گزشتہ 31 جولائی کو نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد سے کسانوں نے ہریانہ میں فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیےعلاقے میں تین بڑی بیٹھکیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ کھاپ پنچایتوں کی اسی طرح کی 20 سے زیادہ بیٹھکیں ہو چکی ہیں۔ کسانوں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لوگ آئندہ ریاستی اور پارلیامانی انتخابات سے قبل ‘پولرائزیشن کو روکنے’کے لیے متحد’ ہوگئے ہیں۔
نئی دہلی: راجستھان کے الور میں گزشتہ سنیچر (26 اگست) کو منعقد ایک مہاپنچایت میں ہزاروں کسان جمع ہوئے اور ہریانہ کے نوح میں ہوئے حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کے تناظر میں نفرت کی سیاست کا مقابلہ کرنے کا عہد کیا۔
گزشتہ 31 جولائی کو ہریانہ کے نوح، گڑگاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ایک ریلی کے دوران مسلم مخالف تشدد کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ ان واقعات کے بعد کسانوں کی تنظیموں نے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا مقابلہ کرنے کے لیے جند، حصار اور میوات میں تین بڑی بیٹھکیں کی ہیں۔
اس کے علاوہ، میوات کے علاقے میں تقریباً دو درجن مقامی کھاپ پنچایتوں کی بیٹھکیں منعقد کی گئی ہیں، جو ہریانہ اور پڑوسی راجستھان دونوں میں پھیلا ہوا ہے۔
گزشتہ 9 اگست کو حصار کے باس گاؤں کی اناج منڈی میں کسانوں کی ایک بیٹھک، جو اصل میں کسانوں کے مسائل پر بات کرنے کے لیے بلائی گئی تھی، کا نام بدل کربھائی چارہ سمیلن کر دیا گیا تھا، تاکہ نوح اور گڑگاؤں میں ہوئے تشدد اور اس کے بعد مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے ہندوتوا گروپ کے ہیٹ اسپیچ کے خلاف کھڑا ہوا جا سکے۔
نفرت کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے بعد سے ہریانہ میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے اس طرح کے بائیکاٹ کی اپیل بڑی حد تک رک گئی ہیں۔
کسان رہنما شمشیر سنگھ مورے نے دی وائر کو بتایا،’یہ کسانوں کی وارننگ کا اثر ہے کہ ہریانہ میں مزید خونریزی ٹل گئی ہے۔’
انہوں نے کہا،’میواتی ہمارے بھائی ہیں۔ وہ کسانوں کے احتجاج کے دوران ہمارے ساتھ کھڑے رہے اور لنگر کا اہتمام کیا۔ اس دوران بی جے پی کے حامیوں نے ہم پر حملہ کیا اور ہمیں دہشت گرد کہہ کر بدنام کیا۔ ہم کوئی احسان نہیں کر رہے بلکہ ان شرپسندوں کے خلاف اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، جو ملک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگ آنے والے ریاستی اور پارلیامانی انتخابات سے پہلے ‘پولرائزیشن کو روکنے’ کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ یادکیا جا سکتا ہے کہ کسانوں کے علاوہ پہلوانوں کے طویل احتجاج نے بھی بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ پہلوانوں نے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی ) کے سابق سربراہ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ریاست کی توجہ مذہبی تنازعات کے بجائے تعلیم اور کسانوں کے مسائل پر مرکوز ہونی چاہیے۔’
کسان لیڈر سریش کوتھ، جو تین متنازعہ فارم قوانین کے خلاف احتجاج کا ایک نمایاں چہرہ رہے ہیں، نے کہا کہ اس طرح کی بیٹھک وقت کی ضرورت ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ہم اپنی ریاست کو بچانا چاہتے ہیں۔ ہم ہریانہ میں بدامنی نہیں چاہتے۔ ہم دنگے نہیں چاہتے۔‘انہوں نے مونو مانیسر جیسے نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی پر سوال اٹھایا، جن پر دو مسلمانوں کے قتل کا بھی الزام ہے۔
ایک اور کسان لیڈر چودھری چھوٹو رام نے کہا کہ کسانوں کا حد سے زیادہ مذہبی ہونا لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘بطور ہندو ہم تعداد میں زیادہ ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ جو لوگ تعداد میں کم ہیں ہم انہیں کسی بھی قسم کے حملے سے بچائیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی ان پر انگلی اٹھائے، اسے ہمارا سامنا کرنا پڑے گا۔’
معلوم ہو کہ نوح میں گزشتہ 31 جولائی کو دوپہر 2 بجے کے قریب فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا، جب مسلم گروپوں نے مبینہ طور پر ہندو دائیں بازو کے گروپوں کے جلوس پر حملہ کیا تھا۔ یہ تشدد گڑگاؤں تک پھیل گیا تھا۔ 1 اگست کو تشدد کے دوران گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں کم از کم 14 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا، جن میں سے اکثر دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔
دریں اثنا، ہریانہ حکومت نے31 جولائی کو منعقد یاترا کی طرح گزشتہ سوموار (28 اگست) کو نوح میں ایک اور ‘شوبھا یاترا’ منعقد کرنے کی اجازت دینے سے ہندوتوا گروپوں کو انکار کر دیا۔
اگرچہ ہندوتوا گروپوں نے اجازت نہ ملنے کے باوجود سوموار کو ریلی نکالنے کی قسم کھائی تھی، لیکن پولیس نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ اس کے بجائے، پولیس نے 10-20 لوگوں کے گروپوں کو مختلف مندروں میں جل ابھیشیک کرنے کی اجازت دی۔
تشدد کے خدشے کے پیش نظر سوموار کو نوح اور گڑگاؤں میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ کسانوں نے پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر ہریانہ حکومت نے ہندوتوا گروپوں کو کسی بھی ریلی کی اجازت دی تو وہ ٹریکٹر ریلی نکالیں گے۔ کسان ہریانہ اور مرکز کی بی جے پی حکومتوں پر میوات میں مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے ہندوتوا گروپوں کی سرپرستی کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
کسانوں کی میٹنگ اور کھاپ پنچایتوں کو قریب سے کور کرتے رہے صحافی مندیپ پونیا نے کہا کہ ہندوتوا گروپوں کے خلاف ان طاقتوں کے ایک ساتھ آنے کی وجہ سے میوات کے علاقے میں حالات خراب نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہریانہ کی سیاست پر کھاپوں کا دبدبہ ہے، اس لیے کسی بھی اور بحران کو ٹالنے میں ان کے اثرات کودیکھا جاسکتا ہے۔
ان میں سے کچھ بیٹھکوں میں شرکت کرنے والے راشٹریہ لوک دل کے ترجمان بھوپندر چودھری نے دی وائر کو بتایا کہ فی الحال ان بیٹھکوں کے بڑے سیاسی اثرات سے زیادہ جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یکجہتی کا پیغام ہے۔
انہوں نے کہا، ‘جب ایک غالب کمیونٹی نفرت کی سیاست کو مسترد کرتی ہے، تو یہ دیگر تمام کمیونٹی کو ایک پیغام جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اور ہر کوئی دوسری طرف نہیں ہے۔ یہ یقین دہانی اہم ہے۔’
دریں اثنا، بی جے پی کے اتحادی پارٹنر اور نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ نے کہا تھا کہ اگر منتظمین نے انتظامیہ کے ساتھ درست معلومات شیئر کرتے تو نوح میں تشدد کو روکا جا سکتا تھا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں