شاہ رخ خان کی فلم ‘جوان’ کا واضح سیاسی پیغام یہ ہے کہ جمہوریت کو ‘فعال شہریوں’ کی مسلسل نگرانی سے الگ کر کے سیاستدانوں کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔
نکولو مکیاویلی نے اگر حالیہ ہندوستانی بلاک بسٹر ‘جوان’ کوتہلکہ مچاتے ہوئے دیکھا ہوتا تو، انہیں خوشی ہوتی کہ ان کا نظریہ– ایک جمہوریت میں فعال شہریت– اس کے بیانیہ میں نمایاں طور پر شامل ہے۔ یونانیوں اور رومیوں کے مداح رہے نکولو مکیاویلی کا خیال تھا کہ شہریوں کو ووٹ دینے کے اوقات کے درمیان مسلسل متحرک اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شہری معاملات میں اس چوکسی اور وابستگی کے بغیر کوئی پائیدار جمہوریت نہیں ہو سکتی اور ایسے جمہوری اقدار کے بغیر حقیقی جمہوریت کا تصور محال ہے۔
امریکی معماروں نے اس سبق کو بخوبی حفظ کیا، اور ہندوستانیوں نے اس وقت اس سبق کو اپنایا جب انہوں نے ہندوستان کو ایک جمہوریت کا نام دیا، اور حال میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ ‘جوان’ کے ذریعے دنیا کے سب سے بڑے فلمی ستاروں میں سے ایک شاہ رخ خان نےکرشماتی انداز میں اس انتہائی سادہ مگر طاقتور سیاسی پیغام کو پھیلایا۔
ریلیز کے پہلے چار دنوں میں ہی 60 ملین ڈالر کمائی کرنے کے بعدیہ فلم شاہ رخ خان کے متعدد پہلوؤں کاحوالہ بنتی ہوئی نظر آئی- انصاف کے لیے بدلہ لینے والا، کم علم وزیروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنےوالا ، بدعنوانی اور نااہل حکومتوں اور کرونی سرمایہ داروں کو بے نقاب کرنے والا۔ کمزور لوگوں میں دولت تقسیم کرنے والا، زراعت پرچرچہ کرنے والا، سچ بولنے کی پاداش میں سزا یافتہ لوگوں کےانصاف کی لڑائی لڑنے والا۔ اور شاہ رخ یہ سب ان کی مخصوص پہچان یعنی چارم اور ایتھلیٹکزم کے ساتھ کرتے ہیں اور سنیما گھروں میں عوام الناس کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ وہ لوگوں کوان سنگین ناانصافیوں کے بارے میں بتاتے ہیں، جن پر وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ،اس کے ساتھ ہی ولن کو شکست دے کر انہیں پرجوش بھی کرتے رہتے ہیں۔
یقیناً،یہ زبردست ایکشن سین، رومانٹک گانے اور ہیرو کے متعدد کرداروں کا ایک اسٹائلش سینما میش—اپ ہے۔ لیکن اس فلم صرف یہ دیکھنا اس کے اصل چارم سے محروم ہوجانا ہے، جس کا تعلق شاہ رخ کی حالیہ زندگی سے ہے۔ اپنے مداحوں کے لیے’کنگ’ خان واحد ایسےاسٹار ہیں، جن کی آف اسکرین شخصیت کو بھی اتنا ہی سراہا جاتا ہے جتنا کہ ان کے کرداروں کو۔ لیکن وہ ایک مسلمان ہیں اور ہندوستان میں رہتے ہیں جہاں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کا غالب نظریہ ’ہندوتوا‘ یا ہندو اکثریت پسندی ہے، جو مذہبی تنوع کے تئیں ہندوستان کی آئینی وابستگی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
چند سال قبل شاہ رخ نےہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم روداری کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا اور اس کے لیے انہیں دائیں بازو کے ٹرولز کے شدید حملوں اور اپنی فلموں کے بائیکاٹ کی اپیل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد سے انہوں نے کوئی سیاسی بیان نہیں دیا، جس کے باعث ان لوگوں کو مایوسی ہوئی جو چاہتے ہیں کہ عوامی زندگی گزارنے والے تمام لوگ ایک اسٹینڈ لیں۔ لیکن ان کی اس خاموشی کے باوجود دو سال قبل ایک سرکاری ایجنسی نے ان کے بیٹے کو منشیات رکھنے، جس کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے، کے الزام میں جیل میں ڈال دیا۔ شاہ رخ بہت پیار کرنے والے فادر ہیں اور اکثر اپنے بچوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ یہ ایسا تھاگویا حکومت نے طے کر لیا ہوکہ سب سے مشہور ہندوستانی مسلمان کووہاں تکلیف پہنچانی ہے،جہاں سب سے زیادہ درد ہو۔
امتحان کی اس مشکل گھڑی میں شاہ رخ اور ان کی اہلیہ نے مہذب انداز میں خاموشی اختیار کر لی،حالاں کہ ان کے لیے بے پناہ ہمدردی کا مشاہدہ کیا گیا۔سوشل میڈیا پر ہر طرف تکنیکی ماہرین، جونیئر صحافیوں، نوجوان ساتھیوں اور عام لوگوں کے ساتھ ان کی نیکی اور شائستگی کےلامتناہی قصے بکھرے ہوئے ہیں۔ خواتین نے ان کی اس کی شائستگی کی تعریف کی، جسے وہ عام طور پر اس وقت بھی برتتے ہیں جب کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ سب نے ان کی فہم وفراست کو سراہا ہے۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری سیاسی طور پر محرک تھی۔ ان کے وکیل ان کے بیٹے کو رہا کرانے میں کامیاب رہے اور شواہد کے فقدان میں اس سال ان الزامات کو خارج بھی کر دیا گیا۔ اس کے جواب میں کوئی بیان دینےاور ہزاروں گھروں کو چلانے والی کسی فلم کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے شاہ رخ نے وہی کیا جو وہ سب سے بہتر انداز میں کرتے ہیں، اور ‘جوان’ اسی کا ردعمل ہے۔
فلم کے اختتام سے چند منٹ قبل، اس سے پہلے کہ ناظرین چلے جائیں، شاہ رخ اسکرین پر اکیلے نظر آتے ہیں اور کیمرے سے براہ راست بات کرتے ہیں۔ ہر دیکھنے والے پر نگاہ رکھتے ہوئے، وہ ہمیں ہماری چنی ہوئی حکومت کے بجائےکپڑے دھونے کے پاؤڈر کے بارے میں زیادہ سوال کرنے کو لے کر سرزنش کرتے ہیں۔ وہ ناظرین کو یاد دلاتے اور متنبہ کرتے ہیں کہ انہیں، عام شہریوں کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ حقیقی سپر ہیرو ہیں، کیونکہ وہ جمہوریت میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ووٹ ہے جو ان کی سپر پاور ہے۔ وہ ان سے کہتے ہیں کہ دانشمندی سے انتخاب کریں– اور ایک بار جب کسی کو منتخب کرلیں، تو سوال پوچھتے رہیں۔
نکولو مکیاویلی کی طرح ہی ان کا واضح سیاسی پیغام یہ ہے کہ جمہوریت کو’فعال شہریوں‘ کی مسلسل نگرانی سے الگ کر کے لیڈروں کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ فلم ہندوستانی ہے، لیکن اس کا پیغام آفاقی ہے۔
یہ پیغام دیتے ہوئے وہ اس انتہائی دلچسپ فلم کے ایک آخری اور سانس روک دینے والے اسٹنٹ پر واپس جاتے ہیں۔ فلم ؛جوان’کو بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے۔ ‘ایس آر کے’ فین کلب نے ہندوستان اور بیرون ملک کےسنیما گھروں میں بڑے بڑے بینرز لگا کر تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ شائقین شاہ رخ کے سگنیچر لُک— یعنی اپنے چہرے پر پٹیاں اور ماسک پہن کرفلم دیکھنےپہنچ رہے ہیں۔ شاہ رخ کے مشہور ڈانس مووز کویاد کر لیا گیا ہے اور اسکریننگ کے دوران انہی کی طرح سرخ شرٹ پہن کر اور ‘ان کے ساتھ’ اسے پرفارم کیا جارہا ہے۔ لوگ کئی کئی بار فلم دیکھنے کے لیے واپس جا رہے ہیں۔
اس طرح کا جنون کیوں؟ یقیناً اس کے پیچھے شاہ رخ کا بہت بڑاچارم ہے، لیکن لوگ ان سے یہ بھی سننا چاہتے ہیں کہ وہ بھی جرأت کر سکتے ہیں اور متحرک شہری بن کر طاقتور لوگوں کو شکست دے سکتے ہیں اوراس کے بارے میں گہرائی سے غوروخوض کرسکتے ہیں کہ وہ کس طرح کے ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔ مجموعی طور پر، وہ جذباتی زبان میں جمہوری سیاست اور شہریوں کے اوصاف کے بارے میں حقیقت بیان کرتے ہیں۔ ترقی پسند سیاست کو بھی جذباتیت کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں دائیں بازو کی سیاست کو مہارت حاصل ہے، لیکن ہندوستان اور دیگر جگہوں پر سینٹر اور بائیں بازو کے محاذوں میں اس کی کمی رہی ہے۔
شاہ رخ سنگین مسائل کو اٹھانے کے لیے لاکھوں لوگوں کی محبت کو اعتماد کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ایک الگ راہ دکھاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ناظرین کواپنے بارے میں اچھا محسوس ہوتا ہے اور جس کی وجہ سےمشکل سوالوں کو اٹھانا ان کی طرح ہی دلکش لگتا ہے۔جیساکہ ‘باربی’ اور ‘اوپن ہائیمر’ نے دکھا یا ہے کہ فیمنزم، گھمنڈ اور اخلاقی فریب سے وابستہ سبق بھی مزے کے ساتھ دیے جا سکتے ہیں۔ فلم جوان اسی بات کو اگلی سطح پر لے جاتی ہے۔
(مکلیکا بنرجی لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھاتی ہیں۔) (انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: ادبستان