ادبستان

قاضی نذرالاسلام:  ہندو ہیں یا مسلمان، یہ سوال کون پوچھتا ہے؟

یوم وفات پر خاص: تحریک عدم تعاون کے پس منظر میں لکھی گئی نظم میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پکار کے بعد نذرالاسلام ‘باغی شاعر’ کہلائے۔ استعماریت، مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کے خلاف ان کی شاعری سے ہی انڈو-اسلامک نشاۃ ثانیہ کا آغاز تصور کیا جاتا ہے۔

قاضی نذرالاسلام۔ (فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

قاضی نذرالاسلام۔ (فوٹو بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)

‘کون پوچھتا ہے کہ ہندو کون  ہےاور مسلمان کون ہے؟

ناخدا کہہ دے کہ جو انسان غرق ہو رہے ہیں، وہ سب مادر گیتی کی اولاد ہیں۔’

(نظم ناخدا، ترجمہ؛ اختر حسین رائے پوری)

کہنے کی ضرورت نہیں ہےکہ ہندو مسلم ہم آہنگی  اور اتحاد کے علمبردار اور بنگلہ کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک قاضی نذرالاسلام نے جو استفہام 1926 میں اپنی نظم ‘ناخدا’ میں قائم کیا تھا، وہ آج بھی اتنا ہی بامعنی اور موزوں ہے، جتنا اس وقت تھاجب انہوں نے اس کوپہلی بار کانگریس کے اجلاس میں پڑھا  تھا، واضح طور پر ‘ہندو-مسلمان’ کرنے والے آج بھی کم نہیں ہوئے ہیں۔

مغربی بنگال کے اس وقت کے بردھمان ضلع کے آسنسول کے قریب چرولیا نامی گاؤں کے ایک مسلمان خاندان میں (جو ملک کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں کبھی حاجی پور (بہار) سے وہاں آکر آباد ہوا تھا اور ایک تعلقدار گھرانے سے وابستہ ہونے کے باوجود، جس کی اقتصادی حالت بد سے بدترتھی،اور اس کے آباؤ اجداد میں کبھی کسی کے قاضی ہونے کی وجہ سے تمام مرد اپنے نام میں  قاضی کا کا سابقہ  لگایا کرتے تھے۔) 25 مئی 1899 کو پیدا ہونے والے بیگم زاہدہ خاتون اور قاضی فقیر احمد کے بیٹے نذرل تمام ترمشکلات جھیلتے ہوئے اس قدر بجھے بجھے اور کھوئے کھوئے رہنے لگے تھے کہ لوگ انہیں دُکھو میاں کہہ کر بلاتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تمام رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے انہوں نے اپنی شخصیت کے تعمیر وتشکیل اس طرح سے  کی اور اس کو ہمہ گیربنایا  کہ جلد ہی وہ ہندو مسلم بھائی چارےکےسفیر، ہندو اور اسلامی فلسفے کے رابطہ کار، بغاوت اور انقلاب کے شاعر، موسیقار، ڈرامہ نگار، ناول نگار، صحافی  اور مجاہد آزادی کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

سال 1921 میں اس وقت کے مشہور پبلشر علی اکبر خان کی بھتیجی کے ساتھ ان کی شادی ٹوٹ گئی کیونکہ عین نکاح کے دن انہوں نے گھرجمائی بننے کی شرط سے انکار کر دیا،اس کے بعدانہوں نےبرہمن سماج کی پرمیلا سے بین مذہبی شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے ناراض مذہبی انتہا پسندوں نے  ان کے سامنے تمام رکاوٹیں پیدا کیں۔پھر، مولویوں کے خاندان سے ہونے کے بعدبھی نذرل کے پرمیلا کو اپنی شریک حیات بنانے سے پہلےکلمہ نہ پڑھوانے اور مسلمان نہ بنانے کی وجہ سےبھی لوگ خفا ہوگئے۔ لیکن نذرل نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، الٹے ان کو بری طرح سے جھڑک دیا۔ پھر پرمیلا ہندو ہی رہیں اور نذرل  شدت پسندو ں کی آنکھوں کی کرکری ۔ اس کے باوجود دونوں نے اپنے بیٹوں کے نام گنگا جمنی ہی رکھے- کرشنا محمد، ارندم چاولہ، قاضی سویہ ساچی اور قاضی انیرودھ۔ افسوسناک یہ ہے کہ ان میں سے پہلے دو کو انہوں نےان کے بچپن میں ہی کھو دیا۔

نذرل سمجھتے تھےکہ شدت پسندوں کو ایک دن سمجھ  میں آجائے گا اور وہ ان سے دشمنی کرنا چھوڑ دیں گے۔ لیکن، جب  انہوں نے بھکتی گیتوں اور نظموں میں اسلامی اور ہندو فلسفے کے عقائد کو ہم آہنگ کرنا شروع کیا تو ایک بار پھر وہ شدت پسندوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنے۔ کرشن بھکتی سے سرشار ان کے بھجن اور شیاما سنگیت بھی شدت پسندوں کو اچھے نہیں لگے۔ اس بات کو لے کر ہندودھرم  کے نام نہاد محافظ بھی ان سے ناراض ہو گئے اور اسلام کےپیروکاربھی۔ ان دونوں نے نہ صرف ان پر لفظوں کےتیر برسائے  بلکہ  ان پر حملہ بھی کیا۔ لیکن نذرل  کو مشتعل نہیں ہونا تھا اور وہ نہیں ہوئے۔

اس تناظرمیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نذرل کے ہمعصر رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے وقت کے بارے میں کہا تھاکہ ‘فی الحال  ملک پر کال راتری اتری ہوئی ہے۔’یہ کال راتری نذرل کے حصے بھی کچھ کم نہیں آئی۔ لیکن وہ جلد ہی اس کی تاریکی کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔پھر تو ان کی تخلیقات برطانوی سلطنت سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھنے والے ان  مجاہدآزادی کے ساتھ کسی بھی قیمت پر آزادی حاصل کرنے کے لیے بے چین عوام کے لیےمشعل راہ بن گئیں۔

سال 1920 اور 1940 کے درمیان جب وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے، سوویت یونین میں 1917 کے بالشویک انقلاب سے متاثر ہو کر انہوں نے ‘سرووہارا’ (پرولتاریہ)، اشتراکی، افلاس اور ‘درگا کا استقبال جیسی نظمیں لکھیں۔اس نظم میں تو انہوں نے ہندوستان کو غلام بنانے والےبرطانوی سلطنت کوقصائی تک بتا ڈالا تھا۔ جیسے ہی یہ نظم ان کی بنگالی میگزین ‘دھوم کیتو’ میں شائع ہوئی،گورے حکمرانوں نےبوکھلا کر اس کے دفتر پر چھاپہ مارا اور انہیں پکڑ لیا اور معافی مانگنے کو کہا۔ ان کے صاف انکار پر ان کے خلاف سیڈیشن کا مقدمہ چلایا گیا اور ایک سال کی سخت قید کی سزا سنائی گئی۔

لیکن نذرل جیل کی اذیتوں سے بھی نہیں ٹوٹے تو ملک کے تئیں ان کے جذبے کے مرید  رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا ڈرامہ ‘بسنتا’ ان کومعنون کر دیا۔ پھر تو نذرل نے بھی ان کے لیے نظمیں لکھیں۔ وقت کے ساتھ جہاں ٹیگورکو ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں کے قومی ترانے لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا، وہیں نذرل  ہندوستان کے1960کے پدم بھوشن، 1977 کے انڈپینڈنس ڈےایوارڈ ونر، اور بنگلہ دیش کے قومی شاعر بنے۔

نذرل نے مجموعی طور پر تین ہزار گیت تخلیق کیے، ان کےاس اسلوب کو ‘نذرل گیتی’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نذرل  کا خیال تھا کہ چونکہ دنیا کے تمام فنون عام لوگوں کے ہیں اور اسی کے لیے ہیں، اس لیے تمام فنکار چاہے وہ شاعر ہوں، کہانی کار ہوں یا موسیقار، عوام کے لیے وقف ہونا چاہیے۔

اگر ہم ان کی ابتدائی زندگی کو دیکھیں تو انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مدرسہ میں حاصل کی تھی۔ بعد ازاں رکاوٹوں کے درمیان انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور 1917 میں پڑھائی ترک کر کے  برطانوی فوج میں سارجنٹ بن گئے اور شمال–مغربی سرحدی صوبے کے نوشیرہ علاقے اور کراچی میں اپنی خدمات انجام دیں۔  کراچی ہی میں ہی 1919 میں ساؤگاٹ (دی گفٹ) نامی میگزین میں شائع ہونے والی ایک مختصر کہانی کے ذریعےان کا بنگالی ادبی منظر نامے پر ظہور ہوا۔

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر انگریزوں نےاس رجمنٹ کو ختم کر دیا جس میں وہ سارجنٹ تھے، تو وہ کلکتہ واپس آئے اور کالج اسٹریٹ پر ‘مسلم بھارت’ نام کےاخبار کے دفتر کے پاس ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کے بانیوں میں سے ایک مظفر احمد کے ساتھ رہنے لگے۔ بعد میں دونوں نے مل کر سوراج پارٹی قائم کی، اس کا پمفلٹ لکھا اور اس کے ترجمان لینگول کی ادارت بھی کی ۔ انہی دنوں انہوں نے اپنا پہلا ناول ‘بندھن ہارا’ بھی لکھا جو قسط وار ‘مسلم انڈیا’ میں شائع ہوا۔

سال 1919 میں پنجاب کے جلیانوالہ باغ میں ناقابل تصورقتل عام کے خلاف ملک گیر قومی تحریک شروع ہوئی اور رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا ‘سر’ کا خطاب واپس کر دیا، تو نذرل بھی اس سب کے محض گواہ بنے نہ رہ سکے۔ آزادی کی جدوجہد میں کود پڑے اور اپنی تمام تخلیقات اس کے لیے وقف کر دیں۔

ان دنوں دیش بندھو چترنجن داس کے رسالہ ‘بانگلارکتھا’  میں چھپے ان کے ایک انقلابی گیت نے انقلابیوں میں نیا جوش بھر دیا تھا۔ اس کے  ایک حصے کاآزادترجمہ ملاحظہ فرمائیں؛

 ‘اس آہنی دروازے کو توڑ دو / اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو / پتھروں کو خون آلود کردو/ آزادی کی دیوی کی پوجا  کے لیے اٹھو۔’

اسی طرح جب ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ‘اگنی وینا’ کے نام سےشائع ہوا تو ‘باغی’ کے عنوان سے ان کی نظم نے پورے بنگال کو انقلاب کے جذبے سے سرشار کر دیا؛

‘میں ہوں سرکش و شوخ و آتش نوا

ندیم قیامت نقیب فنا!

میں دہشت ہوں ، آندھی ہوں ، طوفان ہوں

خدائے تباہی کا فرمان ہوں

میں ہوں بربریت کا وہ دیوتا

لرزتے ہیں جس سے یہ ارض و سما

میں ہوں مادر ارض کا شیر مرد

قوانین ہیں میرے قدموں کی گرد

جواں مرد! کہہ دے میں ہوں سر بلند

میں باغی ہوں ، فطرت مری شعلہ کار

مری سانس ہے موج برق و شرار

میں بڑھتا ہوں یلغار کرتا ہوا

ہر اک قصر مسمار کرتا ہوا

کبھی رقص وحشت کا عنوان ہوں

کبھی آدمیت کی پہچان ہوں

کبھی راگنی ہوں کبھی راگ ہوں

کبھی آب جولاں، کبھی آگ ہوں’

(نظم باغی، مترجمہ؛ یزدانی جالندھری)

تحریک عدم تعاون کے پس منظر میں لکھی گئی اس نظم میں برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت کی پکار کے بعد انہیں ‘باغی شاعر’ کہا جانے لگا۔ برطانوی فوج میں سارجنٹ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں ‘حوالدار شاعر بھی کہتے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ استعماریت، مذہبی انتہا پسندی، اشرافیہ ذہنیت اور فسطائیت کے خلاف ان کی تخلیقات سے ہی انڈو-اسلامی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔

اس کے باوجود بنگالی دنیا میں ان سے حسد کرنے والا ایک طبقہ ہمیشہ رہا ہے، جو ان کی بے پناہ تخلیقی صلاحیت کی ہتک کرنے میں کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتا۔ اس طبقے کے بہت سے نقادوں نے ان کے ادب کو مغرور اور پاپولر ادب تک قرار دیتے ہوئے نیم خواندہ کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا، انہی پر مرکوز یعنی کمتر اور جمالیات سے عاری خیال کرتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ نذرل کو نہ تو لمبی عمر نصیب ہوئی اور نہ ہی ادبی تخلیق کی طویل مدت۔ ان کی تخلیقی مدت صرف دو دہائیوں تک ہی جاری رہ سکی۔ کم عمری میں ہی اپنے والد کو کھونے کے بعدزندگی سے جدوجہد کے مرحلے میں وہ  ایک مسجد میں مؤذن، پھر برطانوی فوج میں سارجنٹ بننے سے پہلے  گھریلو ملازم کے طور پر معمولی ملازمتیں اور ایک گھمکڑ لوک سنگیت منڈلی کا حصہ بننے کو مجبور ہوئے۔ پھر کسی طرح زندگی پٹری پر آئی تو 42 سال کی عمر میں  ہی ‘پک’ نامی دماغی بیماری نے انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر توڑ دیا۔

تاہم جب 1971 میں بنگلہ دیش بنا تو اس نے انہیں اپنا قومی شاعر بنا دیا۔ اس کے اگلے ہی سال 1972 میں اس نے حکومت ہند کی رضامندی کے ساتھ ان کو مدعو کیا  تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ اس کے دارالحکومت ڈھاکہ چلے گئے، جہاں چار سال بعد 1976 میں 29 اگست  کو یعنی آج ہی کے دن ان کا انتقال ہوگیا۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)