الیکشن نامہ

فیکٹ چیک: وزیر اعظم مودی اپنی انتخابی تقریروں میں مسلسل جھوٹے دعوے کر رہے ہیں

گزشتہ ہفتے 21 سے 25 اپریل کے درمیان ملک کے مختلف حصوں میں منعقد انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جو دعوے کیے ہیں، ان کے حوالے سے اسکرول کے فیکٹ چیک میں پتہ چلا ہے کہ اس مدت میں انہوں نے کانگریس کے خلاف لگاتار جھوٹ پھیلانے کا کام کیا ہے۔

راجستھان کی ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@BJP4Rajasthan)

راجستھان کی ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@BJP4Rajasthan)

نئی دہلی: گزشتہ ہفتے ملک کے مختلف حصوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دعووں کے حوالے  سے اسکرول نے ایک فیکٹ چیک کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ مودی نے ان ریلیوں میں بے تحاشہ جھوٹ بولا ہے۔یہ دعوے 21 اپریل سے 25 اپریل کے درمیان کیے گئے ہیں۔

اپریل21، بانس واڑہ

دعویٰ:  وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس کے منشور میں کہا گیا ہے کہ وہ شادی شدہ ہندو خواتین کے منگل سوتر سمیت ذاتی ملکیت کا سروے کرے گی، اس کو ضبط کرے گی اور (مسلمانوں میں)تقسیم کر دے گی۔ انہوں نے کہا تھا، ‘میری ماؤں اور بہنوں کی زندگی میں سونا صرف دکھاوا کرنے کے لیےنہیں ہوتا، اس کا تعلق ان کی عزت نفس سے ہوتا ہے۔ منگل سوتر ان کی زندگی کے خوابوں سے جڑا ہوتا ہے، تم  اپنے منشور میں اسے چھیننے کی بات کر رہے ہو۔’

حقیقت: کانگریس کے انتخابی منشور میں ذاتی املاک کی ضبطی کا کوئی ذکر نہیں ہے، منگل سوتر چھیننا تو  دور  کی بات ہے۔

دعویٰ: مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس کی پچھلی حکومت نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔

حقیقت: یہاں مودی نے 2009 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا ۔ منموہن سنگھ نے اس وقت صرف مذہبی اقلیت نہیں، بلکہ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات، خواتین اور بچوں سمیت تمام محروم طبقات کی ترقی کی ضرورت کے بارے میں بات کی تھی۔

دعویٰ: مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس آپ کی دولت جمع کرے گی اور اسے ‘دراندازوں’ اور ‘جن کے زیادہ بچے ہیں’ ان میں تقسیم کر دے گی – یہاں ان کا  اشارہ مسلمانوں کی طرف تھا۔

حقیقت: اس بات کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے کہ مسلمان ‘درانداز’  یعنی  گھس پیٹھیے ہیں – مودی حکومت نے بار بار پارلیامنٹ کو بتایا ہے کہ اس کے پاس غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی شرح پیدائش، اگرچہ ہندوؤں سے زیادہ ہے، لیکن دیگر تمام برادریوں کے مقابلے میں تیزی سے کم ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ ، تولید معاشیات کا موضوع ہے، نہ کہ مذہب کا؛ زیادہ ترقی یافتہ تمل ناڈو میں مسلمان غریب ریاست بہار کے ہندوؤں کے مقابلے کم  بچے پیدا کرتے ہیں۔

اپریل 22 ، علی گڑھ

دعویٰ: مودی نے وہی جھوٹا دعویٰ دہرایا کہ کانگریس کا منشور نجی املاک کے سروے اور ضبط کرنے کی بات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘کانگریس کے شہزادے (کانگریس لیڈر راہل گاندھی) کا کہنا  ہے کہ اگر ان کی حکومت آئی تو وہ اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ کون کتنا کماتا ہے، کس کے پاس کتنی جائیداد ہے، کس کے پاس کتنا پیسہ ہے، کس کے پاس کتنے مکان ہیں۔ یہی نہیں، ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت ان جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لے کر سب کو تقسیم کر دے گی۔ یہ ان کا منشور کہتا ہے۔’

حقیقت: کانگریس کے منشور میں یہ نہیں کہا گیا ہے۔ راہل گاندھی نے 6 اپریل کو منشور جاری کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ہم ملک کا ایکس—رے کریں گے۔ پسماندہ طبقات، دلت، آدی واسی، جنرل طبقہ کے غریب اور اقلیتوں کو پتہ چل جائے گا کہ ملک میں ان کا حصہ کتنا ہے۔ ‘تاہم، انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پارٹی نجی جائیدادوں کو ضبط کرے گی اور تقسیم کرے گی۔

دعویٰ: کانگریس یہاں تک جائے گی کہ اگر گاؤں میں آپ کا پرانا آبائی گھر ہے، بچوں کے مستقبل کے لیے آپ نے شہر میں چھوٹا سا فلیٹ لیا ہے۔ اور اگر پتہ چلا کہ آپ کا گاؤں میں بھی ایک  گھر ہے، تو دو میں سے ایک چھین لیں گے۔ آپ کو دو کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کے پاس نہیں ہے اسے دے دیں گے۔ کانگریس والے کہیں گے کہ آپ کے پاس گاؤں میں ایک  گھر تو پہلے سے ہی ہے۔ یہ ماؤسٹ سوچ ہے…؟ کانگریس آپ کی محنت کی کمائی اور آپ کی جائیداد پر پنجہ مارنا چاہتی ہے۔ عورتوں کی دولت لوٹنا چاہتی ہے۔

حقیقت: کانگریس کے منشور میں تقسیم کرنے سے متعلق واحد حوالہ یہ ہے؛ ‘کانگریس لینڈ سیلنگ ایکٹ کے تحت غریبوں کو سرکاری زمین اور فاضل زمین کی تقسیم کی نگرانی کے لیے ایک اتھارٹی قائم کرے گی۔’ یہ شاید ہی کوئی نیا انقلابی وعدہ ہے، کیونکہ ہندوستان کی 21 ریاستوں میں پہلے سے ہی لینڈ سیلنگ کے قوانین ہیں، جنہیں 1960 کی دہائی میں ملک میں زمین کی ملکیت میں تاریخی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا ۔

اپریل 23، ٹونک-سوائی مادھوپور

دعویٰ: راہل گاندھی کی تقریر سے ایکس—رے والا حوالہ اٹھاتے ہوئے مودی نے کہا، ‘ آپ کے گھر میں اگر باجرے کے ڈبے کے اندر کچھ رکھا  ہے، تو وہ بھی ایکس—رے کے ذریعے تلاش کیا جائے گا۔ اگر آپ کے پاس ضرورت سے زیادہ جائیداد ہوگی تو اس پر قبضہ کر کے لوگوں میں تقسیم کر دیں گے۔ اگر آپ کے پاس دو گھر ہیں، تو ایکس—رے کرکے ایک سرکار لے گی۔

حقیقت: نہ تو کانگریس کے منشور میں اور نہ ہی اس کے لیڈروں کی تقریروں میں حکومت کی طرف سے لوگوں کے مکانات کو ضبط کرنے اور اسے تقسیم کرنے کا کوئی ذکر ہے۔

دعویٰ: اسی تقریر میں، مودی نےپھر سے پہلے کے جھوٹے دعوے کو دہرایا کہ ‘منموہن جی نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے’۔

حقیقت: منموہن سنگھ کی مذکورہ تقریر وزیر اعظم کے دفتر کے محفوظ شدہ دستاویزمیں دستیاب ہے ۔ اس وقت وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے ایک وضاحت بھی جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ‘وزیر اعظم کا ‘وسائل پر پہلا حق کا سیاق و سباق’ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کی بہتری سے متعلق تھا۔’

سنگھ نے اپنی تقریر ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج راجندر سچر کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ کے ایک ماہ بعد دی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان تعلیم، آمدنی اور روزگار کے معاملے میں دیگر برادریوں سے کتنے پیچھے ہیں۔

اپریل24، ساگر

دعویٰ: مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس نے غیر قانونی طریقوں سے کرناٹک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کا اہتمام کیا ہے۔ ‘اس نے تمام مسلمانوں کو او بی سی کوٹا میں ڈال دیا اور او بی سی ریزرویشن کا بڑا حصہ چھین کر مذہب کی بنیاد پر انہیں دے دیا۔’

حقیقت: 1962 میں، کرناٹک میں کانگریس حکومت نے مذہب کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ آر ناگنا گوڑا کمیشن کی سفارش پر مسلم کمیونٹی کی کچھ ذاتوں کو او بی سی میں شامل کیا تھا۔ اس سے بہت پہلے میسور کے مہاراجہ نے 1921 میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کی پالیسی شروع کی تھی۔

بعد میں، 1994 میں، ایچ ڈی دیوے گوڑا کی قیادت والی جنتا دل (سیکولر) حکومت نے کرناٹک میں تمام مسلم کمیونٹی کو او بی سی کی فہرست میں شامل کیا اور ان کے لیے 4 فیصد ذیلی کوٹا بنایا۔ جنتا دل (سیکولر) فی الحال بی جے پی کی اتحادی ہے۔

کرناٹک ان 14 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سماجی اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر مسلم برادریوں کو او بی سی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

گجرات، جہاں مودی 12 سال تک وزیر اعلیٰ رہے، میں بھی مسلم کمیونٹی او بی سی کیٹیگری میں شامل ہیں۔ دو سال قبل اے این آئی کو دیے ایک انٹرویومیں ،مودی نے ریاست میں 70 مسلم ذاتوں کو ریزرویشن کا فائدہ ملنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اپریل24، سرگجا

دعویٰ: مودی نے کہا، ‘کانگریس نے برسوں پہلے آندھرا پردیش میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی کوشش کی تھی اور اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر 15 فیصد ریزرویشن کی بات کہی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایس سی/ ایس ٹی/ او بی سی کا جو کوٹا ہے اس میں کٹوتی کرکے مذہب کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو ریزرویشن دیا جائے۔ کانگریس نے اپنے 2009 کے انتخابی منشور میں اسی ارادے کا اظہار کیا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے 2014 کے منشور میں بھی انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔’

حقیقت: آندھرا پردیش کی کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو 5فیصد ریزرویشن دینے کے لیے 2005 میں ایک قانون پاس کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس قانون کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ مذہب ‘شہریوں کے کسی بھی طبقے کو سماجی طور پر پسماندہ قرار دینے کی واحد بنیاد’ نہیں ہو سکتا۔

اپنے 2009 کے منشور میں کانگریس نے کہا کہ وہ اقلیتوں کو ان کی ‘سماجی اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر’ ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے پابند عہد ہے۔

اپنے 2014 کے منشور میں کہا تھا کہ،’کانگریس تمام درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے موجودہ ریزرویشن کو کسی بھی طرح سے متاثر کیے بغیر تمام برادریوں کے معاشی طور پر کمزور طبقوں کے لیے تعلیم اور روزگار میں ریزرویشن شروع کرنے کے لیے ایک راستہ تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہے۔’

پارٹی کے 2019 کے منشور میں اس پر کچھ نہیں تھا، جبکہ 2024 کے منشور میں کہا گیا ہے، ‘ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اقلیتوں کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، روزگار، عوامی کاموں کے ٹھیکوں، اسکل ڈیولپمنٹ، کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں بلا تفریق مواقع کا مناسب حصہ ملے۔’

دعویٰ: اسی تقریر میں مودی نے اس دعوے کو دہرایا کہ کانگریس نے کرناٹک میں مذہب کی بنیاد پر کوٹا نافذ کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘جب وہاں بی جے پی کی حکومت آئی تو ہم نے آئین کے خلاف اور بابا صاحب امبیڈکر کے جذبے کے خلاف کانگریس کی طرف سے لیے گئے فیصلے کو اکھاڑ پھینکا اور دلتوں، آدی واسیوں اور پسماندہ طبقات کو ان کے حقوق واپس دیے۔’

حقیقت: مارچ 2023 میں کرناٹک میں بی جے پی حکومت نے مسلم او بی سی کے لیے 4 فیصد ذیلی کوٹا ختم کر دیا تھا، لیکن اس نے دلتوں اور آدی واسیوں کے لیے کوٹا دوبارہ مختص نہیں کیا۔ بلکہ، اس نے یہ کوٹا ریاست کی دبدبے والی برادریوں، لنگایت اور ووکلیگاؤں کو منتقل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اپریل 2023 میں اس حکم پر یہ کہتے ہوئے روک لگا دی تھی کہ یہ ‘پہلی نظر میں غلط‘ ہے ۔

دعویٰ: مودی نے ایک اور دعویٰ کیا، ‘اب کانگریس کہتی ہے کہ وہ وراثت ٹیکس لگائے گی، والدین سے ملنے والی وراثت پر بھی ٹیکس لگائے گی۔ آپ جو اپنی محنت سے پراپرٹی بناتے ہیں، وہ آپ کے بچوں کو نہیں ملے گی، بلکہ کانگریس حکومت کا پنجہ اسے بھی آپ سے چھین لے گا۔’

حقیقت: کانگریس کے منشور میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے، ‘ہم پالیسیوں میں مناسب تبدیلیوں کے ذریعے دولت اور آمدنی کی بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو دور کریں گے۔’ امریکہ میں مقیم کانگریس کے سابق مشیر سیم پترودا نے کہا کہ وراثت ٹیکس ایک ‘دلچسپ خیال’ہے لیکن پارٹی نے باضابطہ طور پر خود کو ان کے تبصروں سے الگ کر لیا ہے۔

اپریل24، بیتول

دعویٰ: مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی گروپوں سے ریزرویشن چھین کر ‘خاص الخاص’ یا خصوصی ووٹ بینک کو دینا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے دعوے کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس ‘اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے’ کے لیے ذاتی املاک کو ضبط کرنے اور اسے تقسیم کرنے کی سازش کر رہی ہے۔

حقیقت: کانگریس کے منشور میں نہ تو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی بات کی گئی ہے اور نہ ہی دولت کی دوبارہ تقسیم کے بارے میں۔

دعویٰ: پھر سے وراثت ٹیکس کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس جھوٹ بول رہی ہے اور کہا کہ یہ صرف سیم پترودا کی ‘ذاتی رائے’ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 2011 میں بھی کانگریس نے اس ٹیکس کی وکالت کی تھی۔

حقیقت: 2011 میں اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے وراثت ٹیکس کا خیال پیش کیا تھا۔ لیکن کانگریس اس پر غور کرنے والی اکیلی نہیں ہے۔ 2017 میں مودی حکومت میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بھی اس خیال کا اظہار کیا تھا۔

اپریل 25، آگرہ

دعویٰ: مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے او بی سی کے 27 فیصد کوٹے کا ایک حصہ چرانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

حقیقت: کانگریس کے منشور میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

دعویٰ: مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس کا منصوبہ خاندان کے لوگوں  کو ملنے سے پہلے 55 فیصد پراپرٹی کو ضبط کرنے کا ہے، پھر دلیل دی کہ ‘جو پراپرٹی آپ اپنی اگلی نسل کو وراثت میں دے رہے ہیں، اس میں سے نصف سے زیادہ یہ ٹیکس لگا کر لوٹنا چاہتے ہیں’۔

حقیقت: کانگریس کے منشور میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اس نے سیم پترودا کے تبصروں سے بھی خود کو الگ کر لیا ہے۔

اپریل25، مرینا

دعویٰ: مودی نے دعویٰ کیا، ‘جب اندرا گاندھی نہیں رہیں اور ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو وراثت میں ان کی جائیداد ملنی تھی تو یہ پیسہ حکومت کے پاس نہ چلا جائے، اس لیے اپنی جائیداد کو بچانے کے لیے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے وراثت ٹیکس کوختم کر دیا تھا۔ ‘

حقیقت: 1985 میں اس وقت کے وزیر خزانہ وی پی سنگھ نے جو ختم کیا تھا وہ متوفی شخص کی جائیداد پر لگائی جانے والی ویلتھ ڈیوٹی تھی، نہ  کہ وراثت ٹیکس۔

اپریل25، آنولہ

دعویٰ: اس بار مودی نے دعویٰ کیا، ‘صرف اقتصادی ہی نہیں، بلکہ کانگریس کا ارادہ اداروں اور دفاتر کا بھی سروے کرانے کا ہے۔ یعنی اگر ایک پسماندہ دلت خاندان میں دو لوگ نوکری میں ہیں تو ایک نوکری چھین کر یہ لوگ ان کو دیں گے، جن کا کانگریس کے مطابق ملک کے وسائل پر پہلا حق ہے۔’

حقیقت: کانگریس نے نہ تو اپنے منشور میں اور نہ ہی اس کے لیڈروں کی تقریروں میں پسماندہ طبقے یا دلت خاندانوں سے نوکریاں چھیننے کی بات کہی گئی ہے۔ پارٹی کے منشور میں کہا گیا ہے، ‘کانگریس ذاتوں اور ذیلی ذاتوں اور ان کے سماجی و اقتصادی حالات کی گنتی کے لیے ملک گیر سماجی، اقتصادی اور ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائے گی۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم مثبت کارروائی کے ایجنڈے کو مضبوط کریں گے۔’

(یہ رپورٹ اسکرول پر شائع ہوئی تھی)