خبریں

واجپائی حکومت نے برٹش رپورٹ میں گجرات فسادات کو پہلے سے منصوبہ بند قرار دینے کی مخالفت نہیں کی تھی

خصوصی رپورٹ:  2002 کے گجرات فسادات پر اسی سال برطانوی سفارت کاروں کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں فسادات کو پہلے سے منصوبہ بند قرار دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس وقت اس رپورٹ کے لیک ہونے پر وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے برطانوی سکریٹری خارجہ سے بات کی تھی، لیکن رپورٹ کے نتائج کی مخالفت نہیں کی تھی۔

Modi-Gujarat-Riots

لندن: 2002 کے گجرات فسادات پر اسی سال برطانوی سفارت کاروں نےایک  تحقیقاتی رپورٹ تیار کی تھی، جو  لیک ہو گئی تھی۔ اس کے لیک ہونے پر اس وقت کی بی جے پی کی قیادت والی  اٹل بہاری واجپائی حکومت نے اعتراضات اٹھائے تھے، لیکن اس کے نتائج کی مخالفت نہیں کی تھی۔

اس میں کہا گیاتھا کہ ‘گجرات میں 2002 میں مسلم مخالف قتل عام ‘پہلے سے منصوبہ بند’ تھا، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) جیسی سنگھ پریوار کی تنظیموں نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا اور پولیس کو خصوصی طور پر قاتلوں  کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔’

اس بات کا اشارہ اس وقت کے ہندوستان کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ اور ان کے برطانوی ہم منصب جیک اسٹرا کے درمیان اس معاملے کےمتعلق  فون پر ہوئی آفیشیل  بات چیت سے ملتا ہے۔

فسادات کے وقت، گجرات میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی قیادت والی  بی جے پی کی حکومت تھی اور پوری  برطانوی رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا  تھاکہ 2002 کے ‘پہلے سے منصوبہ بند’ گجرات فسادات کے لیے ‘ وہ براہ راست ذمہ دار’ تھے۔

رپورٹ تیار کرنے والے برطانوی سفارت کاروں نے یہ بھی کہا تھا کہ ‘وی ایچ پی اور اس کے اتحادیوں کو ریاستی حکومت کی حمایت حاصل  تھی۔ ریاستی حکومت کے ذریعے بنائے گئے سزا معافی  کے ماحول کے بغیر وہ اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔’

سنگھ اور اسٹرا کے درمیان یہ ٹیلی فونک بات چیت ہندوستان ٹائمز کے ذریعےلیک ہوئی  سفارتی رپورٹ کے بارے میں ایک خبر شائع کرنے کے ایک دن بعد 16 اپریل 2002 کو ہوئی تھی۔

برٹش فارن آفس کا یہ ریکارڈ، فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ (ہندوستان کے آر ٹی آئی کی طرح ) کے ذریعے حاصل کیا گیا، جو اب تک سامنے نہیں آیا  تھا۔ دستاویز کے سیکشنز کو ریلیز کرنے سے پہلے دفتر خارجہ  کی جانب سےایڈٹ کیا گیا  تھا لیکن گجرات سے متعلق پیراگراف بالکلیہ موجود ہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ اسٹرا سے بات چیت کرنے سے پہلے جسونت سنگھ نےمودی کو قصوروار ٹھہرانے والی مکمل رپورٹ پڑھی تھی یا انہیں صرف  ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی محدود تفصیلات کی ہی  جانکاری تھی۔

کسی بھی طور پر انہوں نے لیک ہوئے نتائج کی مخالفت نہیں کی تھی،بلکہ  اپنے اعتراضات کو اس حقیقت تک  ہی محدود رکھا کہ رپورٹ کے مندرجات میڈیا میں سامنے آئے ہیں ۔ انہوں نے برطانوی رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد کے متعلق سوال اٹھائے تھے، لیکن گجرات پولیس (اور حکومت) اور مودی سے وابستہ سیاسی تنظیموں کی جانب سے ادا کیے گئے  کردار کے بارے میں اس کے نتائج پر نہیں۔

سنگھ نے کہا تھا کہ وہ ‘بہت  مایوس’ ہیں کہ برطانوی نتائج خفیہ نہیں رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ برطانوی رپورٹ میں مذکور اموات کی تعداد غلط ہے۔ برطانوی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ کم از کم 2000 لوگ مارے گئے تھے، جبکہ اس وقت ہلاکتوں کی سرکاری ہندوستانی تعداد 850 تھی۔

بات چیت کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹرا ہی نے سنگھ کو فون کیا تھا۔ اسٹرا کے پرائیویٹ سکریٹری نے فون کال کی تفصیلات درج کی تھیں۔

سنگھ–ا سٹرا کی اس بات چیت کے نو دن بعد، بی بی سی نے لیک رپورٹ کی مزید تفصیلات شائع کی تھیں۔

فسادات کی برطانوی حکومت کی تحقیقات دہلی میں اس کے ہائی کمیشن میں تعینات ماہر سفارت کاروں نے کی تھیں۔ ٹیم نے 8 اور 10 اپریل 2002 کے درمیان گجرات کا دورہ کیا تھا۔ میڈیا تک پہنچی رپورٹ کے مندرجات نے واجپائی حکومت کو پریشان کر دیا تھا۔

غور طلب ہے کہ 15 اپریل 2022 کو ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ،’ ہندوستان کی بین الاقوامی امیج کو رپورٹ یہ کہہ کرسب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے کہ گجرات میں گودھرا کے بعد ہونے والا تشدد پہلے سے منصوبہ  بند تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سابرمتی ایکسپریس سانحہ رونما نہ ہوا ہوتا تو پہلے سے طے شدہ تشدد کو ردعمل کے طور پر ہونے والا تشدد قرار دے کر منصفانہ ٹھہرانے کے لیے کوئی اور واقعہ رچایا جاتا۔’

نئی دہلی میں واقع برطانوی ہائی کمیشن کی طرف سے لندن میں برطانوی دفتر خارجہ کو بھیجی گئی اعلیٰ خفیہ تحقیقاتی رپورٹ کا موضوع ‘گجرات پوگروم’ (گجرات قتل عام) تھا۔

قابل ذکر ہے کہ برطانوی حکومت کی یہی تحقیقاتی رپورٹ اس سال جنوری میں نشر ہونے والی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کا مرکزی نقطہ تھی، جس میں گجرات فسادات میں مودی کے رول پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اسٹرا نے پروگرام میں تصدیق کی کہ بطور خارجہ سکریٹری انہوں نے واقعی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ بعد میں، دی وائر کے لیے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے رپورٹ کے اہم نتائج کو دہرایا تھا۔

برطانوی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیاتھا کہ 27 فروری 2002 کی رات — جب گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد شروع ہو رہا تھا — مودی نے ریاستی پولیس کو مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ نتیجتاً مسلمانوں کو ہندوتودا ی شدت پسندوں کے ظلم کا نشانہ بننا پڑا تھا۔

مودی نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور انہیں 2022 میں سپریم کورٹ آف انڈیا سے کلین چٹ مل گئی تھی۔

بی بی سی کی ڈاکیومنٹری  میں اس حقیقت کو اجاگر کیا گیاتھاکہ تین میں سے دو افراد – (دونوں ہندوستانی پولیس سروس کے افسران) سنجیو بھٹ اور آر بی سری کمار – جنہوں نے مودی کی جانب سے ریاستی پولیس کو فسادات میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایات جاری کرنے کے بارے میں گواہی دی تھی ،ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور انہیں  جیل میں ڈال دیا گیا۔بھٹ اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ سری کمار، جنہیں جون 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا، ضمانت پر باہر ہیں۔

ایک غیر رسمی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو ثبوت دینے والے گجرات کےسینئر بی جے پی لیڈر ہرین پانڈیاکو پراسرار حالت میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس بات کی تصدیق بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں کی۔

ڈاکیومنٹری نے بین الاقوامی سطح پر ہلچل مچا دی تھی۔ وزارت خارجہ نے بی بی سی پر حملہ کرتے ہوئے  الزام لگایا کہ وہ ‘نوآبادیاتی ذہنیت’ کی حامل ہے۔ اس کے فوراً بعد بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر پر ہندوستانی محکمہ انکم ٹیکس نے چھاپے مارے تھے۔

(آشیش رے غیر ملکی نامہ نگار اور سی این این کے سابق مدیر ہیں۔)

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)