خبریں

مہاراشٹر: عشرت جہاں انکاؤنٹر پر لکھی گئی کتاب سے متعلق  تقریب کو پولیس کیوں نہیں ہونے دے رہی

ممبئی ٹرین بلاسٹ کیس میں پھنسائے گئے  اور پھر بری کیے گئے واحد شیخ کی عشرت جہاں انکاؤنٹر پر لکھی کتاب عوامی معلومات، سی بی آئی کی تحقیقات اورعشرت کے اہل خانہ سے بات چیت پر مبنی ہے۔ تاہم، مہاراشٹر پولیس اس سے متعلق پروگرام منعقد کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے کتاب کو’حکومت مخالف’ بتا رہی ہے۔

کتاب سے متعلق ایک پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے واحد۔ (نیلے کپڑوں میں) (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کتاب سے متعلق ایک پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے واحد۔ (نیلے کپڑوں میں) (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

ممبئی: اس سال جنوری سے انسانی حقوق کے کارکن اور سابق قیدی واحد شیخ اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب عشرت جہاں انکاؤنٹر کے بارے میں مذاکرہ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب 19 سالہ کالج طالبعلم کی مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ہلاکت کے پیچھے کی حقیقت کو سامنے لاتی ہے۔

تاہم، اس کتاب کے اجراکے پروگرام کو ہر بار روک دیا گیا ہے اور پولیس نے پروگرام کو یہ کہہ کر روکاہے کہ کتاب ‘حکومت مخالف ہے، اس لیے وہ کتاب کے بارے میں کسی عوامی پروگرام یا مذاکرہ  کی اجازت نہیں دے سکتے۔

گزشتہ 26 اگست کو ممبئی کے باہری علاقےبھیونڈی میں ایک تقریب کو پولیس نے آخری لمحے میں منسوخ کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس پروگرام کی وجہ سے آس پاس کی ہندو تنظیمیں مشتعل ہوجائیں گی۔

آرگنائزر اور مقامی حقوق کے کارکن نوید احمد مومن نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے 12 اگست کو ضروری اجازت کے لیے پولیس سے رابطہ کیا۔ مومن نے دعویٰ کیا،’میں نے ایک خط، مقررین کے نام اور کتاب کی ایک کاپی حوالے کی تھی۔ لیکن پورے ایک ہفتےتک  پولیس مجھے تھانے آتے رہنے کو کہتی رہی۔ حتیٰ کہ انہوں نےاس   خط کو قبول کرنے سے بھی انکار کردیا۔’

آخر کار، تقریب سے چند دن پہلے نظام پور پولیس اسٹیشن کے سینئر پولیس انسپکٹر (پی آئی ) نے ایک خط جاری کیا، جس میں تقریب کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ خط میں پوار نے دعویٰ کیا کہ چونکہ یہ کتاب ‘حکومت مخالف’ ہے اور ماضی میں ‘کافی تنازعات’ پیدا کر چکی ہے، اس لیے آس پاس کے ہندو دائیں بازو کے گروہوں کی طرف سے اعتراضات کا باعث بن سکتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر وہ اس پروگرام کی اجازت نہیں دے سکتے۔

آٹھ ماہ قبل اردو میں شائع ہونے والی اس کتاب کی رسائی محدود تھی اور آج تک اس پر کوئی خاص بحث نہیں ہوئی۔ دی وائر نے کئی بار پوار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ اگر وہ جواب دیتے ہیں تو خبرکو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

واحد شیخ کو 2006 میں 11 جولائی 2006 کے ممبئی سیریل  ٹرین بلاسٹ کیس کے ایک ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے تقریباً نو سال تک طویل قید کا سامنا کیا، جس کے بعد مکوکا کی خصوصی عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔

جیل میں رہتے ہوئے شیخ نے اپنی یادداشتیں لکھنا شروع کیں، جو بعد میں اردو میں شائع ہوئیں اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ شیخ نےاس کیس میں پھنسے اور قصوروار ٹھہرائے گئے دیگر افراد کی پیروی  جاری رکھی ہے۔ شیخ کا کہنا ہے کہ ان کی طرح اس کیس میں قصوروار ٹھہرائے گئے تمام لوگ بے قصور ہیں اور انہیں ممبئی پولیس نے قربانی کا بکرا بنایا ہے۔

پبلک ڈومین میں دستیاب معلومات کے مطابق، عشرت جہاں انکاؤنٹر پر شیخ کی کتاب اس کیس کی سی بی آئی تحقیقات اور عشرت کی ماں اور خاندان کے دیگر افراد کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔

ممبرا کی رہنے والی عشرت کو جون  2004 میں گجرات پولیس نے تین لوگوں کے ساتھ ایک ‘انکاؤنٹر’ میں مار گرایا تھا۔اس بارے میں ہوئی  مجسٹریل انکوائری، ایس آئی ٹی انکوائری اور سی بی آئی انکوائری سب نے یہ نتیجہ اخذ کیا  تھاکہ یہ فرضی انکاؤنٹر تھا اور پولیس کا یہ دعویٰ کہ ‘اپنے دفاع’ میں عشرت کو گولی ماری گئی تھی، جھوٹاتھا ۔

عشرت جہاں۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

عشرت جہاں۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

جولائی 2013 میں فرضی انکاؤنٹر کے تقریباً ایک دہائی بعد، ماورائے عدالت قتل، اغوا، مجرمانہ سازش وغیرہ کے لیے گجرات پولیس کے سات افسران (فروری 2014 میں ایک ضمنی چارج شیٹ میں بھی) اور انٹلی جنس بیورو کے چار افسران کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی تھی۔ سی بی آئی کی جانچ نے اس امکان کی طرف بھی اشارہ کیا تھاکہ فرضی انکاؤنٹر کو گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ امت شاہ اور حتیٰ  کہ وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے بھی پیشگی منظوری حاصل تھی۔

اس کتاب پر پہلے بھی پروگرام منعقد کرنے کی کوشش کی گئی تھی

بھیونڈی میں ایک عوامی تقریب کے انعقاد سے پہلے شیخ نےپورے  مہاراشٹر ممبرا، جلگاؤں اور پونے میں اسی طرح کا مذاکرہ منعقد کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر بار پولیس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے پروگرام کو روکنے کی کوشش کی کہ یہ متنازعہ اور حکمراں بی جے پی حکومت کے خلاف  تھا۔

جہاں جلگاؤں اور پونے میں پروگرام منسوخ کر دیے گئے، وہیں بھیونڈی اور ممبرا میں پولیس کی  دھکا مکی  اور مبینہ دھمکیوں کے درمیان پروگرام جاری رہے۔

مومن کہتے ہیں،‘بھیونڈی میں بڑی تعداد میں پولیس جمع تھی۔ یہ ایک چھوٹی سی تقریب تھی اور صرف ان لوگوں کے لیے تھی جنہیں مدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے پولیس کو بتایا تھا کہ پروگرام میں 40-50 سے زیادہ لوگ شریک نہیں ہوں گے۔ پھر بھی پولیس نے ہمیں اجازت نہیں دی۔ اس کے بجائے، وہ بڑی تعداد میں تقریب میں جمع ہوئے، ہر آنے والے کا ویڈیوبناتے رہے۔ وہ پروگرام میں شریک لوگوں کو ڈرانا چاہتے تھے۔

مومن کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے کتاب نہیں پڑھی کیونکہ یہ اب تک صرف اردو میں شائع ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں،’تو، وہ نہیں جانتے کہ مصنف نے کتاب میں اصل میں کیا لکھا ہے۔ لیکن وہ اپنے آقاؤں [بی جے پی حکومت] کو مایوس کرنے سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ایک  کتاب کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)