خبریں

گجرات: مہسانہ کے ایک اسکول میں ٹاپر مسلم لڑکی کو ایوارڈ دینے سے انکار

گجرات کے مہسانہ ضلع کے شری کے ٹی پٹیل اسمرتی ودیالیہ میں مبینہ طور پر مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ارناز بانو کے والد نے الزام لگایا ہے کہ 10ویں  جماعت کی ٹاپر ان کی بیٹی کو 15 اگست کی ایوارڈ تقریب میں ایوارڈ سے سرفراز نہیں کیا گیا۔ وہیں پرنسپل نے کہا کہ طالبہ کو 26 جنوری کو ایوارڈسے سرفراز کیا جائے  گا۔

 (علامتی تصویر،بہ شکریہ: Hernán Piñera/Flickr)

(علامتی تصویر،بہ شکریہ: Hernán Piñera/Flickr)

نئی دہلی: جب ارناز بانو یوم آزادی کے موقع پر کلاس 10 اور کلاس 12 کے اعزاز میں اپنے اسکول کی طرف سےمنعقد ایک تقریب میں پہنچیں تو انہیں توقع تھی کہ اسٹیج پر سب سے پہلے ان کو بلایا جائے  گا۔ آخر کار وہ 87 فیصد نمبروں کے ساتھ 10ویں جماعت میں ٹاپر تھیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر جان بوجھ کر امتیازی سلوک کرنے کا معاملہ ہے، مہسانہ ضلع کے لنوا گاؤں میں واقع شری کے ٹی پٹیل اسمرتی ودیالیہ نے اپنی اس  اسٹار طالبہ کو اعزاز دینے سے انکار کردیا۔

بتایا جاتا ہے کہ ارنازبانو روتی ہوئی گھر واپس لوٹیں۔لنوا گاؤں کے رہنے والے ان کے والد سنور خان نے اس واقعے پر افسوس  کا اظہار کرتے ہوئے کہااسکول انتظامیہ نے ہمیں بتایا کہ جو ایوارڈ بیٹی کو ملنا چاہیے تھا، وہ دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی طالبہ کو دیا گیا۔ میں وضاحت طلب کرنے کے لیے اسکول کے حکام اور اساتذہ سے ملا، لیکن ان کے جواب غیر واضح تھے۔

والدنے مزید کہا کہ ،’انہوں نے یقین دہانی کرائی  ہے کہ ایوارڈ 26 جنوری کو دیا جائے گا، میرا سوال ہے کہ 15 اگست کو کیوں نہیں دیا گیا؟ایک کسان کے طور پر ہمارا خاندان یہاں نسلوں سے کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کیے بغیر رہ رہا ہے، لیکن اب میری بیٹی کو اس ایوارڈ کے لیے جان بوجھ کرنظر انداز کر دیا گیا، جس کی وہ حقدار تھی۔’

اسکول کے پرنسپل بپن پٹیل نے کہا، ‘ہمارے اسکول کی کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کے خلاف سخت پالیسی ہے۔اطمیان  رکھیں، مستحق طالبہ کو  26 جنوری کو اس کا ایوارڈملے گا۔ وہ مقررہ دن پرغیر حاضر تھیں، جس کی وجہ سے تقریب میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔’

سنور خان نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ‘پرنسپل کے دعوے کے برعکس، میری بیٹی اس دن اسکول گئی تھی۔ اسکول سی سی ٹی وی کیمروں سے لیس ہے، جو ضروری وضاحت فراہم کر سکتا ہے۔’

اس واقعے نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر کارکنوں اور شہریوں میں عدم اطمینان کی لہردوڑا دی۔ مصنف سلیل ترپاٹھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘یہ ہے مودی–یُکت  (مودی والے)انڈیا کی حالت ہے۔’

اسکول کے ٹیچر انل پٹیل کہتے ہیں،’15 اگست کا پروگرام ہمارے طالبعلموں کی حصولیابیوں کو تسلیم کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا جشن تھا۔ ایوارڈز باضابطہ طور پر 26 جنوری کو دیے جائیں گے، جس میں غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والوں کو شامل کیا جائے گا۔ ہم کسی بھی شکایت کو دور کرنے اور اپنے تمام طلبہ کی کوششوں کو تسلیم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔’

اس واقعے نے تعلیمی حصولیابیوں کے لیے مساوی سلوک اور ایوارڈ کے بارے میں وسیع تر سوال پیدا کر دیے ہیں، خاص طور پر وزیر اعظم کے ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ’ کے پیغام کے تناظر میں۔

یہ رپورٹ پہلی بار وائبس آف انڈیا پر شائع ہوئی ہے۔