ادبستان

’کرسی ہے، تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے…‘ جیسے حوالہ جاتی شعر کے خالق ارتضیٰ نشاط کی یاد میں

قمر صدیقی لکھتے ہیں؛ ارتضیٰ نشاطؔ بنیادی طور پر حسیت اور عصری شعور کے شاعر ہیں۔ لیکن انھوں  نے عصری سچائیوں کو سپاٹ نہیں ہونے دیا۔ آج کے دور میں گم ہوتے انسانی رشتوں کی عظمت کو ارتضیٰ نشاط  نے اپنے شعری اسلوب میں زندہ کردیا ہے۔

ارتضیٰ نشاط، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

ارتضیٰ نشاط، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

کہنہ مشق شاعر اور صحافی ارتضیٰ نشاط گزشتہ شب  (22اگست، منگل ) اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ ممبرا (ممبئی) میں انہوں نے آخری سانس لی۔وہ 85 سال کے تھے اور ایک عرصے سے علیل تھے۔حال  کے  دنوں میں ان کا شعر’کرسی ہے، تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے…‘سوشل میڈیا سے لے کر ایوان سیاست تک میں— سب سے زیادہ حوالے میں آنے  اور پڑھا جانے والا شعر رہا۔

اس کے علاوہ  روزنامہ ‘انقلاب’ ممبئی میں الف نون کے نام سے حالات حاضرہ پر ان کے قطعات  کی بھی خوب پذیرائی ہوئی۔

ان کے ادبی  فتوحات، شعری امتیازات اور بعض شخصی حوالوں سےمتعلق ڈاکٹرقمرصدیقی کی ایک بیش قیمتی تحریر ہم اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں—  (ادارہ)

ارتضیٰ نشاط 15 اکتوبر 1938 کو مدینتہ الاولیاء یعنی بدایوں میں پیدا ہوئےتھے۔ خاندان میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ہوش سنبھالتے ہی نشاط نے شعر و ادب کا ماحول اور ادبی سرگرمیوں کو دیکھا تھا۔

والد رضا حسین شاہد بدایونی نہ صرف شاعر تھے بلکہ اردو کے علمی و ادبی حلقے میں خاصے معروف بھی تھے۔وہ آل انڈیا ریڈیو ممبئی میں پروگرام پروڈیوسر کے عہدے پر فائز تھے۔ دادا مسکین حسین مسکین بدایونی ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ پردادا خادم حسین خادم بدایونی خواجہ مراق بدایونی کے شاگرد تھے، جنھیں ممتاز استاد شاعر ذوق دہلوی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔

ارتضیٰ نشاط نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں مدرسہ قادریہ میں حاصل کی۔ والد شاہد بدایونی کے ممبئی منتقل ہوجانے کے بعد تعلیمی سلسلہ کچھ عرصے کے لیے موقوف ہوگیا ۔بعد ازاں ان کا داخلہ انجمن اسلام ہائی اسکول، ممبئی میں کرایا گیا اور وہیں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔

گریجویشن کے لیے ارتضیٰ  نشاط نے پہلے نیشنل کالج باندرہ میں داخلہ لیا، لیکن ایک سال پڑھنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ در اصل اس زمانے میں ارتضیٰ نشاط نے خود کو پوری طرح شاعری کے لیے وقف کردیا تھا۔ والد کے بہت سمجھانے کے بعد انھوں نے گریجویشن کی تکمیل کے لیے مہاراشٹر کالج میں داخلہ لیا اور گریجویشن کی تعلیم پوری کی۔ نشاط نے کچھ عرصہ کے۔ سی کالج میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

 اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی وجہ سے ارتضیٰ نشاط کو ملازمت ملنے میں آسانی ہوئی۔ بمبئی میونسپل کارپوریشن کی ماتحت کمپنی ممبئی الکٹرک سپلائی اینڈ ٹرانسپورٹ جسے عرفِ عام میں بی ای ایس ٹی (بیسٹ) کہاجاتا ہے یہاں انھیں کلرک کی ملازمت مل گئی۔

اس طرح 7 نومبر 1957 کو ارتضیٰ نشاط نے قلابہ بس ڈپو میں اپنی ملازمت کا پہلا دن گزارا۔ یہاں نشاط نے ملازمت کے تقریباً تیس سال گزارے۔ 1987 میں مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی کے ایک مشاعرے میں معروف ترقی پسند نقاد ظ انصاری نے جو اس وقت روزنامہ ’انقلاب‘ کے مدیر تھے ارتضیٰ نشاط کو روزنامہ ’انقلاب‘ سے منسلک ہونے کی دعوت دی۔ اردو کا ماحول اور معقول مشاہرے کی وجہ سے نشاط ظ انصاری کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے روز نامہ ’انقلاب‘ سے منسلک ہوگئے۔

روزنامہ ’انقلاب‘ سے انھیں ایک دوسری پہچان بھی حاصل ہوئی ۔ اخبار میں روزانہ قطعہ نگاری کی روایت کو پاکستان میں رئیس امروہوی نے گویا اوجِ ثریا تک پہنچا دیا تھا۔ ہندوستان میں اس فن کو روزنامہ’انقلاب‘ کے توسط سے ارتضیٰ نشاط نے جلا بخشی۔

الف نون کے قلمی نام سے ان کے یہ قطعات اب تک شائع ہوکر عوام و خواص میں خاصے مقبول ہوئے۔

اخبار کی ملازمت سے نشاط کو ایک فائدہ بھی ہوا کہ وہ ترجمہ نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ ظ انصاری کی ایما پر معروف مراٹھی شاعر سریش بھٹ کی نعت کا اردو ترجمہ اور عمر خیام کی فارسی رباعیوں کا منظوم اردو ترجمہ اس کی مثالیں ہیں۔

ارتضیٰ نشاط نے معاشی وجوہات کی بنا پر گائی جانے والی غزلیں بھی لکھیں اورایچ ایم وی میوزک کمپنی کے شادی اور رخصتی وغیرہ کے گیت بھی لکھے۔ مشہور گلوکار پنکج ادھاس نے ان کی رباعیوں کا البم ’رباعی‘ تیار کیا ہے۔ غرض کہ ارتضیٰ نشاط نے ایک بھری پور ادبی زندگی گزاری ہے۔

شہر ممبئی میں 1970 کے بعد جو شعرا ادبی اُفق پر جلوہ افروز ہوئے ان میں نشاط سب سے زیادہ پُر گو اور تازہ کار ہیں۔

وہ دوستوں کی محفل ہو یا ادبی مجلس، شعری نشست ہو یا مشاعرہ ، کیفے الماس کی بیٹھکیں ہوں یا ادبی چشمکیں ارتضیٰ نشاط کی شخصیت ہمیشہ نمایاں ہی رہی ہے۔ ہمیشہ ہنستا، مسکراتا چہرہ ، دنیا جہان کا مشاہدہ کرنے والی گہری روشن آنکھیں ، ماتھے پر تفکر کی سلوٹیں چہرے پر سکون و اطمینان کی دبیز تہہ. نشاط اگر کسی سے خفا بھی ہوجائیں تو ایک ٹھہاکے کے ساتھ بات ختم کردیتے تھےکہ؛

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے

سمندر  میں پینے کا  پانی نہیں ہے

ارتضیٰ نشاط کا پہلا شعری مجموعہ ’ریت کی رسّی’ 1981 میں شائع ہوا۔ پھر ایک لمبے عرصے بعد تواتر سے تین شعری مجموعے ’ تکذبٰن‘ 2011۱ ،’ کہرام‘ 2012 اور ’واقعی ‘ 2016میں شائع ہوئے۔

پہلے مجموعے ’ریت کی رسّی‘ کو  ادبی حلقے میں میں کافی سراہا گیا ۔ معروف نقاد وارث علوی نے نشاط کی شاعری کے طنزیہ لہجے ‘وٹ’ کے حوالے سے ان کی خوب تحسین کی۔ فضیل جعفری نے لکھا ہے کہ ؛

’’ارتضیٰ نشاط کی شاعری ایک ایسے زندہ انسان کی شاعری ہے ، جس کے پانچوں حواس شب و روز بیدار رہتے ہیں اور زبان حال سے ہمیں اس دنیا کی سیر کراتے ہیں جسے بسا اوقات ہم دیکھ کر بھی نہیں دیکھ پاتے۔‘‘

وارث علوی نے نشاط کے یہاں جس طنزیہ اسلوب کی تحسین کی ہے وہ ’ریت کی رسّی ‘ کے علاوہ ان کے دیگر مجموعوں میں بھی موجود ہے۔ دراصل نشاط کی شاعری کا بنیادی اسلوب ہی یہی ہے۔فضیل جعفری نے نشاط کے ذریعے جس دنیا کو دِکھانے کی بات کہی ہے اس میں بنیادی پہلو یہ ہے کہ نشاط اس دنیا کا نظارہ باہر سے نہیں بلکہ اُس دنیا میں شریک رہ کر کرواتے ہیں۔ دور سے تماشا دیکھنا اور تماشا گروں پر ہنسنے کے باوصف وقت اور سماج کی ستم ظریفیوں میں خود کو بطور کردار شامل کرکے اپنے اوپر ہنسنا بڑے جگر کا کام ہے۔ نشاط کی شاعری ایسی ہی وابستگیوں کی شاعری ہے۔

لڑے کچھ اس طرح اب خیر شر سے

کہ جیسے ریت کی رسی ربر سے

بدل گئے ہیں کئی زاویے نگاہوں کے

عجیب چیز ہے آنکھوں میں اشک بھرجانا

ہر طرف تھا سمندر مگر

ہر زمیں کربلا سی رہی

سوئی ہوئی، تھکی تھکی سی لگی

نیند بھی رات زندگی سی لگی

نشاط کے اس لہجے کو عبد الاحد ساز نے ’استہزا کے کیف میں بسی ہوئی دردمند دیدہ وری‘ کہا ہے اور بالکل درست کہا ہے۔ مذکورہ بالا اشعار میں استہزائی کیفیت کے باوجود بین السطور میں در مندی کی جو لہر ہے اسے بھی قاری شعوری یا لا شعوری طور پر محسوس کرتا ہے۔ خیر اور شر کی جنگ ابتدائے آفرینش سے جاری ہے۔

ارتضیٰ نشاطؔ بنیادی طور پر حسیت اور عصری شعور کے شاعر ہیں۔ لیکن انھوں نے عصری سچائیوں کو سپاٹ نہیں ہونے دیا۔آج کے دور میں گم ہوتے انسانی رشتوں کی عظمت کو ارتضیٰ نشاط نے اپنے شعری اسلوب میں زندہ کردیا ہے۔

نشاط کی شاعری میں ڈرامائی عنصر بھر پور ہیں۔ ان کے بعض اشعار کے پورے کے مصرعے مکالمے کی صورت میں ہیں۔ علاوہ ازیں نشاط نے شاعری میں ڈرامے کی بعض تکنیک کی مدد سے اچھے شعر بھی کہے ہیں۔ منظر فریز کرنے کی تکنیک اس شعر میں ملاحظہ ہو؛

جیسے ہر شخص کوئی جرم کیے بیٹھا ہو

گھر میں گھستے ہی عجب گھر کی فضا لگتی ہے

اسی طرح فلم کی موشن ٹیکنک کو بھی انھوں نے اشعار میں بخوبی استعمال کیا ہے۔

ہمارا آسماں چھونا ، زمیں کا کھینچنا ہم کو

بلندی کی تڑپ ، پستی میں کیوں لے جانے لگتی ہے

ہوا میں ہوتے ہیں مضمون آس پاس کہیں

ذرا سا ہاتھ بڑھا دوں تو میری مٹھی میں

نشاط کے یہاں مکالماتی اشعار کی بھی کمی نہیں ہے، مثلاً؛

اِدھر اُدھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے

سڑک پہ آئو ، سمندر میں آزماؤمجھے

ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا

ڈوبنا سب کا مقدر ہے ڈراتا کیا ہے؟

کرسی ہے،  تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے

کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

زندگی کی ناہمواریوں کو شعری پیکر میں ڈھالنے کا کام تو ہر شاعر کرتا ہے دراصل اس میں ندرت ،بیان کی خوبی اور رمز و ایمایت سے پیدا ہوتی ہے۔نشاط اپنی ذات اور اپنے آس پاس بکھرے ہوئے خوشگوار یا ناخوشگوار عوامل کو لفظ و آہنگ کا پیکرہی نہیں دیتے بلکہ رمز و ایمایت کی مدد سے شعر کو زمان و مکان سے ماورا ایک وسیع کینوس بھی عطا کردیتے ہیں۔مثلاً؛

عجب ایک منظر نگاہوں میں ہے

کہ ہر شخص محتاط راہوں میں ہے

سب سے دلچسپ یہی غم ہے مری بستی کا

موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے

 ظاہر ہے کہ شعرکا انطباق ہمارے زمانے میں پھیلی بد امنی یعنی فسادات، دہشت گری اور ماب لنچنگ پربھی ہوسکتا ہے اور ہم سے پہلے اور بعد کے زمانوں کے نفرت اور تعصب پر بھی۔

اسی طرح پسماندگی ہر زمانے کی تلخ حقیقت ہے۔ اس شعر میں موت کیوں پسماندہ علاقے میں دوا بن جاتی ہے اس کی توضیح نہیں کی گئی ہے۔ ظاہر ہے یہی رمز اس شعر کی جان ہے۔ معاشی پستی تو سامنے کی بات ہے خود پسماندگی کی وجہ کیا ہے ؟ لوگوں کا پسماندگی کو قبول کرلینا اور اس سے نکل آنے کی جد و جہد نہ کرنا ہی دراصل پسماندگی کی اصل وجہ ہے اور بغیر جد و جہد کی زندگی ، زندگی نہیں موت ہوتی ہے۔

غزل کی شعریات میں رعایت و مناسبت ہی اہمیت مسلم ہے اور اچھے شعر کی پہچان بھی اسی سے قائم ہوتی ہے۔ نشاط کے اشعار میں رعایتوں کی مثالیں جا بجا ملتی ہیں۔

مرے جنون کی حد واقعی نہیں ملتی

تری گلی میں کھڑا ہوں گلی نہیں ملتی

محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں

صدف سے ابرِ گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے

پہلے شعر میں حد، گلی ، جنوں، کھڑا ، ملناوغیرہ بالکل سامنے کی رعایتیں ہیں اسی طرح دوسرے شعر میں نیچے اترنے کی مناسبت ابر سے اس طرح قائم ہوتی ہے کہ ابر بھی نیچے کی طرف گرتا ہے پھر ابر کی مناسبت سے زیرِ آب ، ابرِ گوہر بار سے صدف کی مناسبت گویا پورے شعر میں رعایتوں اور مناسبتوں کا ایسا روشن جہاں آباد ہے کہ آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔

ارتضیٰ نشاط ہمارے عہد کے ایسے شاعر تھے جنھوں نے فن اور موضوع دونوں سطحوں پر اپنی حیثیت منوائی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے فن کی پذیرائی نہیں ہوئی  ۔ ان کی شاعری پر وارث علوی، فضیل جعفری اور عتیق اللہ جیسے ناقدین کے علاوہ معاصرین میں عبد الاحد ساز، اعجاز ہندی اور شاہد لطیف وغیرہ نے مضامین لکھے ہیں۔ ’نیاورق‘ اور ’اردو چینل‘ جیسے معیاری رسائل نے گوشے شائع کیے۔

پروفیسر صاحب علی کی نگرانی میں شاہ محمد احمد نے ان کی شخصیت اور فن پر شعبہ اردو ، ممبئی یونیورسٹی سے ایم فل بھی کیا ۔ تاہم انھیں جو شہرت ملنی چاہیے تھی وہ نہیں ملی۔ اس کی وجہ خود ارتضیٰ نشاط کا قلندرانہ مزاج تھا۔

انھوں نے اپنے کلام کی اشاعت و تشہیر کے لیے کبھی تگ و دو نہیں کی ۔ انعام و اکرام کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ بغیر کسی خارجی حوالے اور کوشش کے صرف شاعری کے بوتے پر ارتضیٰ نشاط نے اپنی شناخت قائم کی۔ یہ بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی شاعری زندہ رہنے والی شاعری ہے۔

(قمر صدیقی اُردو کے ممتاز شاعر اور ادبی مجلہ ’اردو چینل‘ کے مدیر ہیں۔)