹھی تھیں۔  سر کے بال نوچتی رہتی، چیختی چلاتیں، بیٹی انہیں گود میں لے کر یوں دِلاسہ دیتی اور بہلاتی تھی جیسے وہ ننھی منی بچی ہو۔

ہمارے گھر کی مشرقی نکڑ پر سامنے کی طرف ایک کمرے ،تنگ سے صحن اور مستطیل سی بیٹھک پر مشتمل کچی پکی اینٹوں سے بنے ہوئے گھر میں وہ رہتے تھے۔ بیٹھک بس اتنی سی تھی کہ کاکاجی اس میں اپنی مشین پھٹے پر لگا تے تو دوسرا آدمی بہ مشکل پہلو میں بیٹھنے کی گنجائش نکال پاتا تھا۔

اکلوتے کمرے کی تین دیواروں کے ساتھ چارپائیاں بچھی رہتیں جبکہ چوتھی دیوار کے ساتھ جستی پیٹی اور اس کے اوپر صندوق پڑے ہوتے۔ ان صندوقوں پر مومی لفافوں میں بنداَن سلے کپڑوں کا ڈھیرہوتا۔ چاچی بختاں کی سلائی مشین اِسی کمرے کے دروازے کے پاس ہی ہوتی تھی کہ وہ حصہ قدرے زیادہ روشن تھا۔ وہ اُس پر دِن بھر کام کرتی رہتی تھیں۔اُن کے عقب میں ایک طرف استری والا تخت تھا جس کے اوپر بندھی ڈوری پر تیار شدہ کپڑے ایک ترتیب میں ٹنگے ہوتے۔

اس تنگ سے گھر میں رہنے والے اتنے وسیع القلب اور اعلیٰ ظرف کے مالک تھے کہ میں ہی کیا، سب کی نظروں میں محترم تھے۔ میں نے کاکا گل محمد کو کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ جمعہ اور عیدین بھی نہیں مگر لوگوں کی مدد اور خدمت کا جذبہ ان کے اندر اس انتہادرجے کا تھا کہ وہ وہ سب سے سبقت لے جاتے تھے۔

کاکا گل محمد کے دوبیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی زینت میری باجی کی ہم عمر ہو گی اور دونوں چھوٹیاں نگہت اور نصرت، بھائیوں سے بھی کم عمر تھیں۔ آخری عمر میں جب کہ چاچی بختاں کے حواس مختل ہو چکے تھے ، ان کی قامت اور نقوش چغلی کھاتے تھے کہ وہ اپنے وقت میں حسین رہی ہوں گی۔ یہی حسن کچھ اور نکھر کر اُن کی اولاد اور بہ طور خاص بیٹیوں میں منتقل ہوا تھا۔

کاکاگل محمد کی کمر جھک گئی تھی اورریڑھ کی ہڈی پر اونٹ کےکوہان جیسا کُب نکل آیا تھا مگر چہرے کے نقوش متناسب تھے۔ دونوں میاں بیوی نے خوب محنت کرکے اپنے بچوں کی پرورش کی انہیں پڑھایالکھایااور اس قابل کیا تھا کہ وہ ویسی تنگدستی والی زندگی نہ گزاریں جیسے انہیں گزارنا پڑی تھی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

زینت جو غیر معمولی حسن کی مالک تھی، نےنرسنگ کا کورس کیا اور ملازمت شروع کر دِی ۔ لیبیا کے کسی ہسپتال میں موقع نکلا تو وہاں چلی گئی ۔وہیں سے خبر آئی کہ اس نے وہاں شادی کرلی تھی ۔کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پتہ چلا وہ ماں باپ کو ملنے آنا چاہتی تھی مگر واپسی ناممکن بنادی گئی تھی۔ وہ وہیں رہی اور وہاں سے قیامت کی سناونی آگئی ۔ جس نے سنا اُس کے کلیجے پر ہاتھ پڑتا تھا۔ بتایا جارہا تھا کہ اُس نے خودکشی کر لی تھی۔ جون ایلیا کا ایک شعر نہ جانے یہاں کیوں یاد آگیا ہے حالاں کہ وہ اِس صورت حال پر شاید پوری طرح منطبق بھی نہیں بیٹھتا؛

کتنی دِل کش ہو تم کتنا دِل جو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

اس خوب صورت لڑکی کا شوہردِل جو ہوتا تو ایسا کیوں ہوتا؟ وہ دلکش لڑکی مر گئی تو اس چھوٹے سے گھر میں ڈھیر سارا دُکھ اوراداسی بھر گئی تھی۔

نگہت جو ہوش حواس کھوبیٹھنے والی ماں کو آخری عمر میں سنبھالتی رہی تھی، جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ نصرت بڑی بہن زینت کی طرح نرسنگ کے شعبے میں شہر سے باہر گئی ۔ وہیں شادی ہوئی اور وہیں کی ہورہی۔ نگہت فتح جنگ کے کالج میں لائبریرین تھی ، جس بس میں آتی جاتی تھی، اور جب سے آ جارہی تھی، اس بس کا مالک ہی اس کا ڈرائیور بنا ہوا تھا۔ اس کی یہی ادا محبت کا جواز ہوئی۔ محبت کی اس شادی پر نگہت کے ماں باپ صدمے میں چلے گئے تھے۔ ، مگرپھر جیسے حالات کے ساتھ صلح کر لی تھی۔نگہت نے بظاہربہت اچھا وقت دیکھاتھا۔

شوہر کی محبت میں وہ سرشار تھی اور ایسا ہم سب کو محسوس ہوتا تھا ۔ اس کے یہاں تین برس میں تین پیاری بیٹیاں ہوئیں۔ ایک الگ، دو جڑواں۔ اور پھر شوہرکو قضا نے اُچک لیا۔ یہ اس کے شوہر کی دوسری شادی تھی۔ شوہر کی موت کے ساتھ ہی کئی جھگڑوں نے سر اُٹھا لیا تھا۔ پورا خاندان پہلی والی کے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا لہٰذا اُس نے عافیت اِسی میں سمجھی کہ اپنی بچیوں کو لے کر اُس گھر سے نکل آئے۔ وہاں سے نکل کرماں باپ کے گھر کے سوا کہاں جاتی ؟

دونوں بھائی اب وہاں نہیں تھے ۔ ملازمت اور شادی کے بعددونوں بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں کچھ ایسے الجھے تھے کہ ہم نے انہیں اس گھر میں آتے نہیں دیکھا تھا۔ابھی کاکاگل محمد زندہ تھےکہ نگہت شادی کے تیسرے برس بیوہ ہو کر تین بچیوں کے ساتھ اس گھر میں آگئی تھی۔ اُس میں اداسی پہلے سے ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی۔

بوڑھااور بیمار باپ جسے خود سہارے کی ضرورت تھی وہ ماں کو سنبھالے ہوئے تھا۔ باپ کے رخصت ہونے سے پہلے ہی وہ گھر کی واحد کفیل ہوگئی تھی۔ اندر سے دیمک لگے درخت کی طرح کھوکھلا ہو چکاباپ تو جیسے بیٹی کی واپسی کا منتظر تھا،پاگل بختاں کو اُس کے حوالے کیا اور مر گیا۔

شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ اپنی یتیم بچیوں کے ساتھ اپنی ماں کی ماں بن کر اُس کی آخری سانسوں میں سہارا بنے۔ وہ اپنی ماں کا کچھ ایسے سہارا بنی کہ وہ مچل کر بیٹی کی گود میں سر رکھ دیتی اور اُسے ’’ اماں اماں‘‘ پکارتی تھی۔کہتے ہیں جب چاچی بختاں مری تو بھی اُس کا سر بیٹی کی گود میں تھا اور دونوں کے ہونٹوں پر ایک لفظ تھا:’اماں‘ ۔