الیکشن نامہ

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کارگل میں ہوئے پہلے انتخاب میں نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد نے جیت درج کی

لداخ آٹونومس ہل ڈیولپمنٹ کونسل (کارگل) کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے 26 میں سے 22 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ انتخابی نتائج کو بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے بارے میں کیے گئے فیصلوں اور اس کے نتیجے میں خطے میں نافذ کی گئی پالیسیوں کے ردعمل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

کارگل شہر۔ (تصویر بہ شکریہ: Narender9/CC BY-SA 2.0/Files)

کارگل شہر۔ (تصویر بہ شکریہ: Narender9/CC BY-SA 2.0/Files)

سری نگر: آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کارگل میں ہوئے پہلے انتخاب میں اپوزیشن کے ‘انڈیا الائنس’ کے اتحادیوں – نیشنل کانفرنس اور کانگریس – نے لداخ آٹونومس ہل ڈیولپمنٹ کونسل (کارگل) کے انتخابات میں 26 میں سے 22 نشستوں پرشاندار جیت درج کی ہے۔

جموں و کشمیر کی سب سے پرانی پارٹی نیشنل کانفرنس (این سی) کا اس خطے میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم اکثریتی کارگل ضلع اپنی جغرافیائی علیحدگی کے باوجود سیاسی طور پر کشمیر سے الگ نہیں ہے۔

انتخابی نتائج کو بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے بارے میں کیے گئے فیصلوں اور اس کے نتیجے میں خطے میں نافذ کی گئی پالیسیوں کے ردعمل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی شاندار کارکردگی

یہ انتخابات لداخ کی ریاستی حیثیت اور آئینی تحفظات کے لیے جاری لڑائی کے درمیان ہوئے تھے، جن میں نیشنل کانفرنس نے 12 نشستیں حاصل کیں، جبکہ اس کی اتحادی کانگریس نے 10 نشستیں حاصل کیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور آزاد امیدوار دو دو سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

نیشنل کانفرنس اور کانگریس دونوں نے بی جے پی کو دور رکھنے کے لیے پری پول معاہدہ کیا تھا۔ ان کے اقتدار کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق، دونوں جماعتوں کو پہاڑی کونسل کی ایگزیکٹو کونسل میں مساوی حصص حاصل ہوں گے۔

دونوں جماعتوں نے نتائج کو بی جے پی اور اس کے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو خارج کرنے والا قرار دیا۔

سوشل سائٹ پر ایک پوسٹ میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ نتیجہ بی جے پی اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ایک زبردست فیصلہ ہے اور مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کے ساتھ جو کچھ کیا اس مسترد کیا گیا ہے۔

لداخ یونین ٹیریٹری میں کانگریس کے ورکنگ صدر حاجی اصغر علی کربلی نے کہا کہ بی جے پی کو کارگل کے لوگوں نے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘پیغام واضح ہے کہ بی جے پی اور اس کی پالیسیاں یہاں کے لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔’

جہاں نیشنل کانفرنس نے اس الیکشن کو 5 اگست 2019 کے فیصلوں پر ریفرنڈم کے طور پر پیش کیا تھا، وہیں بی جے پی نے اپنے ٹریڈ مارک ہندو بنام مسلم سیاست سے ہٹ کر ایک غیر معمولی اقدام میں ضلع کے آبادیاتی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے مسلم کارڈ کھیلنے کی کوشش کی تھی۔

کارگل ایک مسلم اکثریتی ضلع ہے اور اس کے باشندے زیادہ تر شیعہ مسلک کے پیروکار ہیں۔

بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے اور سابقہ ریاست جموں و کشمیر کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دوبارہ منظم کرنے کے بعد کارگل میں یہ پہلی انتخابی لڑائی تھی۔

نیشنل کانفرنس کے انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے سے ایک بار پھر یہ اشارہ ملتا ہے کہ کارگل سیاسی اور نفسیاتی طور پر جموں یا نئی دہلی کے مقابلے کشمیر کے زیادہ قریب ہے۔

سال 2021 میں لیہہ اور کارگل دونوں کے لوگوں نے لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور مقامی لوگوں کے لیے آئینی تحفظات کا مطالبہ کرنے کے لیے ہاتھ ملایا تھا۔

بی جے پی کو جھٹکا؟

تاہم، اس بار بی جے پی نے 2018 میں ایک سیٹ کے مقابلے دو سیٹیں جیت کر اپنی کارکردگی کو بہتر کیا ہے، لیکن اس نتیجے کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی کے لیے ایک بڑے جھٹکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پڑوسی لیہہ ضلع میں 2020 کے پہاڑی کونسل کے انتخابات میں بی جے پی نے 2015 کے انتخابات کے مقابلے تین کم سیٹیں جیتی تھیں۔

موجودہ نتائج پر سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ کارگل ضلع میں بدھ مت کی اکثریت والی تین سیٹوں میں سے بی جے پی صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی، جبکہ باقی دو نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے حصے میں گئیں۔

وہ پدم کی بدھ اکثریت والی سیٹ نیشنل کانفرنس سے 54 ووٹوں سے ہار گئی اور کرشا کانگریس سے 79 ووٹوں سے ہار گئیں، جبکہ چا سیٹ پر 234 ووٹوں سے جیت گئی۔

نیشنل کانفرنس، کانگریس اور دو دیگر آزاد امیدواروں کے درمیان مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے بی جے پی مسلم اکثریتی اسٹیکچائے کھنگرال سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔

یہاں بی جے پی امیدوار پدما دورجے نے کانگریس کے سید حسن کو 177 ووٹوں سے شکست دی۔

بھگوا پارٹی کے نمایاں چہرے اور جموں و کشمیر قانون ساز کونسل کے سابق اسپیکر حاجی عنایت علی پوئین علاقے میں نیشنل کانفرنس سے 366 ووٹوں سے الیکشن ہار گئے۔

بی جے پی ایم پی جمیانگ نمگیال نے دی وائر کو بتایا، ’ہم نے اپنی سیٹوں کی گنتی اور ووٹ شیئر کو بہتر کیا ہے۔’

پہاڑی کونسل انتخابات کے نتائج سے جموں و کشمیر اور لداخ میں کمزور کانگریس کے مضبوط ہونے کا امکان ہے، جہاں بی جے پی اس کی اہم حریف ہے۔

جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں اور کانگریس اور سی پی آئی (ایم) کی قومی قیادت نے ‘انڈیا’ اتحاد کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔