دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سربراہ کی جانب سے دائر عرضی میں درخواست کی گئی ہے کہ فرسٹ لیول چیکنگ(ایف ایل سی) کی تکمیل سے قبل سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو ای وی ایم کے سیریل نمبر اور مینوفیکچررز کی تفصیلات دستیاب کرائی جانی چاہیے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے منگل (29 اگست) کو الکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے سیریل نمبر اور مینوفیکچررز کی تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق پی آئی ایل کو مسترد کر دیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ فرسٹ لیول چیکنگ (ایف ایل سی) مکمل ہونے سے قبل یہ تفصیلات سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو فراہم کی جانی چاہیے۔
یہ عرضی دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے سربراہ انل چودھری نے دائر کی تھی۔
واضح ہو کہ لوک سبھا انتخابات سے قبل مشینوں کی ایف ایل سی تصدیق اس عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔ تاہم، پٹیشن میں تصدیق کے عمل کے اعتبار پر شکوک و شبہات کااظہار کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیاتھا کہ کانگریس کی جانب سے اس عمل کے بائیکاٹ کے باوجود ایف ایل سی کو مکمل کر لیا گیا اور انہیں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
ایک بار ایف ایل سی کی تکمیل کے بعد مشینوں کو سیل کر دیا جاتا ہے اور مخصوص گوداموں میں رکھا جاتا ہے اور صرف اس وقت کھولا جاتا ہے جب ووٹنگ کا عمل شروع ہوتا ہے، جو عام طور پر ووٹنگ کے نوٹیفیکیشن کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دہلی کے لیے ایف ایل سی مکمل ہو گیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ، اگر ہمارے پاس یہ اہم تفصیلات نہیں ہیں تو مشینیں دیکھنے کا کیامطلب ہے؟ تمام مشینیں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مشین کا سیریل نمبر ہماری فہرست سے میل کھاتا ہے، انہیں [ہمیں]سیریل نمبر، ماڈل، مینوفیکچرر کے بارے میں بتانا ہوگا۔ وہ ہمیں 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں استعمال ہوئے بنیادی ہارڈ ویئر کے بارے میں جانکاری دینے سے انکار کر رہے ہیں۔’
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو تیاری کی بیٹھکوں کے لیے مدعو کرتے ہوئے خطوط بھیجے گئے تھے۔ یہ بیٹھکیں 6 سے 12 جولائی کے درمیان ہونی تھیں۔ یہ خطوط مختلف ایس ڈی ایم کی طرف سے جاری کیے گئے تھے، جو ایف ایل سی منعقد کرنے کے مجاز ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ای وی ایم اور ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریلز (وی وی پی اے ٹی) کی جانچ دہلی کے مختلف حصوں میں متعلقہ ضلع ہیڈکوارٹر پر کی جائے گی۔
تاہم، پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کو دور کرنے کے بجائےدہلی کے چیف الیکٹورل آفیسرایف ایل سی کی تاریخوں کو حتمی شکل دینےلگے، جو 15 جولائی سے 30 جولائی تک منعقد ہونا تھی۔ چونکہ پارٹی کے خدشات کو دور نہیں کیا گیا، کانگریس نے ایف ایل سی کےاس عمل کا بائیکاٹ کیا۔
بتایا گیا تھا کہ ایس ڈی ایم نے کانگریس کو ایک خط بھیجا تھا جس میں اس سے اس عمل میں حصہ لینے کی درخواست کی گئی تھی، لیکن پارٹی نے ایسا نہیں کیا اور اس کے بغیر ایف ایل سی کا انعقاد کیا گیا۔
دہلی، کیرالہ اور جھارکھنڈ کے لیے ایف ایل سی مکمل ہو چکا ہے اور یہ عمل پانچ ریاستوں میں جاری ہے۔
عرضی گزار نے چیف الیکٹورل آفیسر کے سامنے ایک درخواست پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس معلومات کے بغیر وہ اپنے عہدیداروں کو تربیت دینے سے قاصر ہوں گے۔ یہ افسران انتخابی عمل میں شریک ہوں گے۔
چیف الیکشن آفیسر رنبیر سنگھ نے نمائندوں کی بات سنی۔ تاہم، انہوں نے پارٹی رہنماؤں کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی۔
پی آئی ایل میں کہا گیا ہے، ‘الیکشن کمیشن کی پوری کوشش انتہائی خفیہ ہے۔ ایف ایل سی کی شروعات کے لیے اپنایا گیا عمل شفاف نہیں تھا، متعلقہ حکام کی جانب سے صرف زبانی یقین دہانیاں کروائی گئیں۔ چیف الیکٹورل آفیسر نے 10 اگست کو ایک تحریری جواب میں کانگریس کے دلائل کو مسترد کر دیا، جس کے بعد درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کیا۔
درخواست گزار نے 2017 اور 2022 کے سرکلر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق، ایف ایل سی کا عمل چھ ماہ قبل شروع ہوا تھا۔ تاہم اس بار چیف الیکٹورل آفیسر کی جانب سے من مانے طور پر تین ماہ قبل عمل شروع کیا گیا، جس کی وجہ سے ‘اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعتیں اس پورے عمل کی خاموش تماشائی بن کر رہ گئی ہیں۔’
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایف ایل سی کا عمل الیکشن مینوئل کے مطابق ہو رہا ہے جسے درخواست گزاروں نے چیلنج نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘مینوئل میں کہا گیا ہے کہ ایف ایل سی کے بعد مشین کو نمائندوں کی موجودگی میں سیل کر دیا جاتا ہے اور پھر تفصیلات دی جاتی ہیں۔ اگر تفصیلات ایف ایل سی سے پہلے دی جائے تو یہ ایک بوجھل مشق ہوجائے گی اور ایف ایل سی کو ملک بھر میں نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی مشق نہیں ہے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے جگدیپ چھوکر کہتے ہیں،’ایف ایل سی الکٹرانک ووٹنگ کے عمل کا پہلا قدم ہے۔ سارا عمل شفاف اور جانچ کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔ ضروری ہے کہ ایف ایل سی کے نتائج شیئر کیے جائیں ورنہ ابہام کا پردہ ای وی ایم کے کام کرنے کے طریقے کو چھپاتا رہے گا۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں